بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو دوستو کیسے ہو آپ ۔۔؟ سب مزے سے گزر رہی ہے دوستو جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میرے پاس باوا آدم کے زمانے کا ایک بائیک ہے جو چلتا کم ہے اور مجھے پیدل زیادہ چلاتا ہے اس لیئے میں بائیک پر اکثر پیدل مارچ زیادہ کرتا ہوا پایا جاتا ہوں ۔۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عرض ہے کہ ویسے تو بائیک بڑے مزے کی سواری ہے لیکن کبھی کی س اس پر مشکلیں بھی پیش آتیں ہیں ۔۔ خاص کر جب طوفانی بارش ہو رہی ہو تو۔۔۔۔۔ اس وقت ۔۔۔ چند انچ سےبھی آگے کچھ نظر نہیں آتا اور بائیک والا خاص کر اس وقت خود کر بڑا کوستا ہے ۔۔ تو دوستو یہ سٹوری بھی انہی طوفانی بارش کے دنوں کی ہے پڑھ کر اپنی رائے سے ضرور نوازنا کہ آ پ کو کیسی لگی ۔۔۔
ایک دن کی بات ہے کہ میں گھر سے آفس جانے کے لیئے نکلا تو اس وقت آسمان پر ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے چنانچہ گھر سے نکلتے وقت میں نے ایک نظر آسمان کی طرف دیکھا اور ہلکے بادل دیکھ کر ان پر کوئی خاص توجہ نہ دی اور بائیک کو کک مار ۔۔۔کر ۔۔سوری ۔۔اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میری بائیک پہلی کک پر تو اس وقت بھی اسٹارٹ نہیں ہوتی تھی کہ جب یہ نئی نئی ہمارے حبالہء دام میں آئی تھی(سیکنڈ ہینڈ لی تھی) ۔۔ سو بائیک کوککیں مار مار کر جب ہمارا دایاں پاؤں شل ہو گیا اور جب دل سے خود بخود بائیک ایجاد کرنے والے کے لیئے گالیاں نکلنا شروع ہو گئیں تو میں خوش ہو گیا کہ یہ اس بات کی نشانی تھی کہ اب بائیک اسٹارٹ ہونے کے قریب آ پہنچا ہے ۔۔۔ اور پھروہی ہوا ۔۔ کہ جب میں نے اپنا بچا کھچا زور لگا تے ہوئے بائیک اور اس کے ساتھ ساتھ بائیک کو ایک موٹی سی گالی ۔دیکر ۔ کک ماری ۔۔۔۔ تو۔۔۔ ۔۔۔پھٹ پھٹ کرتی ہوئی میری پھٹ پھٹی اسٹارٹ ہو گئی اور بندہ خود کہ یہ کہتا ہوا بائیک پر سوار ہو گیا کہ آج واپسی پر مستری کو ضرور دکھاؤں گا ۔ اوردفتر کی طرف چل پڑا ۔۔
ابھی میں گھر سے تھوڑی ہی دور گیاتھا کہ اچانک وہ ہلکے ہلکے بادل گھنگھور گھٹا میں تبدیل ہوگئے اور پھر یکا یک موسلا دھار بارش شروع ہو گئی اور یہ مینہ اتنی تیزی سے برسنے لگا کہ مجھے سامنے سے سوائے موسلا دھار بارش کے کچھ دکھائی نہ دینے لگا ۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنی پھٹ پھٹی کی سپیڈ مزید آہستہ کی اور سوچنے لگا کہ اب کیا کروں؟ پھر میں نے ادھر ادھر دیکھ کر غور کیا تو مجھے یاد آیا کہ یہاں پاس ہی ہمارے ایک نہایت ہی قریبی عزیزوں کا گھر ہے اور جن عزیز کی میں بات کر رہا ہوں ان کا نام جاوید اقبال تھا اور ان کے دو بچے تھے ایک لڑکا اسد جو کہ میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا اور دوسری ۔۔۔ جی جی ۔۔دوسری ان کی بیٹی کہ جس کا نام نازیہ تھا اور وہ ایم اے ہسٹری کر کے فارغ تھی اور گھر کے کاموں میں اپنی ماما کا ہاتھ بٹاتی تھی ۔۔۔ ۔۔۔ بڑی خوبصوت اور دلکش لڑکی تھی وہ اور اس کی خاص بات یہ تھی کہ وہ سمائلنگ فیس تھی ۔۔۔ اور اس کی یہی مسکراہٹ تھی کہ جس نے بڑوں بڑوں کو گھائل کیا ہوا تھا اور ان بڑے بڑے ناموں میں ۔۔۔۔ایک نکا سا میں بھی تھا ۔۔۔سمال کراکری چھوٹا بھانڈا۔۔ہاں تو میں آپ کو نازیہ کے بارے میں بتا رہا تھا ۔۔۔کہ ۔نازیہ ایک لمبے قدکی دودھیا گوری لڑکی تھی اور اس کے سینے پر بڑے بڑے ۔۔۔۔۔ابھار ۔۔۔۔ روز ہی ہم جیسوں کی نیت کو خراب کرتے تھے ۔۔اور اس کے ان بڑےبڑے مموں کی ایک خاص بات اس کے نوکیلے نپلز تھے جو عموماً اس کی ٹائیٹ فٹنگ قمیض میں سے صاف چھپتے بھی نہیں تھے اور نظر بھی آتے تھے اور یہ نوکیلے اور گلابی مائل نپلز اب بھی جب یاد کرتا ہوں تو میرے نیچے کچھ ہلچل سی مچ جاتی ہے ۔۔
ایک دن کی بات ہے کہ میں گھر سے آفس جانے کے لیئے نکلا تو اس وقت آسمان پر ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے چنانچہ گھر سے نکلتے وقت میں نے ایک نظر آسمان کی طرف دیکھا اور ہلکے بادل دیکھ کر ان پر کوئی خاص توجہ نہ دی اور بائیک کو کک مار ۔۔۔کر ۔۔سوری ۔۔اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میری بائیک پہلی کک پر تو اس وقت بھی اسٹارٹ نہیں ہوتی تھی کہ جب یہ نئی نئی ہمارے حبالہء دام میں آئی تھی(سیکنڈ ہینڈ لی تھی) ۔۔ سو بائیک کوککیں مار مار کر جب ہمارا دایاں پاؤں شل ہو گیا اور جب دل سے خود بخود بائیک ایجاد کرنے والے کے لیئے گالیاں نکلنا شروع ہو گئیں تو میں خوش ہو گیا کہ یہ اس بات کی نشانی تھی کہ اب بائیک اسٹارٹ ہونے کے قریب آ پہنچا ہے ۔۔۔ اور پھروہی ہوا ۔۔ کہ جب میں نے اپنا بچا کھچا زور لگا تے ہوئے بائیک اور اس کے ساتھ ساتھ بائیک کو ایک موٹی سی گالی ۔دیکر ۔ کک ماری ۔۔۔۔ تو۔۔۔ ۔۔۔پھٹ پھٹ کرتی ہوئی میری پھٹ پھٹی اسٹارٹ ہو گئی اور بندہ خود کہ یہ کہتا ہوا بائیک پر سوار ہو گیا کہ آج واپسی پر مستری کو ضرور دکھاؤں گا ۔ اوردفتر کی طرف چل پڑا ۔۔
