ترَاس قسط۔۔۔۔11

ترَاس                                 
                                                                                                                                                11ترَاس ۔۔۔
وہ نسوانی آواز اور کسی کی نہیں ۔۔۔ بلکہ۔۔۔۔ بلکہ ۔۔۔۔ یہ آواز۔۔۔بلکہ یہ آواز تو جیدے کے ساتھ آئی ہوئی ہمارے کام والی خاتون جمیلہ کی تھی اس کی آواز سُن کر میں اس لیئے بھی حیران ہوئی تھی کہ جمیلہ بہت چُپ چاپ اور اپنے کام سے کام رکھنے والی عورت تھی اور کم از کم میں نے تو اس میں ایسی کوئی بات نہ دیکھی تھی ۔۔ اسی لیئے میں بڑی حیرانی سے جیدے کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔ اسی دورران تیسری دفعہ دروازے پر دستک ہو ئی اور پھر اچانک ہی جیدے نے میری طرف دیکھ کر مجھے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا اور جییے ہی میں اس کے قریب پہنچی اس نے مجھے اپنی چارپائی پر لٹایا اور میرے اوپر چادر دیکر کر بولا ۔۔آپ نے اپنا منہ چادر کے اندر ہی رکھنا ہے اور خود کو سوتا ہوا ظاہر کرنا ہے ۔۔۔ میں اس کی بات نہ سمجھی کہ وہ کرنا کیا چاہتا ہے لیکن پھر بھی اس کے کہنے پر میں اس کی چارپائی پر لیٹ گئی اور اپنے منہ کو چادر سے ڈھانپ لیا ۔۔ ادھر جیدے نے دروازہ کھولنے میں مزید چند سیکنڈ لگائے اورپھر نیند بھری آواز میں بولا ۔۔ کون ہے ؟ تو باہر سے جمیلہ کی دبی دبی آواز سنائی دی۔۔ جیدے میں ہوں جمیلہ ۔۔۔۔۔ اور جیسے ہی جیدے نے دروازہ کھولا جمیلہ ایک دم سے اندر کمرے میں داخل ہو گئی اور جیدے سے کہنے لگی اتنی دیر سے دروازہ کھٹکھٹا رہی تھی تم نے کھولا کیوں نہیں؟ تو جیدا نیند بھر ی آواز میں بولا نیک بخت تم کو تو پتہ ہی ہے کہ شادی والے گھر میں کتنے کام ہوتے ہیں ۔۔۔ اس لیئے میں بڑا تھکا ہوا تھا اور لیٹتے ہی میری آنکھ لگ گئی تھی۔۔پھر اس نے جمیلہ کی طرف دیکھا اور اسے کہنے لگا اچھا ۔۔یہ ۔ بتاؤ تم اس وقت کیسے آئی ہو۔۔۔؟؟ ؟؟ جیدے کی بات مکمل ہوتے ہی ۔۔۔ میں نے جمیلہ کی پُر ہوس آواز سنی وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔جیدے میرا ۔۔ بڑا دل کر رہا تھا تم سے ملنے کو ۔۔۔ اس لیئے میں تم سے ملنے آئی ہوں ۔۔۔ اس کی بات سنتے ہی جیدے نے بھی اسی کی طرح دبی دبی آواز میں جواب دیا وہ کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔۔ جی تو میرا بھی بہت کر رہا تھا کہ تمھاری لوں ۔۔ لیکن کیا کروں ۔۔۔ وہ دیکھو ۔۔۔۔ نیلو باجی ایک مصیبت کو میرے کمرے میں سلا گئی ہے ۔۔۔
جیدے نے بات کرتے ہوئے شاید اپنی چارپائی کی طرف بھی اشارہ کیا تھا کیونکہ جیسے ہی جیدے نے اپنی بات مکمل کی تھی میں نے جمیلہ کی گھبرائی ہوئی آواز سُنی ۔۔۔وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔ ہائے میں مر گئی۔۔۔۔ اور پھر وہ سرگوشی میں جیدے سے پوچھنے لگی ۔۔۔ یہ کون ہے؟ تو جیدا بولا۔۔۔۔۔۔ کسی مہمان کا بچہ ہے اس کو جگہ نہیں ملی تو نیلو باجی نے اسے میرے پاس سلا دیا ہے اور دیکھ لو میں خود نیچے فرش پر سویا ہوا ہوں ۔۔۔ جیدے کی بات سُن کر میرے خیال میں جمیلہ نے نیچے فرش پر بنے جیدے کے بستر کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ اوہو۔۔۔ باجی نے یہ مصیبت کہاں سے سلا دی ۔۔۔۔۔ آج اتنا زیادہ دل کر رہا تھا۔۔۔ تو جیدے نے اس سے بڑے ہی عاشقانہ لہجے میں کہا ۔۔۔ کوئی بات نہیں یار پنڈ جا کر کر لیں گے۔پھر شاید اس نے جمیلہ کو پکڑ لیا تھا ۔۔۔ کیونکہ میں نے جمیلہ کی گھبرائی ہوئی آواز سنی تھی تھی وہ کہہ تھی ۔۔ یہ کیا کر رہا ہے جیدے۔۔۔۔بچہ اُٹھ جائے گا۔۔۔ جمیلہ کی یہ بات سُن کر میرے کان کھڑے ہو گئے تھے اور میں نے اپنی چادر کو تھوڑا سا سرکایا اور ۔۔۔ باہر کا منظر دیکھنے لگی۔۔۔ اوہ۔۔ کیا دیکھتی ۔۔۔۔ ہو ں کہ جیدے کا پورا ہاتھ ۔۔جمیلہ کی شلوار میں گھسا ہوا تھا ۔۔۔ میری طرح شاید جمیلہ نے بھی الاسٹک والی شلوار پہنی ہوئی تھی۔۔ اسی لیئے اس کی شلوار نیچے نہیں آ ئی تھی۔۔ جیدے نے شاید اپنی ایک انگلی جمیلہ کی چوت میں ڈالی تھی ۔۔ انگلی اندر ڈالتے ہی جیدا ایک دم چونک گیا اور دبی دبی آواز میں جمیلہ سے بولا۔۔۔تیری پھدی نے تو کافی پانی چھوڑا ہوا ہے۔۔۔ تو جمیلہ کہنے لگی ۔۔ اسی لیئے تو تیری پاس آئی تھی۔۔۔ پھر اس نے اپنا منہ تھوڑا پیچھے کیا اور جیدے کو چوم کر بولی۔۔۔۔ دوجی وی پا نا۔(میری چوت میں دوسری انگلی بھی ڈالو) ۔اور پھر شاید جیدے نے دوسری انگلی بھی جمیلہ کی چوت میں ڈال تھی۔۔۔ اور پھر وہ اسے تیزی کے ساتھ اندر باہر کرنے لگا۔۔ جیسے ہی جیدے کی انگلیوں میں تیزی آئی ۔۔ جمیلہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔ اور ۔۔۔اپنی چوت میں جیدے کی انگلیوں کا مزہ لینے لگی۔۔۔ پھر کچھ ہی دیر کے بعد۔۔۔ جمیلہ۔۔ نے نہ چاہتے ہوئے بھی ایک سسکی لی۔۔۔ اور اس کا سارا جسم کانپنے لگا۔۔۔ اور جیدے سے بولی۔۔۔۔ چھیتی چھیتی انگل مار نا جیدیا( تیز تیز انگلی مارو نا جیدے) اور پھر اگلے چند سیکنڈز کے بعد جمیلہ جیدے کے ساتھ لپٹ گئی۔۔۔ وہ۔۔۔ چھوٹ گئی تھی۔۔جمیلہ کے چھوٹنے کے بعد جیدے نے اپنی انگلیوں کو اس کی چوت سے نکلا۔۔ تو میں نے دیکھا کہ جیدے کی موٹی موٹی انگلیوں پر جمیلہ کی منی لگی ہوئی تھی۔۔۔ ادھر کچھ دیر تک جمیلہ اپنے سانس بحال رکتی رہی۔۔۔ پھر جب وہ شانت ہو گئی تو جیدے نےاس سے کہا ۔۔۔ کج گزارا ہویا اے ( کچھ گزرا ہوا ہے) تو جمیلہ کہنے لگی۔۔۔ چھُٹ تے گئی آں پر۔۔ بھانبڑ ودھ گیا اے ( میں چھوٹ تو گئی ہوں پر میرے اندر لگی آگ اور بھڑک گئی ہے) اس کی بات سن کر جیدا بولا ۔۔۔ فکر نہ کر پنڈ جا کے تمھاری ساری کسر نکال دوں گا۔۔۔۔۔ اور ۔ اور پھر بڑے طریقے جمیلہ کو وہاں سے چلتا کر دیا۔۔۔ اور جب جمیلہ وہاں سے چلی گئی تو جیدے نے پھر سے اپنا دروازے کو بند کیا اور مجھ سے بولا ۔۔۔ آ جاؤ بی بی جی ۔۔۔۔ جیدے کی آواز سنتے ہی میں جمپ مار کر بستر سے نیچے اتری اور جیدے کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی اور اس سے کہنے لگی۔۔۔۔ جیدے ۔۔۔ کر لینا تھا نہ اس بے چاری کو۔۔۔۔ تو جیدا میری طرف دیکھ کر مسکرایا ۔۔۔۔اور بڑے پراسرار لہجے میں کہنے لگا ۔۔۔۔ یہاں اتنی وی آئی پی پھدیوں کے ہوتے ہوئے ۔۔۔ میں بھلا اس پینڈو کی پھدی کو کیسے مار سکتا تھا۔۔۔ ۔۔۔ اور پھر بولا ۔۔۔۔ آپ ٹھہرو میں زرا باہر کا جائزہ لے کر آتا ہوں ۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد آ کر بولا۔۔ سب ٹھیک ہے آپ جا سکتی ہے اس کی بات سنتے ہی میں بڑے محتاط انداز سے وہاں سے نکلی اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اپنے کمرے میں آ گئی۔۔۔۔اور سارا راستہ یہی سوچتی رہی ۔۔۔میری پھدی تو اس نے لی نہیں ۔۔صرف اماں کی لی ہے ۔۔۔ تو پھر وی آئی پھدیوں سے جیدے کی کیا مراد تھی۔۔۔ اماں کے علاوہ ضرور اور خواتین بھی ہیں جن کی جیدا پھدیاں مارتا ہے ۔۔ااماں کے علاوہ وہ کون ہو سکتی تھیں ؟۔۔۔۔ میں قیاس کے گھوڑے دوڑانے لگی۔۔۔۔
اگلے دن بارات تھی ۔۔۔۔چنانچہ میں صبع صبع اُٹھی اور شادی کی تیاریوں میں اماں کا ہاتھ بٹانے لگی۔۔۔ ہم دونوں ماں بیٹی بھائیوں اور ابا کے کپڑے بیگ میں ڈال رہیں تھیں کہ اچانک اماں کی نظر دروازے پر پڑی تو اس وقت عظمٰی باجی کمرے میں داخل ہو رہیں تھیں اماں نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں۔۔۔۔ہما ۔۔۔ اگر تم کو کہیں عظمٰی کی بچی نظر آ گئی نا تو خبردار ۔۔۔ اس سے کو ئی بات نہیں کرنا ۔۔۔ میں نے اس کا حقہ پانی بند کر دیا ہے۔۔۔ عین اسی لمحے عظمٰی باجی اماں کے قریب پچی چکی تھی اور اس نے اماں کی حقہ پانی والی بات سُن لی تھی۔۔اور اماں کی بات ختم ہوتے ہی اس نے کہا ۔۔۔ ہما ۔۔ کس کی جرات ہے جو مابدولت کا حقہ پانی بند کر سکے ۔۔۔ عظمٰی باجی بظاہر تو مجھ سے مخاطب تھی لیکن درپر دہ وہ اپنی بات اماں کو سنا رہی تھی پھر اس کے بعد اس نے اماں کو کہا ۔۔ سوری آپا ۔۔۔ میں نے بڑی کوشش کی تھی لیکن فائق کی مہندی پر نہ پہنچ سکی تھی۔اس کے لیئے بہت بہت معزرت ۔۔تو اماں نے اس کی طرف دیکھا اور بظاہر غضب ناک لہجے میں کہا ۔۔۔ بے شرم عورت تم نے وعدہ بھی کیا تھا کہ کم از کم تم مہندی ضرور اٹینڈ کر و گی۔۔۔ تو عظمٰی باجی بولی ۔۔۔ آپا میں نے کہا تو تھا ۔۔ لیکن مصروفیت ایسی آن پڑی تھی کہ میں چاہ کر بھی نہ آ سکی تھی ۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔ ابھی بھی ابو لوگ کراچی میں ہی رُکے ہوئے ہیں۔۔۔ اور آپ لوگوں کی شادی کی وجہ سے میں اکیلی ہی کراچی سے آئی ہوں ۔۔ پھر اس کے بعد تھوڑی دیر اور گلے شکوے ہوتے رہے ۔ اور پھر عظمٰی باجی نے اماں کو اپنی مجبوری بتائی کہ کس وجہ سے وہ فائق بھائی کی مہندی میں شامل نہ ہو سکی۔۔۔ ۔۔۔اب میں یہاں اپنے پڑھنے والوں سے عظمٰی کا تعارف کر اتی ہو ں ۔۔ اس خاتون کا پورا نام عظمٰی سرمد ہے اور وہ اماں کی بیسٹ فرینڈ ز میں سے ایک ہے عظمٰی باجی ایک 34/35 سا ل کی خوبصورت ،دل کش ۔۔۔ رکھ رکھاؤ والی اور بڑی ہی نستعلیق قسم کی خاتون تھی ۔۔۔ ان لوگوں کا تعلق کراچی سے تھا اور کراچی کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے عظمٰی کا سارا خاندان لاہور شفٹ ہو گیا تھا ۔۔۔ عظمٰی ایک بیوہ خاتون تھی اور اس نے بیوہ ہونے کے بعد بھی اپنے سسرال میں یہ کہہ کر رہنا شروع کر دیا تھا۔۔۔ کہ میرا جینا مرنا اب اسی گھر میں ہے۔۔ ۔۔۔ ویسے تو عظمٰی باجی کو جاب کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی کہ اس کے سسر کا اچھا خاصہ بزنس تھا ۔۔۔لیکن ۔۔۔ دل بہلانے اور ٹائم پاس کرنے کے لیئے وہ جاب کرتی تھی۔اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں بڑی اچھی پوسٹ پر فائز تھی۔۔۔ بیوہ ہونے کے باوجود ۔۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں ہر وقت ایک عجیب سی شرارت رقص کرتی نظر آتی تھی ۔۔۔ اور اس کی خاص بات اس کے سیکسی ہونٹ تھے اور جب وہ اپنے ان سیکسی ہونٹوں پر خاص کر سُرخ رنگ کی لپ سٹک لگاتی تھی تو اس لپ سٹک کی وجہ سے اس کے ہونٹ بڑے ہی جاندار اور سیکسی نظر آتے تھے ۔۔۔ اور اس کے یہ جاندار اور سیکسی ہونٹ دیکھ کر میں نے بڑے بڑے لوگوں کو حسرت بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا ہے۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ عظمٰی باجی کی شخصیت میں بھی اماں کی طرح ایک خاص ۔۔۔ وقار ، رُعب اور دبدبہ ہونے کی وجہ سے کسی میں اتنی ہمت نہ ہوتی تھی کہ اس سے کوئی بات کر سکے ۔۔ یہاں تک کہ میں بھی اب تک اس کے قریب نہ ہو سکی تھی ۔ کیونکہ ایک تو وہ خود بھی سب کے ساتھ ایک خاص فاصلہ رکھنا پسند کرتی تھی ۔ دوسری جاب پر جانے کی وجہ سے وہ کچھ بزی بھی رہتی تھی ۔۔۔ ہاں اماں کی اس خاتون کے ساتھ بہت بنتی تھی۔۔۔ اورہمسائے ہونے کے ناطے ان لوگوں کے ساتھ ہماری بڑی اچھی علیک سلیک بلکہ دوستی تھی۔۔ ۔۔ اماں نے جب عظمٰی باجی کی زبانی اس کی مجبوری سنی تو انہوں نے باجی کی معزرت قبول کر لی ۔۔۔اور پھر عظمٰی باجی بھی مختلف کاموں میں ہمارا ہاتھ بٹانے لگی۔۔۔ اور پھر کام کرتے ہوئے وہ اماں سے کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔ باجی پلیز بتاؤ نا ۔۔کہ بارات چلنے کا رائٹس ٹائم کیا ہ ے ؟؟؟۔۔۔ تو اماں ۔۔ ہنس کر کہنے لگی۔۔۔۔۔ چندا جب تم اور تمھارے جیسی اور بیبیاں تیار ہو جائیں گی ۔۔ نا ۔۔ تو بارات اسی وقت روانہ ہو جائے گی۔۔۔
اماں کی بات سن کر عظمٰی باجی کہنے لگی ۔۔ پلیز باجی میری بات کا ٹھیک ٹھیک جواب دو نا ۔۔تو اماں نے ایک دفعہ پھر ہنستے ہوئے اپنی پرانی بات دھرا دی ۔۔۔ اور عظمٰی نے تائید میں سر ہلا دیا اور پھر اماں سے بولی۔۔۔۔۔جیسا کہ آپ کو پتہ ہے باجی کہ میں آج صبع ہی کراچی سے لاہور پہنچی ہوں اس لیئے مجھے پلیز اپنے چلنے کا ٹائم اور اپنا پلان بتائیں تا کہ میں اس کے مطابق تیار ہو سکوں ۔۔۔اس کے بعد عظمٰی باجی نے ایک دفعہ پھر اپنا جملہ دھرایا اور کہنے لگی۔۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ کہ آپ لوگوں کا پلان کیا ہے ۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ تو اماں نے اس سے کہا کہ یار ہم لوگوں کا پلان تو یہ ہے کہ ہم لوگ یہاں سے 10/12 بجے نکلیں گے ہماری بارات ڈائیریکٹ دلہن والوں کے گھر نہیں جائے گی بلکہ برات یہاں سے بہاولپور کے ماڈل ٹاؤن اے میں جا کر اترے گی جہاں پر میرے فسٹ کزن کے بیٹے کرنل ماجد کی اپنی کوٹھی ہے اور اس نے اصرار کر کے ہمارا سارا بندوبست اپنے ہاں کیا ہوا ہے۔۔۔ وہاں جا کر ہم لوگ ایک رات ریسٹ کریں گے پھر اگلے دن صبع صبع ہماری بارات ایک دوسری گلی میں جو کہ ماجد لوگوں کے قریب ہی واقعہ ہے جائے گی اور ہماری کوشش ہو گی کہ بارہ ایک بجے تک شادی کی ساری رسومات ادا کر کے کہ کہ ہم لوگ ایک دو بجے وہاں سے چل پڑیں تو رات۔۔۔ آٹھ نو بجے تک ہم لوگ واپس لاہور پہنچ جائیں گے ۔۔۔ اماں کا سارا پلان سُن کر عظمیٰ بولی ۔۔۔ ٹھیک ہے باجی میں دس بجے تک تیار ہو کر آ جاؤں گی۔۔۔۔ تو اماں کہنے لگی ۔۔۔ خبردار عظمٰی کی بچی ۔۔۔دس بجے کا مطلب دس بجے ہی ہو گا۔۔۔ تو وہ ہنس کر کہنے لگی ٹھیک ہے باجی اور وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔ کچھ دیر بعد گھر آئے ہوئے سب مہمان اُٹھنا شروع ہو گئے اماں نے جلدی سے ان کے لیئے ناشتہ لگوا دیا اور پھر ۔۔۔ ناشتے کے بعد بھا میدا ۔۔۔ اماں کے پاس آیا اور اپنے مخصوص لہجے میں بولا۔۔۔ والدہ حضوڑ۔۔۔آپ کے حکم کے مطابق ۔ دونوں کوسٹریں آ گئیں ہیں ۔۔۔ اور ایک دم ریڈی ہیں بس آپ لوگوں تیاڑ ہوں تو ہم چلیں ۔اس کی بات سُن کر امان کہنے لگیں شاباش میدے یہ ہوئی نا بات۔۔۔ مہمان ناشتہ کر لیں تو ہم چلتے ہیں ۔۔اماں کی بات ختم ہوتے ہی بھا نے سوالیہ نظروں سے اماں کی طرف دیکھا اور ڈرتے ڈرتے بولا۔۔۔ والدہ حضوڑ ۔۔۔ اجازت ہو تو وہ ڈانسر لڑکے بھی ساتھ لے جاؤں؟ ۔زڑا شغل میلا رہے گا۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر اما ں نے بڑے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگیں۔۔۔ بلکل کوئی اجازت نہیں ہے اور ہاں خبردار ۔۔۔۔ اپنے ابا سے اس بارے میں بات تک بھی نہ کرنا ۔۔۔۔ تو بھا بولا ۔۔۔ والدہ۔۔۔ وہ۔۔ تو اماں اس کی بات کو کاٹتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ زیادہ ٹر ٹر نہ کر ۔۔۔ جو کہا ہے اس پر عمل کرو۔اور اب یہاں سے دفعہ ہو جاؤ۔۔ بھا میدا اماں کی جھاڑ سنی اور پھر منہ بناتا ہوا۔۔۔۔۔ کان لپیٹ کر وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا-
۔۔۔ اس کے جاتے ہی اماں منہ ہی منہ میں بُڑبڑائی اور بولی ۔۔۔ حرام دا۔۔۔۔ پتہ نئیں کدوں منڈیاں دی جان چھڈے گا ( حرامی پتہ نہیں کب لڑکوں کی جان چھوڑے گا) اس کے بعد کوئی خاص واقعہ نہیں ہوا۔۔۔ چنانچہ ناشتہ کے بعد اماں اور ابا کی بار بار کی تاکید اور ۔۔۔ محنت سے آخرِ کار سب مہمان گھر سے کوسٹروں میں بیٹھنے کے لیئے ایک ایک کر کے روانہ ہو گئے اور آخر میں ہم ۔۔۔اپنی فیملی کے لوگ ہی ہی رہ گئے ۔۔تب ابا نے بھا میدے کو اپنے قریب بلایا اور اس سے پوچھا ۔۔۔ حمید تم نے اپنی تیاری کر لی ہے؟ تو بھا میدا ۔۔۔ فخریے لہجے میں کہنے لگا۔۔۔ ابا جی آپ وہم نہ کڑو ۔۔۔ میں نے سب انتظام کڑلیا ہے۔۔ میڑے ساڑے دوستوں کے پاس اسلحہ ہو گا اور ہم دو گاڑیوں میں سوار ہوں گے ایک دلہے کی گاڑی اور مردوں والی کوسٹر کے ساتھ ہو گی جبکہ دوسری گاڑی ۔۔۔ لیڈیز کوسٹر کی حفاظت کرے گی۔۔۔۔۔ تو ابا نے بھا سے بولے حمید ایک تواپنے اپنے اسلحہ کے لائیسنس ضرور ساتھ رکھنا ۔۔۔۔۔ اور پھر اچانک ابا کا لہجہ سخت ہو گیا اور وہ کہنے لگے دوسری بات یہ کہ اپنے اسلحہ کو چھپا کر رکھنا ہے ۔۔۔ خبردار جو کسی نے کسی بھی وقت اپنے اسلحہ کی نمائش کی تو۔۔۔۔ اور پھر اس کے بعد کچھ ضروری باتیں سمجھانےکے بعد ابا اور اماں نے مل کر گھر کو تالا لگایا اور پھر وہاں کھڑے ہو کر دعا کی اور ہماری بارات بہاولپور کی طرف چل پڑی ۔۔۔
اکلوتی بہن ہونے کی وجہ سے دلہے کی کار میں فائق بھائی کے ساتھ میں اور ابا بیٹھے تھے جبکہ اماں لیڈیز کوسٹر میں بیٹھی تھیں ۔۔۔ ہم وہاں سے تقریباً گیارہ بارہ بجے کے قریب چلے تھے اور راستے میں ایک دو جگہ رکنے کے بعد شام کو بہاولپور پہنچ گئے تھے۔۔۔۔۔ سب سے آگے ہماری گاڑی تھی اور پیچھے دونوں کوسٹریں ۔۔۔ایک میں لیڈیز سوار تھیں جبکہ دوسری جینٹس سے بھری ہوئی تھی۔۔ اور ان کوسٹروں کے پیچھے مختلف دوست احباب کی کاریں تھیں۔۔۔ جیسے ہی ہماری گاڑی رُکی فائق بھائی کی ساس سسر اور دیگر لوگوں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ ہمارا استقبال کیا اور پھر رسمی جملوں اور ہنسی مزاق کے بعد ہم لوگ ماجد انکل کی کوٹھی میں چلے گئے یہ ایک پرانی طرز کی بڑی سی دو منزلہ کوٹھی تھی اور اس میں اوپر نیچے کوئی 25 /30 کمرے تھے ۔۔۔ جبکہ سرونٹ کوارٹر اور گیسٹ بیڈ اس کے علاوہ تھے ۔۔۔ ماجد انکل کے گیسٹ بیڈ پر فائق بھائی اور ان کے دوستوں نے قبضہ کر لیا ۔۔۔ جبکہ سرونٹ کوارٹر میں ان کے ملازموں کے ساتھ ساتھ ایک دو کمرے جیدے وغیرہ کے لیئے مختض کئے گئے تھے۔۔۔ کرنل ماجد ایک گٹھے ہوئے ۔۔ مضبوط جسم اور خوبصورت باڈی کے آرمی آفیسر تھے ۔۔اور ان کے بارے میں بتا دوں کہ یہ اماں کے فرسٹ کزن کے سب سے بڑے لڑکے تھے اور آجکل کراچی میں پوسٹ تھے ان کی شادی بہاولپور کے کسی نواب کی پڑپوتی سے سے ہوئی تھی ۔ان کی نوابی تو عرصہ ہوا ختم ہو گئی تھی ۔۔۔ جبکہ ان خاتون کی نوابی ختم ہونے میں ہی نہ آ رہی تھی۔۔۔ماجد انکل کی بیوی تھی تو بہت کیوٹ ۔۔پر۔۔۔۔وہ۔ بڑی ہی مغرور اور تُنک مزاج تھی ۔۔ ۔۔ خواہ مخواہ ہی لیئے دیئے رکھتی تھی ۔۔۔ ہم لوگ اسے نک چڑھی آنٹی کہتے تھے۔۔۔ اس میں ابھی تک نواب ذادیوں والا نخرہ پایا جاتا تھا۔اور یہ کوٹھی انکل کو سسرال کی طرف سے جہیز میں ملی تھی۔۔۔۔۔ آنٹی جس قدر نک چڑھی اور تُنک مزاج تھیں ماجد انکل اسی قدر اچھے اور فرینڈلی بندے تھے اور اماں کے ساتھ تو ان کی بہت زیادہ بنتی تھی کہ کسی زمانے میں یہ لوگ گاؤں میں اکھٹے رہتے تھے ۔۔۔ اماں کی وجہ سے ہی انکل نے ہمارے لیئے نہ صرف یہ کہ ساری کوٹھی خالی کر دی تھی اور خود اپنے سسرال میں رہ رہے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہمارے لیئے کھانے کا بھی بندوبست کیا ہوا تھا۔۔
چنانچہ رسمی عیلک سیلک اور گپ شپ کے بعد کرنل ماجد ابا کے پاس آئے اور بولے ۔۔۔ میاں جی پہلے چائے پیو گے یا کھانا لگوا دوں ؟؟ ۔۔۔تو ابا نے حسبِ عادت سارا ملبہ اماں پر ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔ یار نیلو سے پوچھ لو ۔۔۔۔ جیسے وہ کہتی ہے کر لو۔۔۔ تو ماجد انکل بولے ۔۔۔ کُچ تُسی وی دس دیا کرو میا ں جی (کچھ آپ بھی بتا دیا کرو میاں صاحب ) تو ابا ہنس کر بولے۔۔۔ سمجھا کر نا یار۔۔۔۔ اور پھر وقار انکل کےساتھ ایک جانب بڑھ گئے ۔۔۔اب انکل نے میری طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ ہما اپنی اماں کو تو بلا کر لاؤ۔۔۔میں نے ان کی بات سُنی اور اندر چلی گئی۔۔۔ اور تھوڑی سی کوشش کے بعد اماں کو ڈھونڈھ لیا اماں عظمٰی باجی کا فائق بھائی کی ساس کے ساتھ تعارف کروا رہی تھیں ۔۔۔ اور ابھی مزید بات چیت سے پہلے ہی میں اماں کے پاس پہنچ گئی اور ان کو بتایا کہ اماں آپ کو ماجد انکل بلا رہے ہیں ۔۔۔۔۔