ترَاس قسط۔۔۔۔22

ترَاس                                 
                                                                                                                                                22ترَاس ۔۔۔
جیسے ہی عادل گلاس لیکر واپس مُڑا۔۔۔تو اچانک میری نگاہ اس کی نیکر پر پڑ گئی ۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔ تو میں نے دیکھا کہ اس وقت اس کی نیکر تنبو بنی ہوئی تھی۔۔۔اس کے جاتے ہی عظمیٰ نے اماں کی طرف دیکھا اور بولیں ۔۔ آپ بڑی استاد ہو نیلو باجی ۔۔۔ تو اماں کہنے لگیں ۔۔۔ کھتے یار۔۔۔۔ لیکن عظمیٰ نے ان کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا ۔اماں کی طرف دیکھا اور اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ کب تک؟ تو اماں بولیں۔۔۔تھوڑا صبر کر لو۔۔۔۔۔ پہلے مجھے تو اس چکنے کو چکھنے دے ۔۔۔۔پھر اس کے بعد اماں اور عظمیٰ باجی بے چارے عادل کے بارے مین گفتگو کرنے لگیں ۔۔۔۔اسی دورا ن مجھے بڑے زور کا پیشاب لگ گیا تھا ۔۔۔ اس لیئے میں واش روم میں چلی گئی ۔۔۔۔ اور پیشاب کرتے ہوئے ۔۔۔ بھی ۔۔۔ اماں اور عظمیٰ کے بارے میں سوچتی رہی کہ دیکھو ۔۔۔۔۔ یہ دونوں کب اس سے اپنی پھدیاں مرواتی ہیں ۔۔۔۔اور پھر میں نے دل ہی دل میں طے کر لیا کہ میں ان دونوں کا لزت سے بھر پور یہ شو ضرور دیکھوں گی۔۔۔ اور آنے والے وقت کا انتظار کرنے لگی۔۔۔
لیکن اس سے پہلے احتیاطً میں نے ایک دفعہ پھر سے اماں کے کمرے کا اس حسا ب سے جائزہ لیا کہ اماں کا شو کس اینگل سے اچھا نظر آئے گا ۔۔۔ لیکن کافی تلاش کے بعد بھی مجھے ایسی کوئی جگہ نہ ملی کہ جہاں سے میرا کام ہو سکتا تھا آخر میں نے اس کام کو وقت کی مناسبت سے کرنے کا فیصلہ کیا اور کمرے سے باہر آگئی۔۔۔اور اس کے بعد میں نے اماں کو نوٹ کرنا شروع کر دیا اور میں نے دیکھا کہ اماں بڑے ہی محتاط انداز میں عادل کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھیں ۔موقعہ بہ موقعہ وہ عادل کو اپنی چھاتیوں کا بھر پور نظارہ کرواتی تھی ۔۔۔ اور کبھی کھبی ۔۔۔ اپنی موٹی گانڈ کا بھی درشن کروا دیتی تھی۔۔۔۔۔ اماں کے یہ انداز دیکھ دیکھ کر دھیرے دھیرے عادل بھی اماں میں دل چپسی لینا شروع ہو گیا تھا۔۔لیکن وہ اماں کے مرتبے کو سامنے رکھتے ہوئے ۔۔۔ بہت جھجھک رہا تھا ۔۔۔۔لیکن اس کے باوجود ۔۔۔۔چوری چوری ۔۔۔ ہوس بھری نظروں سے اماں کی چھاتیوں اور موٹی گانڈ کو دیکھا کرتا تھا ۔۔۔پورے گھر میں ہی وہ واحد فرد تھی کہ جو ان دونوں کے درمیان کم ہوتے ہوئے فاصلوں کا بغور جائزہ لے رہی تھی۔ میں ان دونوں کی یہ ساری باتیں نوٹ کر رہی تھی لیکن میں نے اس بات کا زکر ۔۔۔۔ عطیہ بھابھی سے نہیں کیا تھا اور نہ ہی اپنی اماں کے بارے میں ان سے کوئی ایسی بات کرنے کا ارادہ بھی تھا۔۔۔۔
ایک دن کا زکر ہے کہ کالج سے واپسی پر جب میں عطیہ بھابھی کے کمرے میں پہنچی تو وہ بڑی تیار ہو رہی تھی تو میں نے سمجھا کہ وہ عادل کے ساتھ کہیں گھومنے جا رہی ہے کیونکہ جب سے عادل آیا تھا وہ دونوں بہن بھائی فائق بھائی کے ساتھ ہر دوسرے تیسرے دن کہیں نہ کہیں گھومنے چلے جاتے تھے اسی لیئے بھابھی کو تیاری کرتے دیکھ کر میں نے ان سے پوچھا کہ آج کہاں کی تیاری ہے؟ تو وہ پرا سا منہ بنا کر کہنے لگی۔۔۔ نہیں یار آج ہم عادل کے ساتھ نہیں بلکہ ایک بڑی ہی بورنگ جگہ پر جا رہے ہیں تو میں نے ان سے پوچھا کہ لاہور میں ایسی کون سی جگہ ہے جو آپ کو اتنی بور لگتی ہے کہ اس کے لیئے تیار ہوتے ہوئے آپ کا منہ بنا ہوا ہے۔۔۔ میری بات سن کر بھابھی نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔ تم غلط سمجھی ہو ۔۔۔ میں عادل کے ساتھ نہیں بلکہ میں اور فائق کے ساتھ ہوٹل میں اس کی سالانہ میٹنگ اٹینڈ کرنے جا رہی ہوں تو میں نے اس سے کہا کہ سالانہ میٹنگ میں آپ کا کیا کام؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ یار پہلے ایک جلسہ ہو گا جہاں پر ان کا کھڑوس باس کمپنی کی کارکردگی کے بارے میں بتائے گا۔ کہ اس سال کمپنی نے کتنا منافع کمایا وغیرہ وغی
رہ ۔۔ پھر اس کے بعد تقریرں ہوں گی اور آکر میں ۔۔۔ کھانا ۔۔۔تو میں نے بھابھی سے کہ اس میں اتنا منہ بنانے کی کیا بات ہے تو بھابھی کہنے لگی۔۔۔۔ تم نہیں سمجھو گی ۔۔۔ اور جلدی جلدی تیار ہونے لگی ۔۔۔ بھابھی کو تیار ہوتے دیکھ کر میں ان کے کمرے سے باہر نکلنے لگی اور جیسے ہی میں واپسی کے لیئے مُڑی تو اچانک بھابھی کہنے لگی۔۔۔ ہما ۔۔یار ہو سکتا ہے ہم کو واپسی پر کچھ زیادہ ہی دیر ہو جائے تو تم ایسا کرنا کہ عادل کو ٹائم پر کھانا وغیرہ دے دینا ۔۔۔ کہ اس کو کسی اور سے کھانا مانگتے ہوئے شرم آتی ہے اس پر میں نے بھابھی سے پوچھا کہ بھابھی عادل آپ لوگوں کے ساتھ نہیں جا رہا ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ نہیں یار ۔۔۔ ایسی بورنگ جگہ پر وہ جا کر کیا کرے گا پھر بولی ویسا میں نے اس سے پوچھا تو تھا لیکن اس نے صاف انکار کر دیا ہے کہ وہ نہیں جا رہا ۔۔۔۔
بھابھی کے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے پتہ نہیں کیوں میرے زہن میں ایک ہی خیال آ رہا تھا ۔۔۔ کہ بھائی اور بھابھی کسی پارٹی میں جا رہے تھے۔۔۔ فیض بھائی کی بیگم ڈلیوری کے سلسلہ میں اپنے میکے گئی ہوئی تھی ۔۔۔ فیض بھائی آفس سے آ تے ہوئے پہلے اپنے سسرال جاتے تھے اور اس کے بعد رات گئے سونے کے لیئے گھر آتے تھے۔۔۔رہ گئے ابا ۔۔۔تو ان کی ٹائمنگ کا کوئی پتہ نہیں ویسے بھی وہ اکثر لیٹ ہی آتے تھے ۔۔۔اور ۔۔۔اب گھر میں صرف میں اماں اور ۔۔۔اور عادل بچتے ہیں ۔۔۔۔ اور ۔۔۔اور اگر میں بھی کہیں چلی جاؤں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوہ ۔۔۔۔۔ تو آج ۔۔۔۔۔ پارٹی ٹائم ہے ۔۔ یہ سوچ کر میرا تن بدن جوش سے بھر گیا اور جلدی سے میں اپنے کمرے کی طرف چلی گئی ۔۔۔ اور کپڑےوغیرہ تبدیل کر کے دوپہر کے کھانے کے لیئے ڈائینگ ٹیبل پر پہنچ گئی۔۔۔۔ جیسے ہی میں کمرے سے باہر نکلی تو عطیہ بھابھی فائق بھائی کے ساتھ جا رہی تھی میں نے ان کو جاتے دیکھا اور کہا ۔۔۔۔ آپ لوگ بہت جلدی نہیں جا رہے تو بھابھی کی بجائے بھائی کہنے لگے ۔۔ اصل میں پہلے ہم نے اپنے ایک اور کولیگ کے گھر جانا ہے پھر وہاں سے ہم لوگ اکھٹے ہو کر ہوٹل جائیں گے۔