ابھی میں گھر سے تھوڑی ہی دور گیاتھا کہ اچانک وہ ہلکے ہلکے بادل گھنگھور گھٹا میں تبدیل ہوگئے اور پھر یکا یک موسلا دھار بارش شروع ہو گئی اور یہ مینہ اتنی تیزی سے برسنے لگا کہ مجھے سامنے سے سوائے موسلا دھار بارش کے کچھ دکھائی نہ دینے لگا ۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنی پھٹ پھٹی کی سپیڈ مزید آہستہ کی اور سوچنے لگا کہ اب کیا کروں؟ پھر میں نے ادھر ادھر دیکھ کر غور کیا تو مجھے یاد آیا کہ یہاں پاس ہی ہمارے ایک نہایت ہی قریبی عزیزوں کا گھر ہے اور جن عزیز کی میں بات کر رہا ہوں ان کا نام جاوید اقبال تھا اور ان کے دو بچے تھے ایک لڑکا اسد جو کہ میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا اور دوسری ۔۔۔ جی جی ۔۔دوسری ان کی بیٹی کہ جس کا نام نازیہ تھا اور وہ ایم اے ہسٹری کر کے فارغ تھی اور گھر کے کاموں میں اپنی ماما کا ہاتھ بٹاتی تھی ۔۔۔ ۔۔۔ بڑی خوبصوت اور دلکش لڑکی تھی وہ اور اس کی خاص بات یہ تھی کہ وہ سمائلنگ فیس تھی ۔۔۔ اور اس کی یہی مسکراہٹ تھی کہ جس نے بڑوں بڑوں کو گھائل کیا ہوا تھا اور ان بڑے بڑے ناموں میں ۔۔۔۔ایک نکا سا میں بھی تھا ۔۔۔سمال کراکری چھوٹا بھانڈا۔۔ہاں تو میں آپ کو نازیہ کے بارے میں بتا رہا تھا ۔۔۔کہ ۔نازیہ ایک لمبے قدکی دودھیا گوری لڑکی تھی اور اس کے سینے پر بڑے بڑے ۔۔۔۔۔ابھار ۔۔۔۔ روز ہی ہم جیسوں کی نیت کو خراب کرتے تھے ۔۔اور اس کے ان بڑےبڑے مموں کی ایک خاص بات اس کے نوکیلے نپلز تھے جو عموماً اس کی ٹائیٹ فٹنگ قمیض میں سے صاف چھپتے بھی نہیں تھے اور نظر بھی آتے تھے اور یہ نوکیلے اور گلابی مائل نپلز اب بھی جب یاد کرتا ہوں تو میرے نیچے کچھ ہلچل سی مچ جاتی ہے ۔۔
بیل کے جواب میں مسزز جاوید نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھتے ہی ان کے چہرے پر ایک مہربان مسکراہٹ ابھری اور وہ بڑی شفقت سے کہنے لگیں ۔۔۔ارے۔۔۔آج یہ چاند کدھر سے نکل آیا ۔۔ پھر جیسے ہی ان کی نظریں میرے بھیگے بدن پر پڑیں تو وہ ایک دم چونک گئیں اور بولیں ۔۔۔اوہ۔۔۔او۔۔۔۔ بیٹا تم تو بُری طرح سے بھیگ گئے ہو ۔۔جلدی سے اندر آ جاؤ ۔۔۔ اور خود ایک طرف ہٹ گئیں جیسے ہی میں اندر داخل ہوا تو ۔۔۔۔ تو انہوں نے فورا ً ہی اپنی بیٹی (نازیہ ) کو آواز دی نازیہ۔۔۔۔ ادھر آؤ۔۔۔اور پھر انہوں نے وہیں سے دوبارہ آواز لگائی اور کہنے لگیں ۔۔۔ بیٹا جلدی سے بھائی کے کپڑے لے آؤ ۔۔ اور پھر مجھ سے بولیں ۔۔ ایسا کرو کہ پہلے تم کپڑے تبدیل کر لو ۔۔۔اتنے میں ، میں تمھارے لیئے چائے لیکر آتی ہوں ۔۔ اسی دوران نازیہ بھی کمرے میں داخل ہو گئی اور مجھے دیکھ کر بولی ۔۔۔ اوہو ۔۔ بھائی آپ تو بُری طرح سے بھیگ چکے ہو ۔۔۔۔پھر بولی آپ ایسا کروکہ باتھ روم میں بھائی کا نائیٹ پاجامہ ٹنگا ہے وہ پہن لیں اور یہ بھیگے کپڑے آپ مجھے دےدیں کہ میں ان کو استری کر کے سکھا دیتی ہوں ۔
