ترَاس
18ترَاس ۔۔۔
گانڈ کے بارے میں کچھ دیر تک لیکچر دینے کے بعد اس نے مجھے کہا کہ میم صاحب زرا میرا لوڑا تو اپنے ہاتھ میں پکڑو ۔۔۔ اور میں جو کہ اس کی چارپائی پر گھوڑی بنی تھی وہاں سے اُٹھی اور اس کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔ ۔اس کا پتلا سا لن بہت گرم تھا۔۔۔ اور جب میں نے اس کو دبایا تو وہ دب گیا۔۔۔ مطلب وہ کافی ڈھیلا تھا ۔۔۔۔ اس لیئے میں نے اس کا لوڑا پکڑے پکڑے خان کی طرف دیکھا تو وہ میری بات کا مطلب سمجھ کر بولا۔۔۔۔ تم سے بات کرتے ہوئے لوڑا تھوڑا ڈھیلا ہو گیا تھا۔۔۔۔ ۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔۔ ابھی سخت ہو جائے گا ۔۔۔ تم اس کو تھوڑا دباؤ۔۔۔۔ اور میں اس کے لوڑے کو دبانے لگا۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔ اس کا لن مزید سخت ہو گیا ۔۔۔ لیکن اس کے لوڑے میں سخت تناؤ ہرگز نہ آیا تھا۔۔۔ بس تھوڑا ڈھیلا پن تھا۔۔۔ لیکن میں نے اس بات کا اس سے کوئی ذکر نہ کیا ۔۔۔ا ور اس کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔۔۔ خان صاحب ۔۔۔ یہ کھڑا ہو گیا ہے۔۔۔ تو وہ بولا۔۔ ٹھیک ہے تم پہلے کی مافک چارپائی پر ہاتھ رکھ لو۔۔۔ اور میں نے دوبارہ سے اپنے دونوں ہاتھ اس کی چارپائی کے کنارے پر ٹکائے اور اور پہلے کی طرح اپنی دونوں ٹانگیں کھول دیں۔۔۔ اب خان میرے پیچھے آیا اور ۔۔۔ گھٹنوں کے بل ۔۔۔ بیٹھ گیا۔۔۔ اور ۔۔۔ پھر میری گانڈ کو کھول کر اپنا ۔۔۔ لوڑا ۔۔۔ میرے سوراخ پر رکھ دیا۔۔۔ لیکن اس سے پہلے اس نے۔۔۔ تھوک کی بجائے اس دفعہ ۔۔ میرے سوراخ کو آئیل سے اچھی طر ح چکنا کر لیا تھا ۔۔۔ اور یہ آئیل اس نے میری گانڈ کے اندر تک لگا دیا تھا۔۔۔
جب میری گانڈ اس آئیل سے اچھی طرح چکنی ہو گئی تھی۔۔۔ تو اس نے اپنے ڈھیلے لوڑے کی پتلی سی ٹوپی ۔۔۔ میرے سوراخ پر رکھی اور ہلکا سا دھکا دیا۔۔۔۔باوجود اس کے میرا سوراخ آئیل سے اچھی طرح سے چکنا ہوا۔۔۔ہوا تھا۔۔۔۔ پھر بھی اس کا لوڑا ۔۔۔ جب میرے سوارخ کے اندر داخل ہوا تو ۔۔۔ درد کی ایک شدید لہر اُٹھی ۔۔۔ اور مجھے ایسا لگا کہ جیسے کسی نے آری سے میری گانڈ کو چیر دیا ہو۔۔۔ میں نے بہت ضبط کیا ۔۔۔ لیکن میرے منہ سے ایک گھٹی گھٹی سی چیخ نکل گئی۔۔۔۔ اوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں بے اختیار خان سے بولی۔۔۔ اُف خان صاحب بہت درد ہو رہا ہے ۔۔۔ اپنے لوڑے کو میری گانڈ سے باہر نکالو۔۔۔۔۔ تو وہ اپنے لوڑے کو بجائے میری گانڈ سے باہر نکالنے کے ۔۔۔۔اسے ۔۔۔ اندر باہر کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ بس تھوڑا ۔۔سا درد۔۔ اور برداشت کر لو۔۔۔۔ ۔ اس کے بعد ۔۔جب میرا ۔۔۔لوڑا ۔۔تمہارے سوراخ میں رواں ہو جائے گا۔۔۔ تو پھر تم کو مزہ ہی مزہ ملے گا۔۔ تو میں نے درد سے کراہتے ہوئے اس کو جواب دیا کہ۔۔۔۔ مجھے نہیں چاہیئے ایسا مزہ۔۔۔ تم بس اپنے لوڑے کو میری گانڈ سے باہر نکالو۔۔۔ اس وقت مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کسی نے لوہے اک موٹا سا پائپ میری گانڈ میں دے دیا ہو۔۔۔۔تو خان بولا ۔۔ میم صاحب اگر زیادہ درد ہو رہا ہے تو اپنی چوت کے دانے کو مسلو۔۔۔ اور میں نے اپنا بایاں ہاتھ اس کی چارپائی کے کنارے سے ہٹایا اور اسے اپنے دانے پر لے گئی۔۔۔ پھدی پر ہاتھ لگایا تو وہ آگ کی طرح تپی ہوئی تھی اور ڈھیروں ڈھیر پانی چھوڑ رہی تھی۔۔۔۔ میں نے اپنی پھدی کے اس گرم پانی میں اپنی انگلی ۔۔۔بھگوئی ۔۔۔اور پھر ۔۔۔ اس گیلی انگلی کو اپنے پھولے ہوئے دانے پر لے گئی اور اسے مسلنے لگی۔۔۔۔۔ ۔۔۔ جیسا کہ خان نے کہا تھا ۔۔۔۔ ٹھیک اسی طرح ہوا۔دانہ مسلنے سے مجھے درد کا احساس کچھ کم ہوا ۔۔۔ اور ۔۔ کچھ دیر بعد ۔۔۔ جب خان کا لوڑا ۔۔ میری گانڈ میں رواں ہو گیا تھا۔۔۔ تو اب مجھے اس کا گرم لن ۔۔۔ مزہ دینے لگ۔اور میں اپنے دانے کو بے تحاشہ مسلنے لگی۔۔۔۔۔ گو کہ درد اب بھی ہو رہا تھا ۔۔۔ لیکن اب درد سے زیادہ مجھے خان کے لوڑے کا ۔۔ ان۔۔۔ آؤٹ۔۔ مزہ دے ر ہا تھا۔۔۔ اور ابھی خان کو دھکے مارتے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی ۔۔۔ کہ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ جیسے ۔۔ میری گانڈ میں ۔۔۔۔ گرم پانی کا سیلاب اتر آیا ہو۔۔۔ خان چھوٹ رہا تھا۔۔۔۔۔ اور اس احساس نے کہ ۔۔۔۔۔ گرم گرم منی میری گانڈ میں داخل ہو رہی ہے ۔۔ مجھے مست کر دیا ا ور میں نے اپنے دانے کو اور بھی تیزی سے مسلنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ اور ۔۔ میں اپنی گانڈ کو خان کے لوڑے کے ساتھ جوڑ کر بولی۔۔۔ گھسے مارر۔ر۔ر۔۔ر۔۔۔۔۔اور مارر۔۔۔ میری بات سن کر خان نے اپنی بچھی کھچی طاقت کو جمع کیااور میری گانڈ میں دو چار ذور دار گھسے مارے ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی مجھے ایسا لگا کہ میری چوت سے بھی گرم پانی کا آتش فشاں نکل رہا ہے ۔۔۔۔اور خان کے ساتھ ہی میں بھی چھوٹ گئی۔۔۔۔۔
کچھ دیر کے بعد خان نے میری گانڈ سے اپنا لوڑا نکلا اور ۔۔۔ کرسی پر جا کر بیٹھ گیا۔۔۔ جبکہ میں نے پھرتی سے اپنی شلوار پہنی اور اس کی شلوار کو زمین سے اُٹھا کر پکڑاتے ہوئے بولی۔۔۔ کہ جلدی کرو ۔۔۔ خان نے بھی شلوار پہنی اور بولا ۔۔۔۔ تم رکو ۔۔۔ میں باہر جا کر پہلے کی طرح مین سوئچ کو آف کرتا ہوں ۔۔۔ باقی تو تم کو پتہ ہی ہے ۔۔۔ میں نے اوکے کہا اور ۔۔۔ایک دفعہ پھر خود کو کالی چادر سے چھپا لیا۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔ کمرے سے باہر آ کر انتظار کرنے لگی۔۔۔ جیسے ہی۔۔۔ لائیٹ آف ہوئی۔۔۔۔ میں ۔دبے پاؤں چلتے ہوئے ۔۔وکیل صاحب کی کوٹھی سے باہر آگئی۔۔۔۔اور پھر گھر آ کر سکھ کا سانس لیا۔۔۔ پھر اچانک مجھے اپنی گانڈ میں پڑی خان کی منی کا خیال آیا اور میں بھاگ کر واش روم میں چلی گئی۔۔۔۔ وہاں سے فارغ ہو کر ویسے ہی کمرے سے باہر جھانک کر دیکھا تو ۔۔۔۔ بھا میدا ۔۔۔ اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا ۔۔۔ اوہ۔۔۔۔ اس کا مطلب ہے ۔۔ بھا نے تین چار دفعہ عظمیٰ کی چوت ماری ہو گی پھر خیال آیا کہ خان کی طرح بھا بھی گانڈ کا شوقین ہے کیا پتہ اس نے عظمیٰ کی گانڈ بھی ماری ہو۔۔۔۔۔۔۔ میں نے یہ سوچا اور پستر پر آ کر دراز ہو گئی۔۔۔
اگلے دن چونکہ چار بجے ولیمہ تھا اس لیئے میں آرام سے اُٹھی ۔۔۔ نہا دھو کر باہر نکل گئی۔۔ دیکھا تو اکا دکا ۔۔۔ لوگ اُٹھے ہوئے تھے۔۔۔ میں چلتی ہوئی سیدھی ڈائینگ ہال میں گئی دیکھا تو وہاں لیڈیز کا کافی رش تھا مجھے دیکھ کر اماں بولی۔۔۔ آ جا ہما پتر۔۔۔ناشتہ کر لے ۔۔۔ اور میں اماں کے پاس بیٹھ گئی اور ناشتہ کرنے لگی۔۔۔ ناشتے کے دوران ہی اماں نے ایک کام والی کو آواز دی ۔۔۔ اور بولی۔۔۔ جمیلہ۔۔۔۔ زرا دیکھ کر آؤ کہ دلہن اُٹھی ہے کہ نہیں؟ اور پھر مجھ سے کہنے لگی۔۔۔ اگر دلھا دلہن اُٹھے ہوئے تو ان کے لیئے ناشتہ تم نے لیکر جانا ہے ۔۔۔ تو میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔ کچھ دیر بعد جمیلہ ۔۔۔ واپس آئی اور اماں سے کہنے لگی۔۔۔ باجی ۔۔۔ وہ دونوں اُٹھے ہوئے ہیں اور دلہن ۔۔۔واش روم میں گئی ہے تو اماں مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ۔۔۔ تم نے ان دونوں کا ناشتہ لیکر چلی جانا ۔۔۔ اور ناشتہ کرنے کے بعد میں وہیں بیٹھی رہی ۔۔۔اور پھر کچھ دیر بعد ۔۔۔ جمیلہ کو اماں نے دوبارہ سے ان کا پتہ کرنے کو بھیجا ۔۔۔ تو اس نے واپس آ کر کہا کہ بھائی کہہ رہے ہیں کہ ناشتہ لے آؤ۔۔ میں نے ناشتے والی ٹرے جمیلہ کو پکڑائی اور خود اس کے ساتھ چل پڑی وہاں جا کر میں نے دروازے پر ناک کی ۔۔۔ اور پھر اندر گھس گئی۔۔۔ دیکھا تو دلھا دلہن بڑے موڈ میں بیٹھے تھے ۔۔۔ اور عطیہ بھابھی کھلی ہوئی ہوئی تھی۔۔۔ تو اس نے میں نے اندازہ لگایا کہ فائق بھائی نے بھابھی کی اچھی دھلائی کی ہو گی۔۔۔ میں نے ان کے آگے ناشتہ رکھتے ہوئے کہا کہ۔۔۔ بھابھی جی ناشتہ کر لو چکھ دیر بعد۔آپ کو تیار کرنے کے لیئے ۔۔ بیوٹیشن بھی آنے والی ہو گی ۔۔۔ اور وہاں سے اُٹھ آئی۔۔۔اور کچھ دیر بعد بیوٹی پارلر والی بھی آ گئی اور میں اسے لیکر بھابھی کے کمرے میں چلی گئی اور وہ بھابھی کو تیار کرنے لگی ۔۔۔
اسی طرح بھاگم دوڑ میں ولیمے کا ٹائم ہو گیا ۔۔۔ اور ہم لوگوں نے چونکہ ولیمے کا انتظام اپنے محلے میں ہی کیا ہوا تھا ۔۔۔اس لیئے ابا اور خاندان کے باقی بزرگ پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے۔۔۔اور اب انتظار تھا تو ۔۔ تو لڑکی والوں کا کہ وہ لوگ آئیں تو ۔۔ ولیمہ شروع ہو اور میں عطیہ بھابھی کو لیکر سٹیج پر جاؤں ۔۔۔۔ کافی انتظار کے بعد بھابھی کے گھر والے آ گئے ۔۔۔ بھابھی کی رشتے داروں خاص طور پر بھابھی کی قریبی دوستوں نے بھابھی کے کمرے میں ہلہ بول دیا ۔اور پھر کمرے میں موجود باقی لڑکیوں کو باہر بھیج دیا ۔اور کمرہ بند کر دیا ۔ جس وقت یہ لیڈیز بھابھی کے کمرے میں داخل ہوئیں اس وقت میں ہاتھ دھونے کے لیئے واش روم میں تھی۔۔اس لیئے میں باہر جانے سے بچ گئی تھی ۔۔۔۔ واش روم کا دروازہ کھلا تھا اور اند ر کی ساری آوازیں صاف سنائی دے رہیں تھیں۔۔۔ ہاتھ دھو کر جب میں تولیہ کی طرف بڑھی جو کہ ان کے واش روم کے دروازے کے پاس لٹکا تھا ۔۔۔تو اندر سے مجھے بھابھی کی کسی بے تکلف سہیلی کی آواز آئی۔۔۔ وہ بھابھی سے رات کے بارے میں پوچھ رہی تھی ۔۔۔ کہ سہاگ رات کیسی رہی۔۔۔ سہاگ رات کو سن کر میں ٹھٹھک گئی اور دروازے سے کان لگا کر۔۔۔ ان کی باتیں سننے لگیں۔۔۔۔ اب وہی لڑکی ۔۔۔۔ کہہ رہی تھی ۔۔۔ عطیہ سہاگ رات کے بارے میں بتاؤ نہ پلیزز۔ پہلے تو بھابھی نے ان کو ٹالنے کی بڑی کوشش کی ۔۔۔ لیکن وہ جو بھی تھیں بھابھی کی کزنز اور دوست وہ ۔۔۔ تھیں بڑی ڈھیٹ ۔۔۔۔ بار بار ایک ہی بات پوچھ رہیں تھی آخر مجبور ہو کر ۔۔۔ بھابھی کہنے لگی۔۔۔ اوکے یار پوچھو ۔۔۔ بتاتی ہو تو ایک آواز سنائی دی۔۔۔ سہاگ رات کسیی گزری؟ ۔۔
۔ تو مجھے بھابھی کی شرمیلی سی آواز سنائی دی۔۔جی سہاگ رات بہت اچھی گزری۔۔۔ تو ان میں سے ایک کہنے لگی۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ ۔۔۔۔ درد ہوا تھا۔۔۔۔ ؟ تو میرے خیال میں بھابھی نے سر ہلا دیا ہو گا۔۔۔۔تو ۔۔۔ مجھے وہی آواز سنائی دی۔۔ اوئی۔ماں۔۔۔۔ پھر اس کی تجسس بھری آواز گونجی۔۔۔۔ کتنا درد ۔۔ہوا تھا ؟۔۔۔۔تو بھابھی نے ہنس کر کہا ۔۔۔ شادی کر لو ۔۔ خود ہی پتہ چل جائے گا کہ کتنا درد ہوتا ہے ۔۔۔اور وہ لڑکی ہنس پڑی۔۔۔ جب سے یہ سہاگ رات والی بات شروع ہوئی تھی کمرے میں بڑی خاموشی سی چھائی تھی۔۔۔ اور ساری لڑکیاں ۔۔ بڑھے دھیان سے ۔۔۔۔ان کی باتیں سن رہی تھیں۔۔۔ میرے خیال میں ان لیڈیز کی کل تعداد دو یا تین ہو گی ۔۔۔ اور میرے خیال میں یہ لڑکیاں بھابھی کی بڑی ہی خاص دوست تھیں۔۔۔ جو اس سے اتنی بے تکلفی سے سہاگ رات کے بارے میں پوچھ رہیں تھیں۔۔۔پھر ایک اور آواز گونجی ۔۔۔۔۔ اور وہ کہنے لگی۔۔۔ اچھا یہ بتا ۔۔۔۔ دلہا بھائی نے ۔۔ کتنی شارٹس ماریں؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔ کمرے میں کچھ دیر تو سناٹا رہا ۔۔۔ پھر اسی آواز نے دوبارہ سے پوچھا ۔۔۔ بول نا ۔۔۔ تو بھابھی کہنے لگیں ۔۔۔ کیا بولوں ۔۔۔۔ بے شرمی کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔۔تب وہی آواز آئی۔۔۔آہا آہا ہا۔۔۔۔ تو جناب صاحبہ یہ بے شرمی اس وقت کہاں گئی تھی ۔۔۔۔ جب میری شادی ہوئی تھی اور اسی طرح تم سب میرے کمرے میں آ دھمکی تھیں۔۔۔ اور یہی سوال تم نے مجھ سے کہاتھا۔۔۔ تب تو میں نےسب بتا دیا تھا۔۔۔۔اور تم ہو کہ۔۔۔ نخرہ کرتی جا رہی ہو۔۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔ سیدھی طرح ہمارے سوالوں کے جواب دو۔۔۔ ورنہ تم جانتی ہو کہ ہم لوگ تم سے دوسری طرح بھی یہ بات پوچھ سکتیں ہیں۔۔۔۔ اس کی تقریر سُن کر بھابھی کہنے لگی ۔۔یار ایک تو تم ایک دم غصہ کر لیتی ہو۔۔۔ میں تو مزاق کر رہی تھی۔۔۔۔ تو وہی آواز کہنے لگی۔۔۔ عطیہ بیگم میں تم کو اچھی طرح سے جانتی ہوں تم بڑی گھنی ہو ۔۔۔اور مزاق میں بات ٹال رہی ہو۔۔۔ لیکن سن لو ہم ٹلنے والیاں نہیں ہیں۔۔۔ اور باقی لیڈیز کی بھی آواز سنائی دی ۔۔۔ جی بلکل ۔۔۔۔ ہم بات سنے بغیر نہیں ٹلیں گی۔۔۔
تب بھابھی نے کہا ٹھیک ہے ۔۔۔ جی پوچھو ۔۔۔ تو وہی آواز دوبارہ سنائی دی۔۔۔اور بولیں۔۔۔۔ ہاں جی بتاؤ ۔۔۔ فائق بھائی نے کتنی شارٹس ماریں ۔۔۔ تو بھابھی نے شرمیلی سی ہنسی سے بولیں۔۔۔ جی تین۔۔۔ شارٹس ماریں آپ کے دلہے بھائی نے۔۔۔ اس پر ایک اور آواز گونجی ۔۔۔ ہائے ۔۔ دیکھو نا اس معصوم سی جان کا شارٹیں مار مار کر کیا حال کر دیا ہے۔۔۔۔تبھی ایک اور آواز سنائی دی اور یہ پہلی دفعہ بولی تھی ۔۔۔ وہ بھابھی سے پوچھ رہی تھی۔۔۔۔ ساری شارٹس ایک ہی سٹائیل میں تھیں یا۔۔۔۔ تو بھابھی کہنے لگی۔۔۔ نہیں ۔۔۔ مختلف۔۔۔تو وہ کہنے لگی مختلف کی بچی۔۔۔۔۔ تفصیل سے بتاؤ۔۔۔ تو بھابھی بولی۔۔۔ پہلی دو۔۔ لٹا کر (یعنی کہ ٹانگیں اُٹھا کر) اور تیسری ۔۔۔ڈوگی میں۔۔۔ تو اس پر وہی لڑکی جو کہ ان میں شادی شدہ تھی کہنے لگی۔۔۔اُف۔۔۔ بولی۔۔۔۔ یار ۔۔۔ لٹا کر بھی ٹھیک ہے ۔۔ پر ڈوگی میں پھینٹی کھانے کا اپنا ایک الگ ہی مزہ ہے۔۔۔۔۔۔
پھر ان میں سے ایک نے بھابھی سے پوچھا ۔۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ ۔۔ دلہا بھائی نے سک ( چوسنے ) کا بھی بولا۔۔۔ تو بھابھی کی بجائے۔۔۔وہی شادی شدہ خاتون کہنے لگی۔۔۔۔ ارے ۔۔۔شادی کے شروع دنوں میں ایسی فرمائیش نہیں کی جاتی۔۔۔ تو اس پر ایک اور لیڈی بولی۔۔۔ تو آپا۔۔۔ آپ سےشادی کے کتنے ماہ بعد ۔۔۔ یہ فرمائیش ہوئی تھی۔۔۔ تو وہ خاتون بڑی بے باکی سے کہنے لگی۔۔۔۔ارے مہینے کہاں ۔۔۔۔ جان ۔۔دوسرے تیسرے ہفتے میں ہی۔۔۔۔۔ ہم سے یہ کام شروع کروا دیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔تو ان میں سے ایک دوسری خاتون کی اشتیاق بھری آواز سنائی دی۔۔۔۔ آپا ۔۔۔ اس میں مزہ بھی آتا ہے یا۔۔۔؟؟؟؟ اور اس سے پہلے کہ آپا اس کی بات کو کوئی جواب دیتی ۔۔۔۔۔ ایک دم سے دروازہ کھلا اور اماں ۔۔۔ کے ساتھ فیملی کی کافی ساری لیڈیز کمرے میں داخل ہو گئیں۔۔۔ اور ان کو دیکھتے ہی وہ لڑکیاں ؎ چُپ ہو گئیں اور بزرگ عورتوں کے لیئے جگہ چھوڑ دی۔۔۔اماں کے آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد خواتین کا ایک اور ریلہ کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔۔ اور کمرہ رش سے بھر گیا ۔۔۔ موقعہ غنیمت دیکھ کر میں بھی کمرے سے باہر نکل آئی ۔۔۔اور اس رش کا حصہ بن گئی۔۔ تھوڑی دیر بعد اماں کی آواز سنائی دی۔۔۔ہما پتر۔۔۔ او ہما۔۔۔تو میں نے جلدی سے ان سے کہا ۔۔ جی اماں ۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔۔ پتر یہاں رش ہو گیا ہے تم دلہن کو لیکر پنڈال میں آ جاؤ ۔۔۔اماں کی بات سُن کر میں نے اور عطیہ بھابھی کی دوستوں کے ساتھ پنڈال میں آ گئے ۔۔۔ اور ان کو لا کر سٹیج پر بٹھا دیا۔۔۔ دلہن کو سٹیج پر دیکھ کر سب ولیمے کی ساری خواتین اس کے پاس آ گئیں ۔۔۔۔اور میں وہاں سے کھسک کر نیچے آ گئی۔۔۔ اور ایک طرف جا کر بیٹھ گئی۔۔۔
ابھی مجھے وہاں بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی ۔۔۔ کہ عظمیٰ باجی نظر آ گئی۔۔۔۔ بھابھی کی طرح وہ بھی بڑی کھلی ہوئی تھی ۔۔۔اور میں ان کو دیکھ کر اندازہ لگا تھی کہ بھا نے اس پر کتنی شارٹس لگائی ہوں گی ؟ مجھے اپنی طرف بڑے غور سے دیکھتے ہوئے عظمیٰ باجی تھوڑی شرما گئی اور کہنے لگیں ۔۔۔کیا بات ہے۔۔؟ تم مجھے اتنے غور سے کیوں دیکھ رہی ہو ؟ تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ باجی کل کر طرح آج بھی آپ بڑی غضب لگ رہی ہو۔۔۔۔ میری بات سُن کر وہ تھوڑا مسکرائی اور کہنے لگی۔۔۔ شکریہ ۔۔۔ پھر میرے پاس بیٹھ کر بولی ۔۔۔۔ کہاں تھی تم ۔۔۔ میں کافی دیر سے تم کو تلاش کر رہی تھی تو میں نے ان سے کہا کہ۔۔۔۔ خیریت باجی۔۔۔؟ تو وہ ہنس کر کہنے لگی۔۔۔ میں تو خیریت سے ہوں ۔۔۔ لیکن کوئی خیریت سے نہیں ہے اور وہ پاگلوں کی طرح تم کو ڈھونڈتا پھر رہا ہے ۔۔۔ باجی کی بات سُن کر میں ایک دم چونک گئی ۔۔۔۔ اور اپنا سر جھکاکر بولی۔۔۔۔ کون ڈھونڈ رہا ہے باجی؟ تو وہ ہنس کر بولی۔۔۔۔۔ بس بس اب زیادہ مچلی نہ بن ۔۔۔۔پھر ۔۔۔انہوں نے اپنے ہونٹ میرے کانوں کے قریب کیئے اور کہنے لگیں۔۔ ہما تمھارے ہونے والے منگیتر نے میری جان کھا ماری ہے۔۔۔وہ تم سے ملنا چاہتا ہے تو میں نے کہا۔۔۔۔ وہ کیوں باجی۔۔۔ تو وہ بولی۔۔۔ مجھے کیا پتہ جان۔۔۔ تم خود ہی اس سے مل کر پوچھ لو نا۔۔۔ پھر وہ اسی سرگوشی میں بولیں کہ وہ کب سے میرے گھر میں بیٹھا تمھارا اتنظار کر رہا ہے۔۔۔ اور مجھے بازو سے پکڑ کر بولی۔۔۔ چلو ۔۔۔ نواز کا نام سُن کر مجھ میں ایک عجیب سے شرماہٹ آ گئی ۔۔۔اور میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔۔۔۔ اور میں نے عظمیٰ کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ باجی۔۔۔۔ اگر کسی نے دیکھ لیا تو؟ میری بات سُن کر عظمیٰ باجی بولی۔۔۔ کوئی نہیں دیکھتا یار۔۔۔ اور ویسے بھی تم اپنے ہونے والے منگیتر سے ملنے جا رہی ہو ۔۔۔۔
ہم چلتے چلتے عظمیٰ باجی کے گھر پہنچ گئے اور پھر گیٹ میں داخل ہو کر عظمیٰ باجی نے مجھے بازو سے پکڑ لیا ۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔ میری ایک بات سنوگی ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا جی باجی حکم کرو۔۔۔ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ دیکھو ہما تم میری سب سے اچھی دوست کی بیٹی ہو ۔۔۔ اس لیئے میں تم کو ایک نصیحت کرنا چاہتی ہوں وہ یہ کہ۔۔۔۔ نواز سے تمھاری ملاقات میں کچھ کمزور لمحے بھی آئیں گے ۔۔۔ لیکن تم نے خود پر قابو رکھنا ہے ۔۔۔۔۔اور اس کو ایک حد سے آگے نہین بڑھنے دینا ۔۔ پھر تھوڑی رکی اور کہنے لگی۔۔۔۔ ہما اس مرد ذات کا کوئی بھروسہ نہیں کرنا چاہیئے۔۔ کیونکہ یہ کمزور لمحات کا بھر پور فائدہ بھی اُٹھا لیتا ہے ۔۔اور پھر یہ کہہ کر لڑکی کو دھتکار بھی دیتا ہے کہ یہ لڑکی ٹھیک نہیں ۔۔۔ اور اس لڑکی کا کریکٹر ڈھیلا ہے ۔۔۔
چلتے چلتے ہم عظمیٰ باجی کے ڈارائینگ روم تک پہنچ گئے ۔۔۔۔وہاں پہنچتے ہی اس نے کہا وہ اندر بیٹھا ہے وِش یو گُڈ لگ۔۔۔ اور بولی۔۔۔۔ میری بات یاد ہے نا؟؟ اور میں سر ہلا کر اندر چلی گئی۔۔۔۔ سامنے صوفے پر نواز بیٹھا تھا مجھےدیکھتے ہی وہ اپنی جگہ پر اُٹھا اور کہنے لگا۔۔۔۔ بڑا انتظار کروایا ہے آپ نے۔۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔۔اتنی دیر ہو گئی آپ کہاں تھی؟ تو میں نے اس سے کہا۔۔۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ میرا اتنظار کر رہے ہو۔۔۔ اور پھر اس کے سامنے جا کر بیٹھ گئی۔۔۔ وہ یک ٹک میری ہی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ پھر وہ کہنے لگا ۔۔۔۔ ہما ۔۔۔یہ سوٹ تم پر بہت سوٹ کر رہا ہے ۔۔۔ اس کی بات سُن کر پتہ نہیں مجھ میں اتنی شرماہٹ کہاں سے آ گئی ۔۔۔۔ اور میرا ۔۔۔چہرہ شرم سے لال ہو گیا۔۔۔اور میں نے جھکے ہوئے سر کواُٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور دھیرے سے بولی ۔۔۔۔آپ بھی تو اس ٹو پیس میں بہت شاندار لگ رہے ہو۔۔۔ میری بات سن کر وہ اپنی جگہ سے اُٹھا ۔۔میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔اور میرا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔۔۔ اسے یوں اپنے پاس بیٹھے دیکھ کر میں گھبرا سی گئی اور بولی۔۔۔ارے ارے۔۔۔ یہ آپ کیا کر رہے ہو؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ آپ کا ہاتھ پکڑ رہا ہوں ۔۔۔پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں کی طرف لے گیا اور ۔۔۔ میرے ہاتھ کی پشت کو چوم کر بولا۔۔۔۔ آئی لو یو ہما۔۔۔۔۔۔ اس کے بوسے اور آئی لو یو سُن کر میں شرم سے گلنار ہو گئی۔۔اور اپنا سر جھکا لیا۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ میں اپنے دل ہی دل میں اس بات پر بھی حیران ہو رہی تھی کہ یہ مجھے کیا ہو گیا ہے ۔۔۔تب اس نے میرے جھکے ہوئے سر کو اوپر اُٹھایا اور بولا۔۔۔ ہما پلیزز میری طرف دیکھو نا۔۔۔ لیکن میں نے اپنی نگاہ نیچ کیئے رکھی۔۔۔۔۔۔۔تب اس نے بڑی منت سے کہا ۔۔۔۔ ہما یار پلیززززززززززز ۔۔۔۔ پلیززززززززززززززززز ۔۔۔۔۔۔۔۔میر ی طرف دیکھو نا۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اپنے چہرے کو تھوڑا اوپر کیا اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ جی میں نے دیکھ لیا ۔۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھو نا ۔۔۔۔۔ پلیززززززززززززززز۔۔۔تب میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں ۔۔۔۔۔ اور اس کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ اس کی آنکھوں سے پیار ہی پیار ٹپک رہا رہا تھا ۔۔اور وہ بڑی ہی جگر پاش نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔اس کا یہ انداز دیکھ کر میرا دل دھک دھک کرنے لگا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور شرم سے میرے گال تمتا اُٹھے۔۔۔
0 comments:
Post a Comment