ان کے جانے کے بعد میں نے جلدی جلدی کھانا کھایا اور پھر ۔۔۔ عادل کو تلاش کرنے لگی۔۔۔ لیکن وہ کہیں نہ ملا ۔۔۔ پھر مجھے یاد آیا اور میں اماں کے کمرے کی طرف جانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ سامنے سے مجھے عادل خان آتا ہوا دکھائی دیا۔۔۔ وہ بڑی جلدی میں لگ رہا تھا ۔۔۔تو میں نے اس کو روک کر پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو ۔۔؟ وہ کہنے لگا۔۔۔وہ باجی۔۔۔ خالہ نے بلب لانے کو کہا ۔۔۔ پھر خود ہی کہنے لگا کہ خالہ کے کمرے کا زیرو واٹ کا بلب فیوز ہو گیا ہے اس لیئے وہ لینے جا رہا ہوں۔۔ عادل نے مجھے یہ کہا اور باہر جانے لگا جیسے ہی عادل واپسی کے لیئے مُڑا تو میں نے اس سے کہا۔۔۔ عادل کھانا کب کھاؤ گے ۔۔تو وہ میری طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔۔۔باجی نے کھانا کھلا دیا تھا۔۔۔ تو پروگرام کے مطابق میں نے اس سے کہا ۔۔ کہ مجھے بڑے زور کی نیند آرہی ہے اس لیئے میں اپنے کمرے میں سونے جا رہی ہوں ۔۔۔ اگر بھوک لگے تو مجھے اٹھا دینا ۔۔۔اور اپنےکمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی عادل میری نظروں سے اوجھل ہوا۔۔ میں ایک دم واپس ہوئی ۔۔۔۔۔ اور دبے پاؤں چلتی ہوئی اماں کے کمرے کی طرف جانے لگی ۔۔۔اماں کے کمرے کے پاس پہنچ رک میں رک گئی اور بڑے ہی محتاط انداز میں ۔۔۔ اور جھانک کر اندر دیکھا تو۔۔۔ اماں کا کمرہ خالی تھا۔یہ دیکھ کر میں تھوڑی پریشان ہو گئی۔۔۔ لیکن پھر بھی اپنی تسلی کے لیئے میں دبے پاؤں چلتی ہوئ اماں کے کمرے میں داخل ہوئی ۔۔ اندر جاتے ہی تو مجھے واش روم سے پانی گرنے کی آوازیں آنے لگی ۔۔۔اس کا مطلب یہ تھا کہ اندر اماں نہا رہیں تھیں ۔۔۔ اس لیئے میں دبے پاؤں چلتی ہوئی کمرے کی کھڑکی طرف گئی ۔۔۔ اور پردہ پیچھے کر کے کھڑکی کا شیشہ بھی کھو ل دیا۔۔۔۔
اسی اثنا میں واش روم سے پانی کے گرنے کی آواز بند ہو گئی اور میں نے آخری دفعہ کھڑکی کی طرف دیکھا اور اسے اپنی مرضی کے مطابق پا کر ۔۔۔۔۔ میں کمرے سے باہر ا ٓگئی۔۔۔اور ایک مناسب جگہ پر چھپ کر عادل کا انتظار کرنے لگی۔۔۔ کوئی دس منٹ کے انتظار کے بعد عادل ہاتھ میں زیرو کا بلب لیئے مجھے اماں کے کمرے کی طرف آتا دکھائی دیا۔۔۔۔ اور میں چھپ کر اسے آتا دیکھنے لگی۔۔۔ کچھ دیر بعد اماں کے کمرے میں تھا ۔۔۔ جیسے ہی عادل اماں کے کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔ میں بھی اپنی پناہ گاہ سے نکلی اور دبے پاؤں چلتی ہوئی اماں کی کھڑکی کے قریب پہنچ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔اور پھر بڑے ہی محتاط انداز میں اندر کی سن گن لیتے ہوئے اوپر کو اُٹھنے لگی ۔۔۔ اور اوپر اٹھتے وقت میں نے اماں کی آواز سنی وہ عادل سے مخاطب وہ کر کہہ رہی تھیں ۔۔۔ یہ ہما کہیں نظر نہیں آ رہی؟؟؟ تو عادل بولا۔۔ جی وہ سو رہی ہیں ۔۔۔تو اماں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا کہ تم کو کیسے معلوم؟ اس پر عادل نے میری اس کے بیچ ہونے والی ساری گفتگو اماں کے گوش گزار کر دی۔۔۔۔ادھر دھیرے دھیرے میں بھی کھڑکی کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو چکی تھی۔۔۔ تو میں نے دیکھا کہ اس وقت اماں ڈریسنگ کے سامنے کھڑی اپنے بال سنوار رہی تھی ۔۔۔ جس وقت عادل نے اپنی بات ختم کی تو اماں نے مُڑ کر عادل پیچھے کی طرف دیکھا تو واضع طور پر میں نے اماں کے چہرےپر گہرے اطمینان کی جھلک دیکھی تھی ۔۔۔ عظمیٰ ٹھیک کہتی تھی اماں بڑی استاد تھی ۔۔۔کس طرح سرسری سا لہجہ بنا کر اس نے میرے بارے میں عادل سے معلومات لے لی تھی پھر اماں ڈریسنگ سے ہٹی اور عادل کی طر ف مُڑ گئی۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ اماں نے سفید رنگ کی ایک کھلے گلے والی تنگ سی قمیض پہنی ہوئی تھی۔اور اس قمیض کا گلا اتنا کھلا تھا کہ مجھے دور سے دیکھنے پر ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی اماں کی بھاری چھاتیاں قمیض پھاڑ کر باہر نکل آئیں گی تو قریب کھڑے عادل کا کیا حال ہو رہا ہو گا۔۔اوپر سے نہانے کے بعد شاید اماں نے تولیئے سے اپنے گیلے بدن کو صاف نہیں کیا تھا جبھی تو اماں کی پتلی اور تنگ قمیض گیلی ہو کر اماں کے خوب صورت جسم کے ساتھ چپکی ہو ئی تھی۔۔۔جس سے اماں کا سارا جسم نظر آ رہا تھا ۔۔۔ اور میں نے عادل کی طرف دیکھا تو وہ سر جھکائے کھڑا تھا ۔۔۔ لیکن اماں سے نظر بچا کر گاہے۔ان کے جسم کو بھی دیکھ لیتا تھا ۔۔۔ اور بار بار کبھی ایک اور کبھی دوسری ٹانگ پر وزن ڈال کر کھڑا ہو رہا تھا ۔۔۔تنگ قمیض کے نیچے اماں نے اس نے ایک ٹائٹ سا تنگ سا پجامہ پہنا ہوا تھا ۔اور مجھے پورا یقین تھا کہ اس سے اماں کے اس ٹائیٹ پاجامے سے گانڈ کی ایک ایک پھاڑی صاف نظر ا ٓرہی تھی۔۔ ۔۔۔۔۔پھر میں نے دیکھا کہ عادل کو اچھی طرح سے اپنے جسم کا نظارہ کرانے کے بعد اماں نے ایک سٹول پکڑا اور عادل سے مخاطب وہ کر کہنے لگی۔۔ بلب کو اپنے ہاتھ میں پکڑے رکھو اتنی دیر میں میں ہولڈر سے پرنے بلب کو اتارتی ہوں ۔۔اور پھر اماں نے عادل کی طرف پشت کی اور پاس پڑے سٹول کو اٹھانے کے بہانے کافی زیادہ نیچے کو جھکی اور ۔۔۔ اپنی گانڈ کو نمایاں کر کے ۔ بولی ۔۔۔۔ یاد آیا ۔۔۔ عادل زرا دکھانا کہ تم کون سا بلب لائے ہو ۔۔۔ اور جیسے ہی عادل بلب پکڑ کر اماں کے قریب آیا تو ایک دم سے جھکی ہو ئی اماں ایک دم سے اوپر اُٹی ۔۔۔اور اماں کے یوں اوپر اُٹھنے سے ۔۔۔ اماں کی نرم گانڈ عادل کے لن سے ٹکرا گئی ۔۔ یہ دیکھ کر اماں جلدی سے بولی۔۔۔او سوری بیٹا۔۔۔ اور اس کے ہاتھ سے بلب لے کر دیکھنے لگی ۔۔اور بولی۔۔۔ بلب تو تم ٹھیک ہی لائے ہو۔۔۔ اور انہوں نے عادل کو بلب واپس کرتے ہوئے ۔۔۔سٹول اٹھایا ۔۔۔۔ جسے لیکر وہ ۔۔۔۔ کھڑکی کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔ چونکہ کھڑکی پر جالی لگی ہوئی تھی اور اندر ٹیوب لائٹ بھی جل رہی تھی اس لیئے کمرے کے اندر سے باہر دیکھے جانے کا کوئی احتمال نہ تھا۔اور ویسے بھی اس وقت اماں کی ساری توجہ عادل کو گھیرنے میں لگی ہوئی تھی ۔ جو بے چارہ ۔۔ سخت ڈرا ہوا تھا ۔۔ اندر سے اس کا دل کر بھی رہا تھا لیکن اماں کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے وہ پہل کرنے سے ڈر بھی رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ جب میں نے اماں کو کھڑکی کی طرف آتے دیکھا تو میں جلدی سے پیچھے کو ہٹ گئی ۔۔۔ اور ۔۔۔۔ ایک چھوٹی سی جھری سے کمرے کے اندر کا نظارہ دیکھنے لگی ۔ ادھر اماں عادل کو تڑپا کر مزہ لے رہی تھی۔۔۔ اور اپنی گانڈ کو مٹکا مٹکا کر چل رہی تھی ۔۔
۔۔ کھڑکی کے قریب پہنچ کر اماں نے سٹول کو بلب کے نیچے رکھا اور اس کے اوپر چڑھ کر عادل کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔ زرا سٹول کو پکڑ کر رکھنا ۔اور سٹول کے اوپر چڑھ گئی ۔ اماں کی بات سُن کر عادل نے اپنے ہاتھ میں پکڑا زیرو کا بلب سامنے پلنگ پر رکھا اور سٹول کو پکڑ لیا۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔اپنی چھاتیوں کا تو اماں نے عادل کو نیچے ہی نظارہ کروا دیا تھا ۔۔۔ اور اب نظارہ کرانے کی باری ا ماں کی موٹی گانڈ کی بلاشبہ دیکھنے میں اماں کی گانڈ بڑی ہی دل کش تھی ادھر جیسے ہی عادل نے اماں کے سٹول کو پکر کر اوپر کی طرف دیکھا تو ۔۔ اس کی نظر سیدھی اماں کی بڑی سی گانڈ پر پڑی۔۔۔جو اس کی تنگ اور باریک پجامے سے اس قدر واضع نظر آرہی تھی کہ اس پر نظر پڑتے ہی عادل کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔۔۔ اور اماں کی گانڈ کو دیکھتے ہوئے وہ بار بار اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتا رہا۔۔ ادھر اماں پرانے بلب کو اتارنے کے بہانے ۔۔عادل کو ہر زاویہ سے اپنی موٹی گانڈ کے درشن کروا رہی تھی۔۔۔اور نہ چاہتے ہوئے بھی ۔۔عادل کی نظریں اماں کی دونوں ٹانگوں کے سنگم پر لگی ہوئیں تھیں۔پھر میری نگاہ عادل کے نیچے پڑی تو میں نے دیکھا کہ سامنے سے اس کی نیکر پر بہت زیادہ اوپر کو اُٹھی ہوئی تھی۔اور عادل کی ایک نگاہ اماں کی گانڈ کی طرف اور دوسری اپنے لن کی طرف جا رہی تھی ۔۔ وہ بار بار اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہاتھا ۔۔۔اس وقت جزبات سے اس کا سانولہ چہرہ سرخ ہو رہا تھا ۔۔اور چہرے پر پسینے کے قطرے آئے ہوئے تھے جو مجھے یہاں سے بھی نظر آ رہے تھے۔۔ تھے۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے لن کو بٹھانے کی بھی بہت کوشش کر رہا تھا۔۔۔ جتنا وہ لن کو نیچے بٹھانے کو کوشش کرتا ۔۔اتنا ہی اس کا لن ۔۔۔ تناؤ میں آ جاتا تھا ۔۔۔ اور وہ پریشانی سے کبھی اماں کو اور کبھی۔۔۔ اپنے لن کی طرف دیکھتا جا رہا تھا۔۔۔ ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات ڈر بھی رہا تھا کہ ۔ کہ کہیں اس کے لن کے ابھار پر اماں کی نظر نہ پڑ جائے ۔۔۔۔دوسری طرف اماں نے پرانا بلب اتارا اور بولی عادل ۔۔۔ سٹول کو پکا پکڑنا کہ میں نیچے آنے والی ہوں ۔۔۔ اماں کا نیچےآنے کا سن کر عادل نے جلدی سے اپنے لن کو پکڑا اور اسے اپنی نیکر کے نیفے میں اڑس لیا۔۔۔
اتنی دیر میں اماں نیچے آگئی اور گہری نظروں سے عادل کی طرف دیکھ بولی۔۔۔ یہ تم کو اتنا پسینہ کیوں آیا ہوا ہے؟ تو عادل ۔۔۔ گھبرا کر بولا۔۔۔ وہ ۔۔۔وہ ۔خالہ ۔۔۔۔ آج گرمی بہت ہے نا۔۔۔ تو اماں ذومعنی الفاظ میں کہنے لگی ۔۔۔ ہاں عادل بیٹا گرمی تو بہت ہے اور عادل کی طرف دیکھتے ہوئے بلب کو نیچے گرا دیا ۔۔۔اور کہنے لگی سوری اور عادل کے سامنے ہی نیچے جھک گئی۔۔۔ اُف اماں کے نیچے جھکنے سے ایک بار پر میرے ساتھ ساتھ عادل کی نظر بھی اماں کی بھاری چھاتیوں پر پڑی ۔۔۔۔۔ اور اس نے ایک گہرا سانس لیا ۔۔۔۔۔اور بے بسی سے اماں کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔۔ ادھر اماں نے پرانے بلب کو فرش سے اُٹھایا اور پھر عادل سے کہنے لگی ۔۔۔۔ بیٹا میں سٹول کو پکڑتی ہوں ۔۔۔۔تم نئے بلب کو لگا دو۔۔۔ اماں کی بات سُن عادل نے بلب کو پلنگ سے اٹھایا اور سٹول پر چڑھ گیا۔۔۔ جبکہ اماں نے سٹول پر اپنا ایک ہاتھ رکھا ۔۔۔۔ عادل کی طرف دیکھتے ہوئے اسے ۔۔۔ خواہ مخواہ ہی ہدایت دیتے ہوئے بولی۔۔۔عادل بلب کو دائیں ہاتھ میں پکڑو ۔ورنہ یہ گر جائے گا ۔اور اماں کی بات سن کر عادل نے بلب کو بائیں سے دائیں ہاتھ میں منتقل کیا ۔ اس کے ساتھ ہی اماں نے بہانے سے اپنا منہ ۔۔۔۔ عادل کے پیٹ کےساتھ لگا لیا ۔۔۔اور ۔ پھر میں نے دیکھا کہ ادھر عادل ہولڈر میں بلب کو لگانے کی کوشش کر رہا تھا اور ادھر اماں کا ۔۔۔ چہرہ کھسکتا ہوا ۔۔۔ عادل کے نیچے کی طرف جا رہا تھا۔۔۔۔ اماں کی یہ حرکت دیکھ عادل نے ایک نظر نیچے دیکھا ۔۔۔اور پھر بلب لگانے لگا ۔۔۔۔ اور جیسے ہی عادل نے ہولڈر میں بلب پھنسانے کے لیئے اپنا ہاتھ اوپر کیا ۔۔۔۔۔۔عین اسی لمحے ۔ اماں نے نے اپنا منہ عادل کے پیٹ سے ہٹایا ۔۔۔۔۔اور۔۔۔ اور ۔۔ اپنے دونوں ہاتھ عادل کی رانوں پر رکھے اور ۔۔۔ عادل سے باتیں کرتے کرتے اچانک ہی اماں کا ہاتھ پھسلا ۔۔۔۔۔۔اوررررررررررررررررررررر۔۔۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے اچانک ہی عادل خان کی نیکر پھسل کر اس کے گھٹوں تک آ گئی ۔۔۔ ۔۔۔۔ نیکر نیچے ہوتے ہی ۔۔۔۔ اماں نے عادل ۔۔۔۔۔اور عادل نے اماں کی طرف دیکھا۔۔۔۔ اوررررررررررررررررررررررررررررررررررررر۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی۔۔۔۔باقی۔۔ آئیندہ۔۔۔۔۔۔

0 comments: