ترَاس
13ترَاس ۔۔۔
ابھی جیدے کو میرے ممے چوستے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک ہمیں باہر سے زور زور سے ہنسنے کی آوازیں سنائی دیں ۔۔۔ ا ن آوازوں کو سننا تھا ۔۔۔ کہ میں نے اور جیدے نے بیک وقت کمرے میں پڑے ٹرپل سیٹر ۔۔۔ صوفے کی طرف دوڑ لگائی اور اگلے ہی لمحے ہم دونوں ۔۔ اس ٹرپل سیٹر کے پیچھے دبکے ہوئےتھے۔۔۔اب آوازیں اور نزدیک سے سنائی دے رہیں تھی۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔ کمرے کا دروازہ کھلا ۔۔۔۔۔ اور ۔۔ مجھے کرنل ماجد کی آواز سنائی دی وہ کہہ رہا تھا ارے باجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں شکریہ کی کیا با ت ہے۔۔۔آپ میری بڑی بہن ہو ۔۔۔ اور آپ کی خدمت میرا فرض ہے۔۔۔ کرنل کی بات سن کر۔۔۔۔ جیدا ۔۔۔ جو کہ میرے ساتھ ہی صوفے کے پیچھے دبکا ہوا ۔۔پکڑے جانے کے خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔۔۔ اور ادھر ڈر تو مجھے بھی بہت لگ رہا تھا ۔۔۔ لیکن میری مہم جو طبیعت مجھے اس بات پر اُکسا رہی تھی کہ میں اُٹھ کر سامنے کا نظارہ دیکھوں ۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔ میں آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے کی کوشش کرنے لگی تو جیدے نے ہاتھ بڑھا کر مجھے ایسا کرنے سے منع کر دیا ۔۔۔لیکن میں بھلا ۔۔ جیدے کی کہاں سننے والی تھی۔۔ چنانچہ میں بڑی ہی احتیاط سے اوپر اُٹھی اور ۔۔ پھر۔۔ آہستہ ۔۔۔آہستہ ۔۔۔اُٹھ کر ۔۔۔۔ پردے کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔۔۔ اور پھر پردے کا وہ حصہ تلاش کرنے لگی کہ جہاں سے پردہ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ۔۔۔ خوش قسمتی سے پردے کا وہ والا حصہ قریب سے ہی مل گیا ۔۔۔۔۔ اور میں کھسکتی کھسکتی ۔۔۔۔ عین اس کے پاس کھڑی ہو گئی۔۔۔ اور پھر بڑی ہی احتیاط سے ۔۔۔۔ پردے کی جھری میں سے جھانک کر دیکھنے لگی۔۔۔ وہ ٹوٹل تین نفوس تھے ۔۔۔ ایک کرنل ماجد۔۔۔۔ دوسرا اماں ۔۔۔ اور تیسرا ۔۔۔ کرنل کی نک چڑھی بیوی تھی۔۔۔
کرنل اور اماں سنگل سیٹر پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے ۔۔ جبکہ کرنل کی نک چڑھی بیوی ۔۔۔ ان کے سامنے کرسی لگا کر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ کرنل کی بیوی کی پشت میری طرف تھی ۔۔۔ اور میری سیدھ سے تھوڑا ہٹ کر اماں اور کرنل بیٹھے ہوئے تھے۔۔ موضوع بارات اور صبع کا ناشتہ تھا ۔۔۔ اماں کرنل سے کہہ رہیں تھیں کہ ناشتہ صبع 7 بجے سرو کر دیا جائے اور ناشتے میں چائے اور بسکٹ یا کیک دیا جائے ۔۔۔ جبکہ کرنل اور اس کی نک چڑھی بیوی کا خیال تھا کہ 8/9 بجے تک ہلکا پھلکا ناشتہ دیا جائے۔جبکہ اماں اصرار کر کے کہہ رہیں تھیں کہ ۔۔کیونکہ بارہ ایک بجے تو برات کا کھانا تھا۔۔۔۔اس لیئے آپ لوگ صرف ہلکا سا ناشتہ ہی دیں۔۔۔ اس کے بعد وہ لوگ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔۔۔ زیادہ تر باتیں کرنل اور اماں ہی کر رہے تھے ۔۔۔ جبکہ کرنل کی نک چڑھی بیوی ۔۔۔ بہت کم لیکن بڑے نخرے سے بات کرتی تھی۔۔۔کوئی پندرہ بیس منٹ کی گفتگو کے بعد اچانک کرنل کی بیوی نے اپیئ کلائی اوپر ۔۔۔ اور پھر اپنی کلائی پر بندھی ہوئی۔۔۔۔ گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ ۔۔ نیلو ۔۔ باجی۔اجازت دیں کہ ۔۔ ہمارے سونے کے ٹائم سے بھی وقت کافی اوپر ہو گیا ہے۔۔۔ اور آپ نے بھی ریسٹ کرنا ہو گا۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر اس سے قبل کہ اماں کوئی جواب دیتیں ۔۔۔ کرنل نے اپنی بیوی سے کہا ۔۔۔ ڈارلنگ اتنے سالوں کے بعد تو آپا ملی ہے ۔۔۔ اور سارے دن کے بعد ابھی ہی تو موقع ملا ہے ۔آپا اور میاں صاحب سے محفل جمانے کا۔۔ کرنل کی بات سُن کر اس کی بیوی بولی ۔۔۔ لیکن میاں صاحب تو مجھے ابھی تک نظر نہیں آئے تو ماجد انکل کہنے لگے۔۔۔ وہ اپنے دوست وقار صاحب کے ساتھ تھوڑے بزی تھے۔۔۔ بس کسی بھی لمحے آنے والے ہوں گے۔۔۔ ۔۔۔ کرنل کی بات سُن کر ۔۔ نک چڑھی آنٹی کہنے لگیں ۔۔ سوری ۔۔ مجھے تو بہت سخت نیند آ رہی ہے اور تم تو جانتے ہی کہ میں اتنی رات گئے تک جاگنے کی عادی نہیں ہوں۔۔۔ اس لیئے میں تو چلی ۔۔ تم بھی آ جانا۔۔۔ تو ماجد انکل کہنے لگے۔۔۔ ڈارلنگ بری بات ہے ۔۔۔ میاں صاحب آنے والے ہیں ۔۔۔۔ وہ کیا سوچیں گے ۔۔ لیکن نک چڑھی آنٹی نے ان کی ایک نہ سُنی اور کہنے لگی۔۔۔ سوری ۔۔۔ ڈارلنگ ۔۔۔سوری باجی۔۔۔۔ میں مزید نہیں رُک سکتی اور پھر ۔۔ وہ کرسی سے اُٹھی اور سونے کے لیئے اپنے گھر چلی گئی۔۔۔۔
نک چڑھی آنٹی کے جانے کے بعد ۔۔۔ کچھ دیر تک تو کمرے میں ایک گھمبیر سناٹا سا چھا گیا ۔۔ اور اماں اور انکل ۔۔۔۔ سر جھکائے ۔۔۔ چپ چاپ ساتھ ساتھ سنگل سیٹر پر بیٹھے رہے ۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد ۔۔۔ کمرے میں اماں کی آواز گونجی۔۔۔۔ وہ کہہ رہیں تھیں ۔۔ یہ ابھی تک میاں صاحب نہیں آئے۔۔۔ اماں کی بات سُن کر کرنل کے چہرے پر ایک مسکراہٹ سی پھیل گئی۔۔۔ اور وہ بولے ۔۔۔۔ میاں صاحب کیسے آئیں گے ان کو تو بتایا ہی نہیں گیا۔۔۔ انکل کی بات سُن کر امان بڑی حیران ہوئی اور ان کی طرف بڑی حیرانی سے تکتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔ لیکن ابھی تو ۔۔ابھی تو۔۔۔۔ اماں کی حالت دیکھ کر کرنل نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور اماں کی نقل اتارتے ہوئے بولا۔۔۔۔ جی ابھی تو ۔۔ابھی تو جو کہا گیا تھا ۔۔۔ وہ جسٹ اپنی بیگم صاحبہ کو مطمئن کرنے کے لیئے کہا گیا تھا۔۔۔۔ انکل کی بات سُن کر اماں کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی ۔۔۔۔۔ اور انہوں نے بڑے معنی خیز ۔۔۔۔ نظروں سے انکل کی طرف دیکھا اور ۔۔۔ بولیں ۔۔۔ اچھا تو یہ بات تھی۔۔۔
اس کے بعد ایک دفعہ پھر کمرے میں چند سیکنڈ کے لیئے گہرا سناٹا چھا گیا۔۔اور پھر اس دفعہ بھی اماں نے ہی اس سناٹے کو توڑا اور پھر میں نے اماں کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔ اماں کے چہرے پر ایک شہوانی سے مسکراہٹ ابھرآئی تھی۔۔۔ اور انہوں نے سامنے دیکھتے ہوئے کرنل کو مخاطب کر کے کہا۔۔۔اج کل ۔۔۔۔ کی حال اے تیرے گھوڑے دا۔۔۔۔۔ ( آج کل تمھارے گھوڑے کا کیا حال ہے ) امان کی بات سُن کر ۔۔ میں نے دیکھا کہ۔۔۔۔۔ اچانک ہی انکل کے چہرے پر بھی ایک شیطانی سی مسکراہٹ آ گئی تھی اور انہوں نے بھی اماں کی طرح سامنے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ باجی تسی گھوڑے دا حال پچھ رے او۔۔۔۔۔ یا۔۔ لوڑے دا۔۔۔ ( باجی آپ گھوڑے کا حال پوچھ رہی ہو یا لوڑے (لن) کا ) تو اماں اٹھلاتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ جو مرضی سمجھ لو ۔۔۔ اماں کی بات سُن کر انکل نے اپنا ہاتھ اپنی پینٹ کی طرف بڑھایا اور ۔۔۔ اس کو زپ کو کھول کر اپنا لن باہر نکلا ۔۔۔۔اور پھر انہوں نے میرے دیکھتے ہی دیکھتے اماں کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔۔اور اپنے لن پر رکھ کر بولے۔۔۔گھوڑا تے ٹھیک اے۔۔ لوڑے دے حال آپی پچھ لو( گھوڑا تو ٹھیک ہے۔۔۔۔لن کا حال آپ خود ہی معلوم کر لو) اب میری نظریں انکل کے لن پر گڑھی ہوئیں تھیں۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ ۔۔۔ اماں نے اپنی انگلی کی پوریں انکل کے لن کے ٹوپے پر پھیرنے شروع کر دیں ۔۔۔ اور ۔۔۔ اماں یہ کام بڑی ہی مہارت سے کر رہیں تھیں ۔۔ اور میں دیکھا کہ ۔۔۔ انکل کا لن جو شروع میں ایک مردہ چھپکلی کی طرح سے تھا ۔۔۔ اماں کی انگلیوں کے کمال سے اب آہستہ آہستہ جان پکڑنے لگا تھا۔۔۔ اور انکل ۔۔۔ بڑے غور سے اماں کی یہ کاروائی دیکھ رہے تھے۔۔۔اب آہستہ آہستہ انکل کا لن کھڑا ہو تا جا رہا تھا۔۔۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ ان کا لن مکمل کھڑا ہوتا ۔۔۔ اچانک انکل نے اماں کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا۔۔۔ میں زرا کنڈی لگا آؤں ۔۔۔۔ اور اپنی سیٹ سے اُٹھ گئے ۔۔۔ ان کے سامنے ہی تو پردے کے پیچھے میں کھڑی تھی جبکہ میرے نیچے جیدا ۔۔۔ لیٹا ہوا تھا۔۔۔۔ اور اب اس کے بدن کی کپکپاہٹ قدرے کم ہو گئی تھی اور اب وہ بھی میری طرح اُٹھ کر کھڑے ہو کر نظارہ دیکھنے کی تیاری کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔
انکل کو اپنی طرف آتے دیکھ کر میں نے اس جھری کو بھی بند کر دیا۔۔کہ جس سے میں یہ سارا نظارہ دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ اور ان کے جانے کا انتظار کرنے لگی چند سیکنڈ کے بعد مجھے۔۔۔ کمرہ لاک کرنے کی مخصوص آواز سنائی دی۔۔۔ پھر انکل کی واپس صوفے پر بیٹھنے کی آواز سنائی دیتے ہی میں نے بردے کی جھری سے جھانک کر دیکھا تو ۔۔۔انکل صوفے پر بیٹھ چکےتھے ۔۔۔ اور اب دوبارہ سے اماں نے انکل کے لن کو اپنی انگلیوں کی گرفت میں لے لیا تھا۔۔۔ اور ان کے ٹوپے پر ہلکہ ہلکہ مساج کر رہیں تھیں۔۔۔۔پھر کچھ دیر بعد ۔۔۔ انکل کا لن پوری طرح کھڑا ہو گیا۔۔۔۔جسے دیکھ کر ۔۔۔۔ میرے تو منہ میں پانی بھر آیا۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف۔ف انکل کا لن ۔۔۔ جیدے کی طرح خاصہ لمبا اور موٹا تھا ۔۔۔ جیدے کے لن کا رنگ کالا جبکہ انکل کا لن کافی گورا تھا ۔۔۔۔ اور ان کے لن کی خاص بات یہ تھی کہ ٹوپے سے تھوڑا نیچے ان کے لن میں ہلکا سا خم تھا۔۔۔۔ یعنی کہ انکل کا لن تھوڑا ٹیڑھا تھا۔۔۔۔انکل کا خوبصورت سا لن دیکھ کر میرے بدن میں بھی خماری چڑھ گئی تھی ۔۔۔۔ چنانچہ ۔۔ میں نے جیدے ( جو کہ اتنی دیر میں کھڑا ہو چکا تھا ۔۔۔ اور میری طرح ۔۔۔ پردے کی جھری سی سے یہ نظارہ دیکھ رہا تھا۔۔۔ ) چونکہ قد میں۔۔۔ میں جیدے سے تھوڑی شارٹ تھی اس لیئے پردے کے نیچے والی جھری سے میں جبکہ میرے ساتھ کھڑا جیدا ۔۔۔ اپنی گردن ٹیڑھی کر کے اور تھوڑا سا میری طرف جھک کر ۔۔۔۔عین میرے سر کے اوپر سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔میں نے بھی۔۔۔اپنا ہاتھ بڑھا یا اور جیدے کی دھوتی سے اس کا نیم کھڑا ۔۔۔ لن نکال لیا ۔۔۔اور اسے اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔۔اور اماں کی طرح جیدے کے لن کے ٹوپے پر ہلکا ہلکا مساج کرنے لگی۔۔۔۔۔ میرے ہاتھوں میں آ کر جیدے کا لن کسی مست ناگ کی طرح کھڑا ہونے لگا ۔۔۔۔ اور جیدے کے لن کی گرمی ۔۔۔۔ میرے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی سیدھی میری چوت میں ۔۔ داخل ہونے لگی۔۔۔۔
ادھر جیسے اماں کے ہاتھ میں انکل کا لن کھڑا ہوا۔۔۔ اماں نے انگلیاں چھوڑ اب اپنے ہاتھ کر گرفت میں انکل کا لن لیا اور کہنے لگیں۔۔۔۔یہ بد معاش تے اجے وی اسی طرں ۔۔۔۔۔ لوے دا لویا اے۔۔۔ اینوں کی کھلاناں ایں ( تمہارا لن ابھی تک ویسے کا ویسا ۔۔۔ لوہے کر طرح ہے تم اسے کیا کھلاتے ہو؟)۔۔ اماں کی بات سُن کر انکل نے اپنا ہاتھ ۔۔۔ اماں کی شلوار میں ڈال دیا ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔ شہوت بھری آواز میں کہنے لگا۔۔۔۔ ایدی خوراک پھدی اے۔۔۔ تے میں اینوں ۔۔ پھدیاں کھلانا واں ( اس کی خوراک چوت ہے اور میں اس کو چوتیں کھلاتا ہوں) پھر اس نے غالباً ۔۔ اماں کی چوت میں ۔۔ انگلی ڈالی تھی۔۔ کیونکہ اچانک ہی میں نے اماں کے منہ سے ایک دلکش سی ۔۔۔ شہوت بھری آواز سنی تھی۔۔۔۔ اوئی۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی۔۔۔۔ انکل اماں سے کہنے لگے۔۔۔۔ باجی ۔۔۔تیری پھدی بلکل ویسے کی ویسے ہی ہے۔۔۔ گرم۔۔۔۔ جوان ۔۔۔ اور پانی سے بھر پور۔۔۔انکل کی بات سنتے ہی اماں ن اپنی دونوں ٹانگوں کو مزید کھول دیا۔۔۔۔ ۔ اور اس کے ساتھ ہی کرنل اماں کی چوت میں اپنی انگلی کو اندر باہر کرنے لگا۔۔۔ یہ نظارہ دیکھ کر میرے ہاتھ میں پکڑا ہوا جیدے کا لن ۔۔جوش میں آ کر ۔ بار بار اکڑنے لگا۔۔۔ اور میں بھی بڑے پیار اور جوش سے اس پتھر کو دبانے لگی۔۔۔میرے بار بار دبانے سے جیدا بڑا مست ہو گیا اور میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا۔۔۔ بڑی گشتی ہے تیری ماں۔۔۔۔
ادھر کچھ دیر تک تو انکل اماں کی چوت میں اپنی سخت انگلیوں کو اندر باہر کرتے رہے ۔۔۔ پھر انہوں نے اپنی انگلی کو اماں کی چوت سے نکالا اور ۔۔۔۔کہنے لگی۔۔۔۔۔۔نیلو باجی۔۔۔۔ میرا جی کر رہا ہے کہ جیسے آپ میرے بچپن میں میرے ساتھ کیا کرتے تھیں آج بھی ویسا ہی کرو نا۔۔۔۔۔آپ یوں سمجھ لو کہ ماجد وہی میٹرک کا سٹوڈنٹ ہے جو آپ کے گھر پڑھنے کےلیئے آیا ہے۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔کرنل نے صوفے کے ساتھ اپنی پشت لگا دی ۔۔۔۔ اب اماں اپنی جگہ سے اُٹھیں ۔۔۔۔ اور سب سے پہلے اپنی شلوار کو اتار دیا ۔۔۔۔ پھر وہ نیچے قالین پر بیٹھ گئیں اور کرنل کی پینٹ ۔۔۔ اتاری اور پھر اس کا انڈر وئیر بھی اتار دیا۔۔۔۔ اب کرنل ۔۔۔ صرف شرٹ پہنے ۔۔۔ صوفے پر بیٹھا ۔۔۔ تھا۔۔۔۔اور اماں نے بھی ابھی تک صرف اپنی شلوار اتری تھی ۔۔۔ جبکہ ابھی قمیض ابھی تک ان کے جسم پر پڑی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ انڈوئیر اتارتے ہی۔۔۔ اماں ۔۔اما ں نے کرنل کے موٹے اور لمبے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔۔ اور اسے ہلانے لگیں۔۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔ اماں نے کرنل کی طرف دیکھتے ہوئے۔۔۔۔ اس کے لن کی طرف منہ بڑھایا ۔۔۔۔ اور ۔۔۔ سب سے پہلے۔اپنی ۔۔ زبان نکال کر اس کے لن کے گرد پھیرنے لگی۔۔۔۔ اماں کو کرنل کا لن چوستے دیکھ کر میں بھی جوش میں آ گئی اور میں نے جیدے کا لن آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا۔۔۔ادھر جیدا ۔۔۔۔اپنا ایک ہاتھ میری شرٹ کے اندر لے گیا۔۔۔۔۔ اور میرے ممے دبانے لگا۔۔۔جبکہ ہم دونوں کی نظریں سامنے ۔۔۔ اماں پر لگی ہوئیں تھیں ۔۔۔۔۔ جہاں اماں ۔۔۔ کرنل کا لن اپنے منہ کے اندر باہر کر رہی تھی۔۔۔۔ اماں کرنل کر لن چوستے ہوئے جیسے ہی اپنی گانڈ اٹھاتی ۔۔۔ تو جیدا جھک کر میرے کان میں کہتا ۔۔۔ تیری ماں دی بنڈ بڑی ودیا اے ( تمھاری اماں کی کتنی پیاری گانڈ ہے) میرا سارا دھیان چوپے کی طرف تھا۔۔ لیکن جیدے کے کہنے پر میں نے اماں کی گانڈ کی طرف دیکھا تو دنگ رہ گئی۔۔۔۔ اماں کی گانڈ ۔۔ بہت گول اور تھوڑی باہر کو نکلی ہوئی تھی ۔۔۔۔ اور جو دیکھنے میں کافی موٹی اور بڑی ہی پُر کشش تھی ۔۔۔۔اتنی پیاری گانڈ دیکھ کر میں نے جیدے ہاتھ بڑھا کر جیدے کا منہ نیچے کیا اور اس سے پوچھا ۔۔۔۔ توں کدی لئی اے؟ ( تم نے کبھی اماں کی بنڈ ماری ہے ) تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔کئی واری(بہت دفعہ ماری ہے) تو میں نے اسے کہا کہ میری وی لے نا ( میری بھی گانڈ مار نا) تو وہ اسی سرگوشی میں بولا ۔۔۔ اجے نئیں( ابھی نہیں ) تو میں نے اسے کہا وہ کیوں ؟ تو اس نے اسی سرگوشی میں بتلایا کہ پہلی دفعہ بہت درد ہوتا ہے اس لیئے ۔۔۔۔
اماں کافی دیر تک انکل کا لن چوستی رہی ۔۔۔۔ اور انکل۔۔۔۔ مستی میں وہی ۔۔مست آوازیں نکالتے رہے ۔۔ جو ہر آدمی چوپا لگاتے ہوئے نکلتا ہے۔۔۔ جیسے ۔۔۔ پورا ۔۔ لو نا۔۔۔۔ یس۔۔یس۔س۔س۔س۔س۔۔۔ تھوڑا ٹوپا منہ میں ۔۔۔ لو۔۔۔ اور اماں کرنل کی ہر ہدایت پر یوں عمل کرتی جیسے کہ وہ ان کی رنڈی ہوں ۔۔۔ پھر امان نے انکل کا لن اپنے منہ سے نکالا اور اپنی قمیض اوپر کی اور اپنے ممے نکال کر انکل سے بولیں ۔۔۔ لو بیٹا دودھ پی لو۔۔۔اماں کی بات سُن کر انکل نے اپنا منہ پورا منہ کھولا ۔۔۔ اور اما ں کے مموں کو بارے بارے چوسنے لگا۔۔۔ اور پھر وہاں سے منہ ہٹا کر کہنے لگا۔۔۔ باجی تیرے مموں کی اٹھان ابھی بھی وہی ہے۔۔۔ زرا فرق نہیں پڑا۔۔۔۔ کرنل کی بات سُن رک اماں کہنے لگی۔۔۔ دودھ پی بیٹا دوھ پی۔۔۔۔۔۔۔اور کرنل سچ مُچ اماں کا ایسے دودھ پینے لگا کہ جیسے کرنل کوئی چھوٹا بچہ ہو۔۔۔۔۔۔۔ ادھر دودھ پینے والا سین دیکھ کر ۔۔۔۔ جیدے نے بھی میرے مموں پر اپنی گرفت سخت کر لی تھی ۔۔۔۔اور اب اس کا لن میری گانڈ کے چھید سے ہوتا ہوا۔۔اس کا ٹوپا ۔۔ میرے سوراخ تک آ پہنچا تھا۔۔ اور ۔۔۔ اس کا لن میری گانڈ کے عین اوپر آ کر ایڈجسٹ ہو گیا تھا۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ جیدا ہے۔ ہلکے گھسے بھی مار رہاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل کر اپنے ممے چوستے وہئے دیکھ کر امان نے کرنل کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولیں۔۔۔ بس کرو ۔۔ بیٹا ۔۔۔ اب دودھ کا ٹائم ختم ہو گیا ہے ۔۔ تو کرنل نے اماں کے ممے سے سر ہٹا کر کہا تو کس کا ٹائم شروع ہے باجی؟؟ تو اماں نے ۔۔۔۔ بڑی ہی مستی میں کرنل کو جواب دیا۔۔۔ اب تیرا جوس پینے کا ٹائم ہے۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ صوفے پر کھڑی ہو گئیں اور اپنی دونوں ٹانگیں کھلی کر کے دیوار پر لگی ایک بڑی سی تصویر کو پکڑ لیا اور اپنی چوت کرنل کے منہ پر رکھ دی۔۔۔پردے کے پیچھےکھڑی مجھے اور جیدے کو اماں کی چوت چاٹنے منظر دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔ کیونکہ ہمارے سامنے اماں کی پشت تھی۔۔۔ اور ا ن کی پھدی کرنل کے منہ کے ساتھ جُڑی ہوئی تھی ۔۔۔اور وہ ہلکہ ہلکہ کراہتے ہوئے کہہ رہیں تھیں ۔۔۔ کیسا لگا میرا گرم جوس۔س۔س۔س۔۔۔۔ میرے خیال میں کرنل نے اپنی زبان سے اماں کی چوت کی دیواروں کو چاٹنا شروع کر دیا تھا کوانکہ پیچھے سے ۔ہمیں اماں کرنل کے چہرے پر برش کرتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔۔۔۔ اماں کے باقی مناظر کی طرح یہ منظر بھی کافی کمال کا تھا۔۔۔ اور میری ٹانگوں کے بیچ میری گرم چوت ۔۔۔ بھی بار بار مجھ سے اس بات کا تقاضہ کر رہی تھی ۔۔۔ کہ کرنل کی طرح جیدا بھی اسے چاٹے ۔۔ چنانچہ میں نے جیدے کو اشارہ کیا ۔۔۔۔ غالباً جیدا بھی یہی چاہتا تھا کہ وہ اپنی زبان سے میری چوت کی چٹائی کرے ۔۔۔اس لیئے وہ بڑی احتیاط سے نیچے قالین پر بیٹھا ۔۔۔اور پھر کھسکتا ہوا ۔۔۔ میری ٹانگوں کے بیچ آ گیا ۔۔۔۔اماں کی طرح میں نے اپنی دونوں ٹانگوں کو آخری حد تک کھولا ۔۔۔۔اور جیدے کے ہونٹوں پر اپنی پھدی رکھ دی۔۔۔۔ جیدا میری نو جوان پھدی کی مہک پا کر اتنا مست ہوا ۔۔۔۔ کہ اس نے میرے دانے کو اپنے منہ میں لیا اور دانتوں سے کاٹ دیا۔۔۔۔۔۔ درد اور مزے کی بڑی ہی شدید لہر میرے وجود میں پھیلی ۔۔۔۔ اور میں نے بڑی مشکل سے اپنے حلق تک آئی ہوئی اپنی ۔۔ چیخ کو بڑی مشکل سے ضبط کیا۔۔۔۔لیکن جیدے کو کچھ نہیں کہا ۔۔۔ ادھر سمجھدار جیدا ۔۔۔۔فوراً بات کو سمجھ گیا اور پھر اس کے بعد اس نے میری پھدی کو دانتوں سے بلکل نہیں کاٹا۔۔۔۔۔۔۔
کافی دیر تک اماں نے اپنی چوت کو کرنل کے منہ کے ساتھ جوڑی رکھا۔۔۔ اور اس دوران مراے خیال میں اماں کی چوت نے دو دفعہ پانی چھوڑا ہو گا وہ یوں کہ۔۔۔ کم از کم دو دفعہ میں نے اماں کے جسم کو کانپتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔اورا دھر خود میں بھی جیدے کے منہ میں دو تین دفعہ فارغ ہو چکی تھی۔۔۔۔
پھر اماں نے کرنل کے منہ سے اپنی پھدی کو ہٹایا اور بولیں ۔۔۔ کیسا لگا میرا ۔۔جوس ۔۔۔۔ تو کرنل اپنے ہونٹوں کے ارد گرد لگی اماں کی منی کو اپنی زبان سے صاف کرتا ہوا بولا۔۔۔۔ باجی آپ کا یا آپ کی چوت کا جوس۔۔۔۔۔۔۔ تو اماں کہنے لگی۔۔۔ چوت بھی تو میری ہے نا جان۔۔۔ اور پھر وہ نیچے اتری اور بولی ۔۔۔۔ اب میں تمھارے لن کو اپنی چوت میں لینے لگی ہوں ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے ۔۔۔۔ اپنی گانڈ کرنل کی طرف کر دی۔۔۔ اور اپنی ٹانگیں کھلی کر کے کرنل کے لن پر تھوڑا سے تھوک لگا کر اسے چکنا کیا ۔۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔ اس کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔۔۔ اور آہستہ آہستہ اس پر بیٹھنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اماں کی یہ ساری کاروائی بلکل میری آنکھوں کے سامنے ہو رہی تھی ۔۔اور فرسٹ تائم میں نےامان کی چوت دیکھی تھی۔۔۔۔۔ اور یہ دیکھ کر میں حیران رہ گئی تھی ۔۔۔۔۔کہ بناوٹ میں میری اور اماں کی چوت ایک جیسی تھی۔۔۔ فرق صرف اتنا تھا۔۔۔ کہ اماں کی چوت کے ہونٹ کثرتِ استعمال کی وجہ سے کافی لٹک گئے تھے جبکہ میری چوت کے ہونٹ ابھی تک اندر کی طرف مُڑے ہوئے تھے اور اپنی نیچرل حالت میں تھے۔۔۔۔ ادھر اماں کی چوت کا دانہ بھی میرے دانے سے کافی موٹا تھا ۔۔۔ باقی اماں کی چوت بھی میری چوت کی طرح کافی ابھری ہوئی اور گوری تھی ۔۔۔ میری چوت کے ہونٹوں کا رنگ پنک سا تھا اور یہ اپنی اوریجنل حالت میں تھے۔۔۔ جبکہ اماں کی چوت کے ہونٹ گھسے مروا مروا کے کافی سیاہ ہو چکے تھے۔۔۔۔ اوورآل۔تھوڑے سے فرق کے ساتھ ۔ میری اور اماں کی چوت بلکل ایک جیسی تھی۔۔۔
ادھر اماں نے کرنل کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔۔۔ اور اسے اپنی چوت کے لبوں پر رگڑ رہیں تھیں۔۔۔پھر کچھ دیر کے بعد انہوں نے آہستہ آہستہ ۔۔۔ کرنل کے لن کو اپنی چوت کے لبوں کے اندر کرنا شروع کر دیا۔۔۔ اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے ۔۔۔۔ کرنل کا اتنا بڑا لن ۔۔ اماں کی چوت میں غائب ہو گیا۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔ جیسے ہی کرنل کا سارا لن اماں کی چوت میں گھسا ۔۔۔۔ اماں نے ایک ہلکی سی چیخ ماری۔۔۔س۔س۔۔سس۔۔۔اور بولی۔۔۔ چلا گیا تیرا۔۔ لن میری پھدی میں۔۔۔۔ اماں کی بات سُن کر پیچھے سے کرنل بولا۔۔۔۔ تو اب جھٹکے مار باجی۔۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف۔ تیری پھدی کتنی گرم ہے۔۔۔۔ جلدی سے گھسے مار۔۔۔۔۔ آہ ۔۔۔۔اور کرنل کی سیکسی بات کو سُن کر اماں نے کرنل کے لن پر تیز تیز اٹھک بیٹھک شروع کر دی۔۔۔ ادھر میری آنکھوں کے سامنے کرنل کا بڑا سا لن اماں کی چوت میں آ جا رہا تھا۔۔ یہ منظر اتنا دل کش اور ۔۔۔سیکسی تھا کہ میں نے اپنی چوت کو جیدے کے منہ سے ہٹایا اور اس کے لن پر بیٹھنے کو کوشش کرنے لگی۔۔۔۔ ادھر جیدے نے پہلے تو اپنا لن میری چوت میں ڈالنے سے کچھ پہلو تہی کی لیکن جب میں نے سختی کے ساتھ اس کا لن پکڑ کر اپنی چوت کے لبوں پر رکھا ۔۔۔۔ تو ۔۔وہ سمجھ گیا کہ ایسے جان نہیں چھوٹے گی ۔۔چنانچہ اس نے اپنا لن کو نیچے سے اپنی مُٹھی میں پکڑا ۔۔۔اور لن کے ٹوپے کو میری چوت کے لبوں پر رگڑنے لگا۔۔۔۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ اس کا لن اپنی چوت میں اتاروں لیکن ۔اس نے بڑی چالاکی سے ۔۔ ٹوپے کے نیچے اپنی مُٹھی میں لن پکڑا ہوا تھا ۔۔ جس کی وجہ سے۔۔۔ محض اس کا ٹوپہ ہی میری چوت کے لبوں میں ان اؤٹ ہو رہا تھا۔۔۔
ادھر کی کشمکش سے فارغ ہو کر میں نے سامنے دیکھا تو ۔۔۔ اماں گھوڑی بنی ہوئی تھی اور کرنل فُل سپیڈ سے گھسے مار رہا تھا۔۔۔ اور اس کا لن کسی پسٹن کی طرح تیزی سے چلتا ہوا اماں کی چوت کے اندر باہر ہو رہا تھا۔۔۔ پھر کرنل رُک گیا اور بولا۔۔۔۔ باجی اب تم دوبارہ سے لن پر بیٹھو۔۔۔۔ اور خود صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔اب اماں نے اپنی دونوں ٹانگوں کو پہلے کی طرح میز کھلا کیا ۔۔۔۔۔۔ اور جلدی سے کرنل کے لن کو اپنی چوت میں لے لیا ۔۔۔۔اور جمپ مارنے لگی۔۔۔۔ ادھر میں بھی جیدے کے لن پر بیٹھی تیزی سے اٹھک بٹھک کر ر ہی تھی۔۔۔۔۔ اور ۔۔ پھر کچھ ہی دیر بعد میری چوت نے ڈھیر سارا پانی چھوڑا۔۔۔ اور میں تھوڑی شانت ہو کر جیدے کے لن سے اُ ٹھ گئی اور پوری توجہ سے باہر کا نظارہ دیکھنے لگی۔۔۔میرا خیال میں ادھر اماں کا بھی فائینل راؤنڈ چل رہا تھا۔۔۔ کیونکہ اماں کے منہ سے نکلنے والی سیکسی آوازوں میں اب شدت آ رہی تھی۔۔۔اور پھر میرا اندازہ ٹھیک نکلا۔۔۔۔۔ کچھ ہی دیر میں اماں کی چوت نے ڈھیر سارا پانی چھوڑا۔۔ اور پھر اگلے ہی لمحے۔۔۔۔ کرنل کے لن نے بھی منی اگلی ۔۔۔۔ جو اماں کی چوت سے ہوتی ہوئی۔۔۔کافی حد تک باہر بہہ گئی۔۔۔۔اور میرے سامنے اماں کی چوت۔۔ آف وائیٹ پانی سے برت گئی اور گاڑھا سا مادہ ان کی چوت کے لبوں سے نکل نکل کر باہر بہنے لگا۔۔۔۔۔
اپنا اپنا مواد نکالنے کے بعد وہ دونوں کچھ دیر تک ایسے ہی بیٹھے رہے ۔۔۔۔ پھر سب سے پہلے اماں اُٹھیں اور انہوں نےاپنی شلوار کی اوپر کی جانب سے کرنل کا لن صاف کیا پھر اپنی پھدی کے اندر تک اپنی شلوار کا کپڑا پھیرا۔۔اور اپنی پدھی کو اچھی طرح صاف کرنے کے بعد ۔ ا۔۔ وہی شلوار پہن کر کرنل کو پینٹ پکڑائی اوربولی۔۔ جلدیکرع۔۔۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں کرنل نے پینٹ پہنی اور وہ دونوں باری باری کمرے سے نکل گئے۔۔۔۔۔ جیسے ہی وہ کمرے سے نکلے میں اور جیدا بھی صوفے کے پیچھے سے باہر آ گئے اور میں جیدے کو آنکھیں دکھاتے ہوئی بولی۔۔۔ پورا کیوں نہیں لینے دیا مجھے۔۔۔ تو وہ ہنس کر بولا۔۔وجہ ۔ تم کو معلوم ہی ہے پھر وہ کہنے لگا ۔۔۔ کہ اس سے پہلے کہ کوئی اور یہاں آ جائے چل چلیں۔۔۔ اور کہنے لگا۔۔۔ میں برآمدے کی جانب سے جاؤں گا۔۔۔ تم دوسری طرف لان سے ہوتی ہوئی چلی جانا۔۔۔ اور پھر اس نے دروازے سے تھوڑا سا سر نکالا اور۔۔۔۔مجھے اشارہ کرتا ہوا باہر غائب ہو گیا۔۔۔ میں نے بھی چند سیکنڈ کا وقفہ دیا اور پھر ۔۔۔ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی باہر نکل آئی۔۔۔رات کافی ہو گئی تھی لیکن چاندنی رات اور لائیٹس کی وجہ سے سب نظر آ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ رات کے پچھلے پہر اگر کوئی دیکھ لیتا تو جواب دہی مشکل ہو جانی تھی۔۔۔ چنانچہ میں نے روشنی سے بچنے کے لیئے سامنے والے لان کی بجائے کوٹھی کی پچھلی طرف سے جانے کا فیصلہ کیا۔ ۔ کیونکہ یہاں اندھیرا ہونے کی وجہ سے میرا پہچاننا کافی مشکل تھا۔۔ ہر طرف سناٹے کا راج تھا ۔ میں گھوم کر کوٹھی کی پچھلی سائیڈ پر دبے پاؤں چلتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی میں کوٹھی کے وسط میں پہنچی۔۔۔۔ اچانک میرے کانوں میں دبی دبی ۔۔۔ سرگوشیوں کی آوازیں آئیں ۔۔۔ اور میں اک دم چونک گئی۔۔۔۔ میری چھٹی حس بیدار ہو گئی اور میں وہیں رُک کر آوازوں کی سمت معلوم کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔ جلد ہی مجھے ان سرگوشیوں کی سمت معلوم ہو گئی ۔۔۔ یہ آوازیں مجھ سے کچھ دور درختوں کے پیچھے سے آرہیں تھیں۔۔۔ ان درختوں کو دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آگیا ۔۔ کہ کیسے میں بھی اپنے یار کے ۔۔ساتھ ابھی میں نے اتنا ہی سوچا تھا ۔۔۔ کہ ایک نسبتاً اونچی آواز۔۔میں سسکی کی آواز سنائی دی۔۔۔ آؤؤؤؤ۔۔۔چ۔چ۔چ۔چ۔چ۔۔۔۔ اور میں سمجھ گئی کہ ان درختوں کے پیچھے کیا سین ہو سکتا ہے۔۔۔ اور دبے پاؤں چلتی ہوئی۔۔۔ درختوں کے پاس پہنچ گئی۔۔۔۔ جیسے ہی میں ان درختوں کے پاس پہنچی وہی ۔۔۔ مترنم ۔۔۔سیکسی اور ۔۔۔ دل کش آواز میں سسکی سنائی دی۔۔۔۔ اُوئی۔۔ ماں ۔۔ دانت تو نہ کاٹیں نہ۔۔۔۔یہ دل کش ۔۔۔۔ مترنم اور سیکسی آواز میں نے پہچان لی تھی۔۔۔۔ یہ آواز عظمٰی باجی کی تھی۔۔۔۔ اور ان کے ساتھ کون تھا جو ان کو دانتوں سے کاٹ رہا تھا ۔۔ یہ جاننے کے لیئے میں آگے بڑھی ۔۔۔۔ تو میں دیکھ کہ ۔۔۔۔ عظمٰی باجی ۔۔۔ کی قمیض اوپر ہے اور انہوں نے درخت کے ساتھ ٹیک لگائی ہوئی ہے اور ایک شخص ان کے ممے چوس رہا ہے۔۔۔۔اور ممے چوستے چوستے جیسے ہی اس شخص نے سر اُٹھا کر عظمٰی باجی کی طرف دیکھ۔۔۔۔ تو میں نے اس بندے کو پہچان لیا۔۔۔۔ وہ ۔۔۔وہ ۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی۔۔۔۔باقی۔۔ آئیندہ۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
Post a Comment