نازیہ کی بات سُن کر میں جلدی سے واش روم میں گھس گیا اور اس کے بھائی کا نائیٹ پاجامہ شرٹ پہنا اور اور اپنے گیلے کپڑے لیکر باہر آ گیا ۔۔۔۔ نازیہ کمرے کے باہر میرا انتظار کر رہی تھی ۔۔ جیسے ہی میں واش روم سے باہر آیا اور اس کی نظریں مجھ پر پڑی ۔۔۔ پہلے تو وہ ٹھٹھک گئی ۔۔۔اور پھر وہ بڑے زور سے ہنسے لگی ۔۔۔۔ پھر اچانک پتہ نہیں اسے کیا یاد آیا کہ ایک دم سے اس کا دودھیا چہرے لال ہو گیا ۔۔۔۔۔ ادھر میں حیرانی سے اسے تکے جا رہا تھا کہ پتہ نہیں اس لڑکی کو کیا ہو گیا ہے ۔۔ ابھی میں اسی شش و پنج میں تھا کہ اس نےاپنا منہ دوسری طرف کیا اور اپنے ہاتھ سے میرے نیچے کی طرف اشارہ کیا۔۔اور اب جو میں نے ۔ اس کی ڈائیریکشن میں اپنے نیچے کی طرف دیکھا تو ۔۔۔ میں نے دیکھا کہ میرا پہنا ہوا پاجامہ نیچے سے سارا پھٹا ہوا تھااور میرا بڑا سا لن ٹٹوں سمیت پاجامے سے باہر نکلا ہوا تھا یہ دیکھ کر میں فوراً ہی واپس واش روم میں گھس گیا اور نازیہ کو کہا کہ مہربانی کر کے مجھے اسد کا کوئی دوسرا پاجامہ لا دو ۔۔۔ اس نے میری بات سنی اور بولی ۔۔۔اوکے آپ اندر ہی رہنا میں لے کر ابھی آئی ۔۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد اس نے واش روم کے دروازے پر دستک دی میں نے دروازہ کھول کر صرف سر باہر نکالا اور اس نے جلدی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور بنا کچھ کہے اسد کا ایک اور پاجامہ مجھے تھما کر چلنے لگی تو پیچھے سے میں نے اسے آواز دیکر کر شرارت بھرے لہجے میں پوچھا کہ ۔۔۔ یہ تو ٹھیک ہے نا ؟؟؟۔۔ میری بات سُن کر اس نے مُڑ کر میری طرف دیکھااور مسکرا کر بولی ۔۔۔جی۔۔۔ یہ ٹھیک ہے اور پھر باہر بھاگ گئی۔۔۔ میں نے جلدی سے پاجامہ تبدیل کیا اور باہر آ کر دیکھا تو مسزز جاوید کھڑی تھیں ۔۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگیں ۔۔لو بیٹا چائے تیار ہے۔۔۔ تم چائے پی لو اتنے میں نازیہ تمھارے کپڑوں کو سکھا کر لے آتی ہے۔۔ میں کرسی پر بیٹھ گیا اور چائے پینے لگا اور اس کے ساتھ ساتھ مسزز جاوید کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ بھی لگاتا رہا ۔۔ اسی دوران نازیہ بھی میرے کپڑوں کو سکھا کر لے آئی تھی ۔۔۔۔ اور میرے سامنے کپڑے رکھ کر وہ بھی بیٹھ گئی اور ہماری گپ میں شامل ہوگئی ۔۔ باتوں باتوں میں اچانک مسزز جاوید نے اپنےسر پر ہاتھ مارا اور بولی ۔۔۔ ایہہ لو ۔۔ میں تو بھول ہی گئی تھی کہ۔۔۔ میں نے ہانڈی چھو لہے پر رکھی ہوئی ہے ۔اور پھر اُٹھتے ہوئے بولیں میں چلوں کہ ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری ہانڈی جل گئی ہو اور پھر وہ تقریباً بھاگتی ہوئی کچن کی طرف چلی گئی ۔
جیسے ہی آنٹی کچن میں گئی تو نازیہ نے اپنی گود میں پڑے ہوئے کپڑے اٹھائے اور میری طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔ ۔۔ ۔۔ بھائی کپڑے پہن لیں تو میں نے مزاقاً اس سے کہا کہ اس کو تو نیچے سے نہیں پھاڑا نا؟؟؟؟ اس نے میری بات سنی لیکن اس کا جواب گول کر گئی ہاں البتہ میرے ہاتھ میں کپڑے پکڑاتے ہوئے اس نے اپنے لمبے لمبے ناخن بڑی ذور سے مجھے چبو دیئے ۔ کپڑے تبدیل کر کے میں باہر آیا اور آنٹی کا شکریہ ادا کیا ۔۔۔ اتنی دیر میں بارش بھی تھم چکی تھی ۔۔ چنانچہ میں آفس آ گیا ۔۔آفس پہنچ کر بھی مجھے نازیہ کی مسکراہٹ اور خاص کر اس کا ناخن چبونا مجھے کافی دیر تک تنگ کرتا رہا ۔۔۔۔عاشق تو میں اس پر پہلے سے ہی تھا ۔۔۔لیکن اس کی اس حرکت کے بعد میں نے اس پر ہزار جان سے فدا ہو نے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔اور پھر یہ فیصلہ کرنے کے بعد میں آفس کے کاموں میں مصروف ہو گیا ۔۔چائے کے وقفے کے دوران جب مجھے ایک دوست کو فون کرنے کی حاجت پیش آئی تو میں نے جیب میں ہاتھ مارا تو موبائیل ندارد ۔۔۔۔ کافی دیر ڈھونڈنے کے بعد بھی جب وہ نہ ملا تو اچانک مجھے خیال آیا کہ وہ کہیں نازیہ کے گھر میں ہی نہ رہ گیا ہو ۔۔۔یہ سوچ آتے ہی میں نے لائین لینڈ نمبر سے نازیہ کے گھر فون کیا تو اتفاق سے فون نازیہ نے ہی اُٹھایا ۔۔۔ اور میرے پوچھنے سے پہلے ہی وہ کہنے لگی۔۔۔ جناب شاہ صاحب آپ کا موبائیل تو بہت بجتا ہے ۔۔پھر ریسور پر اس کی جلترنگ سی ہنسی گونجی اور وہ کہنے لگی ۔۔۔ پتہ نہیں کس کس کو نمبر دے رکھا ہے ۔۔۔ پھر وہ ایک دم سیریس ہو گئی اور اپنی ٹون تبدیل کرتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ اینی وے ۔۔۔ جناب آپ کا موبائیل محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔۔۔ جب جی چاہے آ کر لے جانا۔۔ اس کی بات سُن کر مجھے شرارت سوجھی اور میں نے اس سے کہا کہ نازیہ جی مجھے معلوم ہے کہ میرا موبائیل محفوظ ہاتھوں میں ہے لیکن آپ سے ایک گزارش ہے کہ۔۔۔۔ اور اتنا کہہ کر چُپ ہو گیا تو میں نے رسیور پہ اس کی آواز سُنی وہ کہہ رہی تھی جی ۔۔ بولیئے ۔۔ کیا گزارش کرنی ہے تو میں نے کہا ۔۔۔وہ جی گزارش یہ کرنی تھی کہ ۔۔۔۔۔ کہ مہربانی کر کے میرے موبائیل کے کور کو بھی نیچےسے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ابھی میں نے اتنی ہی بات کی تھی کہ میری بات کاٹ کر بولی ۔۔۔ شاہ جی آپ بھی نا۔۔۔ بڑے وہ ہیں اور ہنس کر ۔۔ ۔۔۔۔ فون بند کر دیا ۔۔ اس کے فون بند کر نے کے تھوڑی دیر بعد میں نے اس کو فون دوبارہ ملایا اور اس کو اپنے دوست کا نام بتا کر کہا کہ مہربانی کر کے مجھے اس دوست کا نمبر لکھوا دے ۔۔ میری بات سُن کر اس نے مجھے ایک منٹ ہولڈ کرنے کو کہا اور کچھ دیر بعد اس نےمجھے نمبر لکھواتے ہوئے بڑے زُومعنی الفاظ میں کہا ۔۔۔ ویسے شاہ جی یہ دوست میل ہے یا فی میل ۔تو میں نے اس سے کہا کہ مس جی یقین کرو کہ یہ نمبر میل کا ہی ہے کیونکہ اگر یہ فی میل ہوتی تو مجھے اس کا نمبر زبانی یاد ہوتا ۔۔۔میری بات سُن کر وہ کہنے لگی آپ کی بات میں دم ہے اور ۔ ۔ پھر اس کے بعد وہ میرے ساتھ کافی فرینک ہو گئی اور ہم نے آدھے گھنٹے تک مختلف مضوعات پر کافی ساری باتیں کیں ۔۔۔
شام کو جب میں گھر اپنا موبائیل لینے گیا تو مجھے آنٹی ملیں وہ کسی فنگشن میں جانے کی تیاری کر رہیں تھیں اور بڑی جلدی میں لگ رہیں تھیں۔۔ مجھے دیکھتےہی کہنےلگیں سوری بیٹا ہم لوگ ایک شادی میں جا رہے ہیں اس لیئے میں آپ کو چائے پانی کا نہیں پوچھ سکتی ہاں آپ کا موبائیل نازیہ کے پاس پڑا ہے۔۔۔جا کر اس سے لے لو۔۔ اور خود جلدی سے واش روم میں گھس گئیں ۔۔۔آنٹی کی بات سُن کر میں نازیہ کے کمرے کی طرف گیا تو اسے بند پایا ۔۔۔ میں نے دستک دینے سے پہلے ویسے ہی ہینڈل گھما کر دیکھا تو وہ کھلا ہوا تھا ۔۔ ان کے گھرانے کے ساتھ میری بے تکلفی تو پہلے سے ہی تھی ۔۔۔ لیکن آج دوپہر کی بات چیت کے بعد خصوصاً نازیہ کے ساتھ میری بے تکلفی کچھ اور بڑھ گئی تھی اس لیئے میں نے دروازہ کھولا اور بے دھڑک اندر داخل ہو گیا ۔۔۔ اندر داخل ہو کر دیکھا تو کمرے میں نازیہ موجود نہ تھی لیکن اس کے ڈریسنگ پر مجھے اپنا موبائیل پڑا نظر آ گیا ۔۔۔ چنانچہ میں اس کے ڈریسنگ کی طرف بڑھا اور ابھی میں وہاں سے اپنا موبائیل اُٹھا ہی رہا تھا کہ اچانک واش روم کا دروازہ کھلا اور ۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔ میں نے جو دروازے کی طرف دیکھا تو نازیہ بڑی تیزی کے ساتھ واش روم سے باہر نکل رہی تھی اس کے ایک ہاتھ میں قمیض جبکہ دوسرے ہاتھ میں ایک میلی سی برا پکڑے وہ تیزی کے ساتھ اپنی الماری کی طرف بڑھ رہی تھی (میرا خیال ہے کہ وہ نئی برا لینا چاہ رہی تھی) جبکہ اس کا اوپری جسم بلکل ننگا تھا ۔۔۔ اور نچلے جسم پر صرف شلوار تھی ۔۔۔اور اس کے اس دودھیا ننگے بدن پر اس کے گول گول ممے تنے ہوئے تھے ۔۔ اس ان تنے ہوئے مموں پر گلابی رنگ کے اس کے دودھ کے نوکیلے سے نپل قیامت ڈھا رہے تھے۔۔۔ میں نے ایک نظر ہی میں نازیہ کے اوپری بدن کا ایکسرے کر لیا تھا ۔۔۔ اور پھر اس سے اگلے ہی لمحے میری اور اس کی نظریں چار ہوئیں ۔۔۔۔ اور ایک لحظہ کے لیئے ہم دونوں ہی ساکت ہو گئے۔۔۔ اور خالی خالی نظروں سے ایک دوسرے کو گھورتے رہے ۔پھر اچانک ایسا لگا کہ جیسے وہ ہوش میں آ گئی ہو ۔۔۔اور اس نے جلدی سے اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتیوں پر رکھے اور ۔۔۔ چلا کر بولی ۔۔۔۔آآ۔۔آپ ؟؟۔۔۔۔تم۔م م م م م م ۔۔۔۔۔یہاں کیسے ؟؟؟؟؟ حیرت اور غصے سے اس کا چہرہ لال ٹماٹر ہو رہا تھا اور ۔اس وقت صورتِ حال کچھ ایسی بن گئی تھی کہ میں خود بھی تھوڑا کنفیوزڈ ہو گیا تھا چنانچہ صورتِ حال کا ادراک کرتے ہوئے باہر جانے لگا۔۔۔ اور ۔۔۔ چند قدموں کے بعد ہی مجھے اپنا موبائیل یاد آگیا ۔۔۔
۔۔۔۔اور میں جاتے جاتے رُک گیا اور نازیہ کی طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔میں اپنا موبائیل لے لوں ۔؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ میری بات سُن کر وہ آگ بگولہ ہو گئی اور غصے سے بولی ۔۔۔دفعہ ۔۔ہوجاؤ۔۔۔۔ذلیل۔کمینے ۔۔ میں اس کا مُوڈ دیکھ کر چپ ہو گیااورخاموشی سے باہر نکل گیا ۔۔۔ چونکہ وہ لوگ اس وقت شادی میں جانے کے لیئے تیار ہو رہے تھے اس لیئے میرا وہاں رُکنا بے کار تھا۔۔ چنانچہ میں گھر آ گیا ۔۔ پر سارے راستے میرے زہن میں نازیہ کو گول گول ممے اور نوکیلے نپلز گھومتے رہے۔۔جس سے میرا اور میرے لن کا برا حال ہو گیا سو گھر جاتے ہی سب سے پہلے میں نے واش روم کا رُخ کیا اور نازیہ کے نام کی مُٹھ ماری۔۔۔اور باہر آ گیا ۔۔ لیکن نازیہ کے گول مموں خاص کر اس کے نوکیلے نپلز پھر سے میرے دماغ میں گردش کرنے لگے۔۔اور میرا لن پھر سے کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔ اور اتنی سختی سے کھڑا ہوگیا کہ مجھے ایسا لگنے لگا کہ یہ ابھی ٹوٹ جائے گا۔۔۔ یہ صورتِ حال دیکھتے ہوئے میں نے دوبارہ سے مُٹھ کا ارادہ ترک کیا اور سوچا کہ لن کو ٹھنڈا کرنے کے لیئے اپنی ایک دوست آنٹی کو فون کرتا ہوں اور پھر فون سے یاد آیا کہ میرا موبائیل تو جاوید انکل کے گھر پڑا ہے پھر یاد آیا کہ وہ تو شادی پر گئے ہوں گے اب کیا کروں ؟ پھر ایک خیال زہن میں آیا کہ ہو سکتا ہے جاوید انکل شادی پر نہ گئے ہوں کہ عموماً ایسی دعوتوں پر جانے سے وہ پرہیز ہی کرتے تھے ۔۔ یہ سوچ کر میں نے ان کے گھر فون کیا ۔۔۔یاحیرت ۔۔کیونکہ دوسرے طرف سے ۔فون نازیہ نے ہی اٹھایا تھا اس کی آواز سُن کر میں حیران رہ گیا اورپھر میرے زہن میں ا س کے ننگے پستان آ گئے اور لن جو پہلے سے ہی تنا ہوا تھا مزید تن گیا ۔
0 comments:
Post a Comment