میری بات سُن کر اما ں نے عظمٰی سے معزرت کی اور میرے ساتھ چل پڑی ۔۔راستے میں مجھ سے پوچھا کہ کیا کہہ رہا تھا تیرا انکل؟ تو میں نے ان کو ساری بات بتا دی۔۔۔ میری بات سُن کر اماں بولی۔۔۔ مجال ہے جو یہ شخص خود پر بھی کبھی کوئی بات لے ۔۔۔ اتنے میں ہم لوگ کرنل ماجد کے پاس پہنچ گئے تھے وہ سامنے صوفے پر بیٹھے کسی کے ساتھ گپیں لگا رہے تھے اماں کو دیکھتے ہی تیر کی طرح ان کے پا س آئے اور بولی۔۔۔ کی خیال اے باجی کھانا لگا دوں یا چائے شائے چلے گی ۔۔۔ تو اماں کہنے لگی ۔۔۔ یہ بات میاں صاحب سے پوچھو نا ۔۔۔۔ اماں کی بات سُن کر ماجد انکل ہنس پڑے اور کہنے لگے ۔۔۔ جی میں نے ان سے پوچھا تھا ۔۔۔ اور حسبِ روایت انہوں نے گیند آپ کی کورٹ میں پھینک دی ہے اور ۔۔ انہوں نے آپ سے ملنے کو کہا ہے ۔۔۔ اس پر اماں نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔۔ ویسے کھانے کا ٹائم تو ہو ہی رہا ہے۔۔ چلو ایسا کرو۔۔۔ تم پے ج کھانا لگوا دو۔۔۔۔
میں وہاں سے نکلی اور مین حال کی طرف چل پڑی کہ جہاں ساری برات والی خواتین۔۔ بیٹھی ڈھولکی پر شادی کے گیت گا رہیں تھیں ۔۔۔دیکھا تو وہاں تھوڑی سی خواتین ڈھولکی بجا رہیں تھیں جبکہ ان کے آس پاس ٹھرکی ٹائپ لڑکے کھڑے ان کو تاڑ رہے تھے۔۔۔ جیسے ہی میں حال میں پہنچی ایک بہت ہی گُڈ لُکنگ قسم کا لڑکا اچانک میرے سامنے کھڑا ہو گیا اور بڑے ادب سے سلام کر کے بولا۔۔۔۔ ہما جی میرا نام ۔۔ دوست نواز ہے اور میں آپ کی بھابھی کا کزن بلکہ بھائی ہوں ۔۔۔ پھر اس نے اپنا اتھ آگے کیا اور بولا ہائے ہما۔۔۔ مجھے اس لڑکے کی بات کرنے اور ہاتھ آگے بڑھانے کا یہ انداز بہت برا لگا ۔۔۔۔ اور میں اسے نظر انداز کرتے ہوئے خواتین کے پاس جا بیٹھی۔۔۔ اور ان کے ساتھ مل کر گیت گانےاور تالیاں بجانے لگی۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد ۔۔ ایک خادمہ وہاں آئی اور بولی ۔۔۔ تمام لیڈیز ۔۔ باہر لان میں آ جائیں کہ وہاں کھانا لگ گیا ہے ۔۔۔ کھانے کا نام سنتے ہی خواتین میں بھگڈر سی مچ گئی اور وہ اُٹھ کر تیزی کے ساتھ لان کی طرف جانے لگیں۔۔۔ جبکہ میں وہیں بیٹھی رہی ۔۔۔ اور رش کم ہونے کا انتظار کر نے لگی۔۔۔اور جب خواتین کا رش کچھ کم ہوا تو میں اپنی جگہ سے اُٹھی اور باہر کی طرف جانےلگی ۔۔۔ تو دروازے پر پھر وہی لڑکا مل گیا ۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا۔۔۔۔ اوہو ۔۔۔ میں آپ ہی کو لینے کے لیئے آ رہا تھا۔۔۔ لیکن میں نے اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔ کمرے سے لان تک وہ میرے کان کھاتا رہا لیکن ۔۔۔ میں نے بہت پہلے ہی طے کر رکھا تھا کہ چاہئے کچھ بھی ہو ۔۔۔ میں نے کھبی بھی کسی بھی صورت میں کسی اجنبی بندے کو کوئی لفٹ نہیں دینی۔۔۔
وہ لڑکا باہر لان تک میرے ساتھ آیا اور اس نے مجھ سے بات کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن بے سود ۔۔۔۔ ادھر میں نے اس کے ساتھ بڑا ہی سرد رویہ رکھا ۔۔۔ لیکن وہ ایک عجیب ڈھیٹ ہڈی تھی کہ لان تک میرے ساتھ ساتھ چلتا رہا ۔۔۔ اور جیسے ہی ہم لان میں داخل ہوئے ماجد انکل نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ نواز جی۔۔۔۔ سروس تیز کر واؤ ۔۔۔۔ اور میں ان کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اماں کے پاس چلی گئی ۔۔ جہاں پر اماں دوسری خواتین کے ساتھ بیٹھی کھانا کھا رہی تھی ۔۔۔ مجھے اپنی طرف آتے دیکھ کر انہوں نے مجھے اپنے پاس پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔اور مین وہاں بیٹھ گئی۔۔۔۔ جبکہ وہ کھانے کے ساتھ ساتھ خواتین سے باتیں بھی کر تی جا رہیں تھیں۔۔۔ اماں کی دوسری طرف عظمٰی سرمد بھی بیٹھی ہوئی تھی اور حسبِ معمول اس کی اماں کے ساتھ کسی بات پر بحث ہو رہی تھی ۔۔۔ وہ اماں سےمخاطب ہو کر کہہ رہی تھی ۔۔۔ نیلو جی مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی؟ تو اماں کہنے لگیں ۔۔ جی فرمایئے کونسی بات آپ کی سمجھ شریف میں نہیں آئی ؟؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ جب آپ لوگو ں نے شادی سے ایک رات قبل یہاں سٹے کرنا تھا تو ۔۔۔ پھر آپ لوگوں نے الگ الگ سے مہندی کیوں رکھی ہے ؟ اور کہنے لگی ۔۔۔قسم سے اگر آج دونوں کی اکھٹا مہندی ہوتی تو کتنا مزہ آتا ۔۔۔ پھر اس نے اماں کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ میری بات کو جواب نہیں دیا آپ نے نیلو باجی۔۔۔ تو اماں کہنے لگیں ۔۔۔۔۔ جواب کیا دینا ۔۔۔ پہلی بات تو یہ کہ کارڈ چھپاتے وقت تک ہاورا پروگرام یہ تھا۔۔۔ کہ ہم شادی والے دن صبع صبع گھر سے نکلیں گے اور پھر رات گئے تک۔۔۔۔۔ واپس لاہور پہنچ جائیں گے۔۔۔ لیکن پھر عین وقت پر ماجد نے اصرار کیا کہ اس کے ہاں ایک رات ٹھہرا جائے۔۔۔ کیونکہ اس کے خیال میں ہمارے پروگرام کے مطابق عمل ہوا تو بارتی سمیت سب لو گ تھک کر چُور ہو جائیں ۔۔ اور شادی کو ٹھیک سے انجوائے نہیں کر سکیں گے۔۔ اس لیئے ۔۔۔ چندا ۔۔۔ پبلک کے پُر زور اصرار پر ہم لوگ۔۔۔۔ یہاں ایک رات رُکنے پر مجبور ہوئے ۔۔۔۔ تو عظمٰی کہنے لگیں ۔۔۔۔ تو کیا ہوا ۔۔۔ آپ پھر بھی مہندی کا پروگرام اکھٹے کر سکتے تھے۔۔۔ اس کی بات سُن کر اماں نے مجھے گلاس میں پانی بھرنے کا کہا اور میں نے جلدی سے ان کے گلاس میں پانی بھرا ۔۔۔تو اماں نے گلاس کو اپنے ہونٹوں کےساتھ لگایا اور ۔۔۔۔۔ پانی کا ایک بڑا سا گھونٹ بھر ا۔۔۔ پھر انہوں نےعظمٰی کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔سوری یار ۔۔۔۔ گلے میں روٹی کا نوالہ پھنس گیا تھا۔۔۔۔۔اور پھر ایک لمبی سانس بھر کے بولیں ۔۔جو بات تم نے کہی ہے نا عظمٰی۔۔ یہ بات ہمارے بھی دماغ میں آئی تھی۔۔۔ لیکن تم کو تو اپنے بھائی جان (ابا) کا پتہ ہے ۔۔۔ کہ ایک بار جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔۔۔۔ چنانچہ یہ تجویز سُن کر وہ کہنے لگے۔۔۔ کہ میں اپنے آفس والوں اور سب عزیزو اقارب و مہندی کے کارڈ وغیرہ دے چکا ہوں ۔۔۔ اور دوسری ا ور اصل بات یہ ہے میاں صاحب کا کہنا تھا کہ اس طرح کے مخلوط فنگشن انہیں ہر گز پسند نہ ہیں ۔۔۔ اماں کی بات سُن کر عظمٰی ہنس پڑی اور بولی۔۔۔ رہنے دیں باجی۔۔۔ آپ نے چاہا ہی نہیں ہو گا۔۔۔ ورنہ ۔۔ میاں جی کی کیا مجال ۔۔۔۔ ہے۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ اماں اس بات کا کوئی جواب دیتی ۔۔۔ عظمٰی کی بات پر لیڈیز کا ایک فرمائشی قہقہہ پڑا۔۔۔ اور بات آ ئی گئی ہو گئی۔۔۔

0 comments: