میری پہلی کاوشLast
Lastمیری پہلی کاوش
میں اس کی منی میں لتھڑی پڑی تھی اور کمرے میں ٹشو تک نہیں تھا. امجد کے تولیے سے خود کو صاف کیا اور اسے کہا چلیں بس اب بہت ہو گیا. اس نے کہا بس کیسے ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے اور یہ کہتے ساتھ ہی اس نے میرے ممے اپنے منہ میں ڈال کر چوسنے شروع کر دیے. یہ میرا پسندیدہ ترین پارٹ ہے سیکس کا. اس کے کھردرے ہاتھوں کی سختی، اس کی زبان کی نمی اور اس کا جوش مجھے بے قابو بنا رہے تھے. اچھی طرح دودھ پینے کے بعد وہ میری پھدی کی طرف متوجہ ہوا. اور میری پھدی چاٹنی شروع کر دی میں تو جیسے آسمانوں میں اڑ رہی. امجد کی بے تابیوں نے مجھے یکسر بھلا دیا کہ میں کون ہوں کہاں ہوں. مجھے خوب گرم کر کے اس نے مجھے کتی بنایا اور پیچھے سے اپنا لن جڑ تک میری پھدی میں گھسیڑ دیا. آہ ہہہہہہہہہہہہہ ہر گھسے پر لن نکال لیتا اور پھر جڑ تک ڈالتا. ساتھ ہی اپنے کھردرے ہاتھوں سے میرے ممے مسلتا. مجھے بہت مزہ آ رہا تھا اس کی منی دو بار نکل چکی تھی اب وہ تحمل سے پھدی کی گرمی کا مقابلہ کر رہا تھا. میں نے چدواتے ہوئے اسے کہا کہ تمھاری بیوی تو کل حیران ہو گی کہ اتنے سالوں بعد آیا ہے اور کیسے جم کر چود رہا ہے اس بیچاری کو کیا پتہ کہ ساری جدائی کی گرمی تو میری پھدی میں نکل گئی. وہ ہنس پڑا اور تیز تیز گھسے مارنے لگا. جیسے ہی میری پھدی کے جذبات میں طغیانی آئی اس نے بھی منی چھوڑ دی. میں ایکدم ہوش کی دنیا میں واپس آ کر اچھلی مجھے ابھی بے بی نہیں کرنا تھا اور امجد کا تو بالکل بھی نہیں. لیکن پھر بھی ایک آدھ پچکاری میرے اندر چلی گئی. ہم دونوں اب تھک چکے تھے میں نے کہا اب آرام کر لیں اور پھر سفر کا سوچیں.. وہ اٹھا اور اپنا انڈروئیر پہن کر باہر نکل گیا. میں غسل خانے میں جا کر نہانا شروع ہو گئی. دل مجھے ملامت کر رہا تھا لیکن جسم جیسے سرشار ہو گیا ہو. میں تولیہ لپیٹ کر باہر نکلی تو امجد واپس روم میں آ گیا. آتے ساتھ ہی مجھے باہوں میں اٹھا لیا اور چومنے لگ پڑا. اس کو تو میں ایسے ملی جیسے بچے کو کھلونا. ایسے ہی باہوں میں اٹھائے چومتا ہوا کمرے سے باہر آ گیا. مجھے جب سمجھ لگی تو دیکھا وہ مجھے اسی کمرے میں لے گیا جہاں گورا گوری لگے ہوئے تھے. میں ابھی سوچنے کے قابل ہی ہو رہی تھی کہ امجد نے مجھے ان کے بیڈ پر پٹخ دیا وہ دونوں بھی فل ننگے تھے. میں اٹھ کر بھاگی مگر امجد نے پکڑ لیا اس نے مجھے وہیں ان کے بیڈ پر اوندھا کر کے میری بجانا شروع کر دی. میں چد رہی تھی اور گورے دیکھ رہے تھے. جب امجد فارغ ہوا تو دیکھا گورا بھی گوری کی لے رہا ہے. امجد کے فارغ ہوتے گورا میرے اوپر چڑھ دوڑا اس کے منہ سے شراب کے بھبھوکے اٹھ رہے تھے مجھے متلی آ رہی تھی لیکن وہاں سے بھاگنا بھی ناممکن تھا. امجد گوری کی سواری کر رہا تھا اس نے اپنی ہوس کے لیے مجھے بھی بھینٹ چڑھا دیا. وہ رات میری زندگی کی سب سے بھاری رات تھی. گورے اور امجد نے میری اور اس گوری کی باریاں لیں. صبح تک میں نڈھال ہو چکی تھی. صد شکر کہ طوفان کا خطرہ ٹلا اور میں وہاں ان درندوں کے چنگل سے نکل کر پہنچی. ائیر پورٹ پر ماں کے گلے لگ کر اتنا روئی کہ اپنی بدنصیبی کو ان آنسوؤں میں چھپا لیا.
یہ میری پہلی کاوش تھی میں رائٹر بھی نہیں پلیز حوصلہ افزائی اور رہنمائی کیجیے گا. شکریہ
Labels: میری پہلی کاوشLast
میری پہلی کاوش2
میری پہلی کاوش2
جہاز لینڈ ہوا تو تمام مسافروں کو اترنے کا کہہ دیا گیا. عجیب پریشانی بن گئی خیر کیا کر سکتے تھے جہاز خالی ہو گیا. ائیر پورٹ کی بلڈنگ میں جا کر پتہ چلا کہ ہم ویتنام کے ائیر پورٹ پر کھڑے ہیں. سمندری طوفان اور شدید طوفانی بارشوں کی وجہ سے موسم ہوائی سفر کے لیے موزوں نہیں. جب تک بنکاک سے سب اوکے کی رپورٹ نہیں آ جاتی تب تک سفر ملتوی رہے گا. میں تو یہ سن کر رونے بیٹھ گئی. جانے اب کیا ہو گا کب جا پائیں گے. امجد صاحب نے مجھے کچھ ڈھارس بندھائی اور کہا کہ پریشانی میں گھبرانا زیادہ تکلیف دہ ہے اس لیے صبر سے کام لینا چاہیے. وہ خود جہاز کے عملے سے بات چیت میں لگ گئے. کافی دیر کے بعد بتایا گیا کہ آج رات ہمارا قیام یہیں ہو گا اور ائیر لائن کی طرف سے ہوٹل ملے گا کل موسم ٹھیک ہونے کی صورت میں روانگی ہو جائے گی. موسمی صورتحال کے پیش نظر کہیں کال بھی نہیں جا سکتی تھی. آخر ائیر پورٹ کی بلڈنگ میں ہی قائم ایک ہوٹل میں لے جایا گیا. مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی. امجد صاحب نے مجھے ایک کمرے میں بٹھایا اور خود چلے گئے. میں سمجھی کہ اس کمرے میں میں نے ہی رہنا ہے میں پریشانی میں وہیں بیٹھ گئی دل میں طرح طرح کے خیالات آ رہے تھے. اسی اثنا میں مجھے آوازیں آئیں میں تجسس سے مجبور دروازہ کھول کر باہر نکل آئی لمبی سیدھی گلی میں ہلکی سی روشنی تھی. دو کمرے چھوڑ کر تیسرے کمرے کا دروازہ کھلا تھا وہ آوازیں وہیں سے آ رہی تھیں. میں دیہاتی عورت اس بات سے بے نیاز کہ یہ اخلاقی طور پر ٹھیک ہے یا نہیں اندر جھانکنے چل پڑی وہاں دروازے پر مجھے لگا یہ آوازیں ویسی ہیں جیسی انگریزی فلموں میں ہوتی ہیں. شاید کسی نے فلم لگائی ہو ایک دل کیا کہ دفع کر جو بھی ہے واپس کمرے میں جاؤ لیکن قدم آگے بڑھ رہے تھے. میری جیسے ہی اندر نظر پڑی ایک انگریز جوڑا چدائی میں مشغول تھا. مرد نے عورت کی ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھی تھیں اور خود بہت جوش بھری رفتار سے دھکے مار رہا تھا. عورت کے ممے ہر دھکے پر ٹینس بال کی طرح اچھلتے اور اس کے منہ سے شہوت بھری آوازیں بلند تر ہوتی جاتیں. میں بیوقوفوں کی طرح انہیں دیکھی جا رہی اور انہیں اس بات کا کوئی ہوش نہیں تھا کہ ان کا دروازہ کھلا ہے اور ان کی آوازیں نہ صرف باہر تک جا رہی ہیں بلکہ کوئی انہیں دیکھ رہا ہے. تھوڑی دیر بعد میں ہوش میں آئی اور وہاں سے واپس پلٹ کر بھاگی میں جیسے ہی باہر نکلی میں سامنے سے آنے والے بندے کے ساتھ ٹکرا کر گر پڑی. دیکھا تو امجد صاحب میرے تو ہوش اڑ گئے وہ کبھی مجھے دیکھیں کبھی اندر سے آتی آوازیں سنیں اور پھر مجھے گھورنے لگ پڑیں. میں بڑی مشکل سے اٹھ کر روم کی طرف چل پڑی. مڑ کر دیکھا تو وہ بھی ساتھ ہی اندر. میں ابھی پوچھنے ہی والی تھی تو بولے کہ مسافر زیادہ اور کمرے کم ہیں سب لوگوں کو روم شئیر کروائے جا رہے ہیں. ایک اجنبی مرد کے ساتھ کمرے میں قیام کا خیال ہی میرے لیے سوہانِ روح تھا میں نے ابھی اعتراض کے لیے من من کرنی شروع ہی کی تو امجد صاحب بولے دیکھیں بی بی مجبوری ہے میں نہیں ہوں گا تو کوئی اور آ جائے گا. آگے جو آپ کی مرضی. موسم کے تیور سیدھے ہونے کا مجھے اندازہ نہیں تھا عجیب کشمکش میں پھنس گئی راستے میں کوئی اور دیسی فیملی بھی نظر نہیں آئی تھی جس کا سہارا لیا جا سکے. خود کو حالات کے دھارے چھوڑ دیا. چپ چاپ جا کر بیڈ پر بیٹھ گئی. امجد صاحب کمرے کے بیچوں بیچ کھڑے کچھ سوچ رہے تھے اچانک دروازہ کھول کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا. دروازہ کھولنے سے آوازیں مزید صاف سنائی دینے لگیں بلکہ اب تو پہلے سے بھی اونچی. امجد صاحب واپس آئے تو ایک عجیب سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر. کمرے کی الماری کھول کر تولیہ نکالا اور بولے میں ذرا نہا لوں آپ بھی چینج کر لیں. میں کہاں سے چینج کروں میرے پاس تو سامان تھا ہی نہیں میرے شوہر نے ہینڈ کیری بنایا ہی نہیں کہ سفر آسانی سے ہو جائے. میں اٹھ کر دروازہ بند کرنے گئی تو میرا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا. دروازے کے بالکل ساتھ باتھ روم کا دروازہ شیشے کا تھا اندر امجد کھڑا نہا رہا اور اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے ٹٹوں اور لن کو مسلنا شروع کیا ہوا. اپنے خاوند کے علاوہ انگریزی فلموں والوں کے ہی دیکھے تھے میں وہیں گڑ گئی اور اس نے مجھے باہر کھڑے دیکھ لیا. مجھے ہوش تب آئی جب وہ بالکل ننگا میرے سر پر آ کھڑا ہوا اور ایکدم مجھے پکڑ لیا. میں نے شور مچانے کی دھمکی دی رونا چلانے کی کوشش کی وہ حرامی ٹس سے مس نہ ہو. ایکدم مجھے بیڈ پر پھینک کر میرے اوپر سوار ہو گیا میں اس کی منتیں کر رہی واسطے دے رہی لیکن وہ سن ہی نہیں رہا تھا. اسی کشمکش میں محسوس کیا کہ میری شلوار گیلی ہو گئی ہاتھ لگا کر دیکھا تو اس کی منی نکل رہی. میں نے دھکا دے کر پیچھے ہٹانے کی کوشش کی تو کہتا ہے پانچ سال کی گرمی بدن میں لے کر جا رہا ہوں کیسے کنٹرول کرتا. یہاں جو بھی ہو گا تمھارے اور میرے بیچ ہو گا مجھے کرنے دو ورنہ میں زبردستی کروں گا. میں نے ہار مان لی اسے کہا مجھے ایک بار کپڑے دھو لینے دو میرے پاس اور کوئی پہننے کا کپڑا نہیں. پھر کر لینا. میں اٹھی اور اپنے کپڑے اتار کر سائیڈ پر رکھ دیے شلوار اس کی منی سے خراب ہو چکی تھی میں جیسے ہی شلوار اتار کر کھڑی ہوئی اس نے پیچھے سے دبوچ لیا اس کا کالا ناگ ٹن ٹن میری بنڈ کے ساتھ بج رہا تھا. اس کے ساتھ لگنے کی دیر تھی کہ میری پھدی سے بھی اجازت کے سگنل ملنے شروع ہو گئے. میں نے اسے کہا میرے ساتھ وعدہ کرو کہ میری عزت رکھو گے. اس نے کہا فکر نہ کرو ہمیں حالات نے اس موڑ پر کھڑا کیا ہے ورنہ ہمارا یہ مقصد نہ تھا. اس نے مجھے نیچے لٹایا اور ایک ہی جھٹکے میں اندر ڈال دیا. چار سال سے اپنے خاوند سے لے رہی تھی لیکن حرام میں کچھ الگ مزہ ہے. اس کے لن کے اندر جاتے ہی پورے بدن میں بجلی دوڑ گئی. امجد نے کہا "مزہ آیا" میں نے کہا "ہممممممممم بہت" تو کہنے لگا پھر اسی گوری کی طرح آوازیں نکالو جس کا تماشا دیکھ کر آئی ہو. اور میرے منہ سے بے ساختہ وہی آوازیں نکلنا شروع ہو گئی. جانے کب کا پیاسا لن تھا تھوڑی دیر بعد ہی فارغ ہونے والا ہو گیا میں نے اس کی منتیں کیں کہ اندر نہ فارغ ہونا اور اس نے جھٹکے سے لن باہر نکال دیا اس کی منی کی پھوار سیدھی میری چھاتیوں اور منہ پر آ پڑی. ظالم کی گرم منی میرے بدن کو ٹرپا رہی تھی. جتنا جلدی چھوٹتا تھا اتنی جلدی دوبارہ ہڑا بھی لیتا تھا.
جاری ہے
Labels: میری پہلی کاوش2
میری پہلی کاوش 1
میری پہلی کاوش 1
دوستو نہ جانے کب سے اردو فنڈا کی کہانیاں پڑھ رہی ہوں. بہت دل کرتا ہے کہ میں بھی اپنی زندگی کی کچھ کہانیاں لکھوں لیکن میری تعلیم واجبی سی ہے مجھے لکھنے پڑھنے کا کوئی خاص تجربہ نہیں لیکن آج اپنی ایک چھوٹی سی کاوش کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوں. آپ کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی اشد ضرورت ہے.
میں اپنے شوہر کے ساتھ آسٹریلیا میں مقیم ہوں. ان کی ایک گروسری کی دکان ہے. اچھی آمدنی ہو جاتی ہے. شادی کو چار سال ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک بچہ نہیں ہے. ابھی ہم ذہنی طور پر بچوں کے لیے تیار نہیں. میں اپنی شادی کے سات ماہ بعد ان کے پاس آئی اور اب لگ بھگ ساڑھے تین سال ہونے جا رہے تھے کہ میری وطن واپسی نہیں ہو پائی تھی. میری امی ہر فون پر اصرار کرتی کہ ایک بار آ کر منہ دکھا جاؤ. مجھے احساس تھا کہ میرے خاوند کے لیے آسان نہیں ہو گا کہ اپنی دکان بند کریں اور چھٹیاں منانے چل دیں. ان پر بہت ذمہ داریاں تھیں. آخر بہت سوچ بچار کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ میں دو مہینوں کے لیے ہو آؤں. اب مسئلہ یہ تھا کہ میں نے کبھی اکیلے سفر نہیں کیا تھا. کسی جاننے والی کی تلاش شروع کی آخر میرے شوہر کے ایک جاننے والے کا پتہ چلا کہ وہ جا رہا ہے چنانچہ اس کے ساتھ میری بھی ٹکٹ بک کروا دی گئی. فلائیٹ دن دس بجے کی تھی. میں جہاں اپنے والدین سے ملنے کو خوش تھی وہیں اپنے جانو شوہر سے جدائی مجھے تڑپا رہی تھی. روانگی سے تین دن پہلے ہی ماہواری ختم ہوئی تھی پچھلے ایک ہفتے سے ناغہ ہی تھا. وہ میرے دودھ سے کھیلتے اور میں ان کے لن کے ساتھ دل بہلاتی. آخری رات تھی اور ہم دو مہینوں کی جدائی ذہن میں رکھے ایک دوسرے میں گم تھے. ہر گھَسے میں وہ پوچھتے "روبی مجھے مس کرو گی ناں" اور میں جواب میں ان کی پشت پر اپنے ناخن گاڑے سارا زور لگا کر اپنی طرف کھینچتی اور روتی یہی کہتی جاتی "جانو آپ کے بنا تو مر جاؤں گی" ان کا طاقتور لن میری پھدی کی پیاس بجھاتا رہا اور ہم ایک دوسرے کو تسلی دیتے رہے. رات کے اچھے سے سیکس کے بعد صبح ناشتہ پانی کر کے تیار ہو رہی تھی کہ انہوں نے کہا "جان ایک جاتی بار کا پھیرا نہ ہو جائے" میں نے انہیں نہ کبھی نہیں کی تھی. میں نے کہا آ جائیں اپنی راجدھانی میں. انہوں نے مجھے اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور بیڈروم میں لے آئے. میرے سارے کپڑے نکال کر لٹا دیا. میں نے بھی ان کے کپڑے نکال دیے. انہوں نے بوسوں کی بوچھاڑ کر دی. میرے سر سے لے کر پاؤں تک ہر جگہ کو چوما چاٹا اور ساتھ ساتھ میرے مموں کو دباتے رہے انہیں پتہ تھا کہ وہ جتنی بے دردی سے میرے ممے دبائیں گے اتنا ہی مجھے لطف آئے گا. اس کے بعد انہوں نے میری پھدی پر اپنا منہ رکھا اور اپنی زبان اندر ڈال دی میری سسکاری نکل گئی. میرے خاوند کو پھدی چاٹنا پسند نہیں لیکن جب کبھی وہ بہت پیار کرنا چاہ رہے ہوں تو لازمی اس کی چٹائی کرتے ہیں. میں بے قرار ہو چکی تھی اور یہی مطالبہ کیے جا رہی تھی "جانو بس کریں اب ڈال دیں" "اور وہ مجھے تڑپا رہے تھے آخر میری آہ و زاری کام آئی اور انہوں نے اپنا تنتناتا لن میری آنکھوں کے آگے لہرا کے پوچھا" کیا ڈالوں " میں نے اپنے جانو لن پر ایک زوردار کس کیا اور کہا" جانو یہ لن میری پھدی میں ڈالیں " اور پھر ایک ہی جھٹکے میں ان کا لن میری پھدی کی گہرائی میں سماتا چلا گیا. لن کا سکون ایک پیاسی پھدی ہی جانتی ہے. کمرے میں سامان سمیٹنے والا پڑا تھا، فلائیٹ میں دو گھنٹے تھے اور ہم سب چیزوں کو بھلائے مزے کی دنیا میں کھوئے ہوئے تھے. ایک اچھے سے سیکس سیشن کے بعد میرے جانو کے لن سے امرت دھارا نکل کر میری پھدی کو سیراب کر گیا. اور ایک سکون سا پورے وجودمیں سرایت کر گیا. نہا دھو کر تیار ہو کر ائیر پورٹ کے لیے نکلے تو وہاں امجد صاحب ہمارا انتظار کر رہے تھے. یہ وہی صاحب تھے جن کے ساتھ میں سفر کرنے والی تھی. امیگریشن وغیرہ سے فارغ ہو کر میرے پیارے شوہر نے مجھے الوداع کہا اور ہم اندر لاؤنج کی طرف چلے گئے. جہاز جانے میں ابھی کچھ وقت تھا. میں نے امجد صاحب کا جائزہ لیا تو جناب چالیس کے پیٹے میں تھے. نہ زیادہ سمارٹ نہ زیادہ موٹے. سر پر بالوں کا تکلف برائے نام ہی تھا. خیر مجھے کیا اور وہ انتہائی کم گو سے تھے. جہاز نے پہلے بنکاک جانا تھا وہاں کچھ گھنٹے کے انتظار کے بعد اپنی آخری منزل کے لیے روانہ ہونا تھا. میں قدرے باتونی ہوں چنانچہ عادت سے مجبور امجد صاحب کا انٹرویو شروع کر دیا. وہ یہاں ٹیکسی چلاتے تھے اور بیوی بچے پاکستان ہی تھے. پانچ سال کے طویل وقفے کے بعد گھر واپس جا رہے تھے. ابھی ہم کھانا کھا کر بیٹھے ہی تھے کہ جہاز نے ہچکولے لینے شروع کر دیے. مسافروں کی چیخیں نکل گئیں میری آواز شاید سب سے اونچی تھی. پائلٹ نے بتایا کہ موسم کی خرابی کی وجہ سے ہم ہنگامی لینڈنگ کرنے جا رہے ہیں. میں نے خوف کے مارے امجد صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا. انتہائی کھردرا سا ہاتھ تھا. اور تھوڑی دیر بعد جہاز لینڈ کر گیا.
میں اپنے شوہر کے ساتھ آسٹریلیا میں مقیم ہوں. ان کی ایک گروسری کی دکان ہے. اچھی آمدنی ہو جاتی ہے. شادی کو چار سال ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک بچہ نہیں ہے. ابھی ہم ذہنی طور پر بچوں کے لیے تیار نہیں. میں اپنی شادی کے سات ماہ بعد ان کے پاس آئی اور اب لگ بھگ ساڑھے تین سال ہونے جا رہے تھے کہ میری وطن واپسی نہیں ہو پائی تھی. میری امی ہر فون پر اصرار کرتی کہ ایک بار آ کر منہ دکھا جاؤ. مجھے احساس تھا کہ میرے خاوند کے لیے آسان نہیں ہو گا کہ اپنی دکان بند کریں اور چھٹیاں منانے چل دیں. ان پر بہت ذمہ داریاں تھیں. آخر بہت سوچ بچار کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ میں دو مہینوں کے لیے ہو آؤں. اب مسئلہ یہ تھا کہ میں نے کبھی اکیلے سفر نہیں کیا تھا. کسی جاننے والی کی تلاش شروع کی آخر میرے شوہر کے ایک جاننے والے کا پتہ چلا کہ وہ جا رہا ہے چنانچہ اس کے ساتھ میری بھی ٹکٹ بک کروا دی گئی. فلائیٹ دن دس بجے کی تھی. میں جہاں اپنے والدین سے ملنے کو خوش تھی وہیں اپنے جانو شوہر سے جدائی مجھے تڑپا رہی تھی. روانگی سے تین دن پہلے ہی ماہواری ختم ہوئی تھی پچھلے ایک ہفتے سے ناغہ ہی تھا. وہ میرے دودھ سے کھیلتے اور میں ان کے لن کے ساتھ دل بہلاتی. آخری رات تھی اور ہم دو مہینوں کی جدائی ذہن میں رکھے ایک دوسرے میں گم تھے. ہر گھَسے میں وہ پوچھتے "روبی مجھے مس کرو گی ناں" اور میں جواب میں ان کی پشت پر اپنے ناخن گاڑے سارا زور لگا کر اپنی طرف کھینچتی اور روتی یہی کہتی جاتی "جانو آپ کے بنا تو مر جاؤں گی" ان کا طاقتور لن میری پھدی کی پیاس بجھاتا رہا اور ہم ایک دوسرے کو تسلی دیتے رہے. رات کے اچھے سے سیکس کے بعد صبح ناشتہ پانی کر کے تیار ہو رہی تھی کہ انہوں نے کہا "جان ایک جاتی بار کا پھیرا نہ ہو جائے" میں نے انہیں نہ کبھی نہیں کی تھی. میں نے کہا آ جائیں اپنی راجدھانی میں. انہوں نے مجھے اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور بیڈروم میں لے آئے. میرے سارے کپڑے نکال کر لٹا دیا. میں نے بھی ان کے کپڑے نکال دیے. انہوں نے بوسوں کی بوچھاڑ کر دی. میرے سر سے لے کر پاؤں تک ہر جگہ کو چوما چاٹا اور ساتھ ساتھ میرے مموں کو دباتے رہے انہیں پتہ تھا کہ وہ جتنی بے دردی سے میرے ممے دبائیں گے اتنا ہی مجھے لطف آئے گا. اس کے بعد انہوں نے میری پھدی پر اپنا منہ رکھا اور اپنی زبان اندر ڈال دی میری سسکاری نکل گئی. میرے خاوند کو پھدی چاٹنا پسند نہیں لیکن جب کبھی وہ بہت پیار کرنا چاہ رہے ہوں تو لازمی اس کی چٹائی کرتے ہیں. میں بے قرار ہو چکی تھی اور یہی مطالبہ کیے جا رہی تھی "جانو بس کریں اب ڈال دیں" "اور وہ مجھے تڑپا رہے تھے آخر میری آہ و زاری کام آئی اور انہوں نے اپنا تنتناتا لن میری آنکھوں کے آگے لہرا کے پوچھا" کیا ڈالوں " میں نے اپنے جانو لن پر ایک زوردار کس کیا اور کہا" جانو یہ لن میری پھدی میں ڈالیں " اور پھر ایک ہی جھٹکے میں ان کا لن میری پھدی کی گہرائی میں سماتا چلا گیا. لن کا سکون ایک پیاسی پھدی ہی جانتی ہے. کمرے میں سامان سمیٹنے والا پڑا تھا، فلائیٹ میں دو گھنٹے تھے اور ہم سب چیزوں کو بھلائے مزے کی دنیا میں کھوئے ہوئے تھے. ایک اچھے سے سیکس سیشن کے بعد میرے جانو کے لن سے امرت دھارا نکل کر میری پھدی کو سیراب کر گیا. اور ایک سکون سا پورے وجودمیں سرایت کر گیا. نہا دھو کر تیار ہو کر ائیر پورٹ کے لیے نکلے تو وہاں امجد صاحب ہمارا انتظار کر رہے تھے. یہ وہی صاحب تھے جن کے ساتھ میں سفر کرنے والی تھی. امیگریشن وغیرہ سے فارغ ہو کر میرے پیارے شوہر نے مجھے الوداع کہا اور ہم اندر لاؤنج کی طرف چلے گئے. جہاز جانے میں ابھی کچھ وقت تھا. میں نے امجد صاحب کا جائزہ لیا تو جناب چالیس کے پیٹے میں تھے. نہ زیادہ سمارٹ نہ زیادہ موٹے. سر پر بالوں کا تکلف برائے نام ہی تھا. خیر مجھے کیا اور وہ انتہائی کم گو سے تھے. جہاز نے پہلے بنکاک جانا تھا وہاں کچھ گھنٹے کے انتظار کے بعد اپنی آخری منزل کے لیے روانہ ہونا تھا. میں قدرے باتونی ہوں چنانچہ عادت سے مجبور امجد صاحب کا انٹرویو شروع کر دیا. وہ یہاں ٹیکسی چلاتے تھے اور بیوی بچے پاکستان ہی تھے. پانچ سال کے طویل وقفے کے بعد گھر واپس جا رہے تھے. ابھی ہم کھانا کھا کر بیٹھے ہی تھے کہ جہاز نے ہچکولے لینے شروع کر دیے. مسافروں کی چیخیں نکل گئیں میری آواز شاید سب سے اونچی تھی. پائلٹ نے بتایا کہ موسم کی خرابی کی وجہ سے ہم ہنگامی لینڈنگ کرنے جا رہے ہیں. میں نے خوف کے مارے امجد صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا. انتہائی کھردرا سا ہاتھ تھا. اور تھوڑی دیر بعد جہاز لینڈ کر گیا.
جاری ہے
Labels: میری پہلی کاوش 1
عاصمہ جی Part 2
عاصمہ جی
Part 2
ان کو دیکھ کر میں بھی اُٹھ کر عین اُن کے سامنے کھڑا ہو گیا اور ہم کچھ دیر ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے رہے کچھ دیر بعد وہ ہلکی سی آواز میں بولی ۔۔۔۔۔ ہاں تو شاہ تم کیا کہہ رہے تھے ۔۔؟؟ تو میں نے جواب دیا کہ میں کہ رہا تھا کہ آپ کے وہاں مساج کر دوں ؟؟ اور ساتھ ہی میں جی کڑا کر کے اپنا ایک ہاتھ ان کی بڑی سی گانڈ پر لے گیا اور شلوار کے اوپر سے ہی اس پر ہلکہ سا ہاتھ پھیر دیا پھر میرا ہاتھ تھوڑا اور آکے بڑھا اور میرا ہاتھ ان کی قمیص کے اندر چلا گیا وہ کچھ نہ بولی بس چپ چاپ میرے طرف دیکھتی رہی پھر میرا ھاتھ آہستہ آہستہ رینگتا ہوا ان کی قمیص کے اندر چلا کیا اور پھر میں نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ عاصمہ جی کی شلوار میں " آزار بند " نہیں بلکہ الاسٹک ہے تب میں ان کے اور قریب گیا اور بڑے ہی پیار سے ان کی شلوار کھیچ کر ان کے گھٹنوں تک کر دی اور اب میرا ہاتھ ان کی ننگی گانڈ پر تھا اور میں وہاں بڑے ہی پیار سے مساج کر رہا تھا۔۔ پھر میں تھوڑا گھوم کر ان کے پیچھے کی طرف چلا گیا اور ان کو کمر سے پکڑ کر تھوڑا جھکا دیا اور اس سُرخ جگہ جہاں چیونٹے نے کاٹا تھا وہاں ہر اپنے ہونٹ رکھ دیۓ اور بولا ۔۔۔۔ عاصمہ جی ۔۔۔ یہاں چیونٹے نے کاٹا تھا نہ ۔۔
Part 2
ان کو دیکھ کر میں بھی اُٹھ کر عین اُن کے سامنے کھڑا ہو گیا اور ہم کچھ دیر ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے رہے کچھ دیر بعد وہ ہلکی سی آواز میں بولی ۔۔۔۔۔ ہاں تو شاہ تم کیا کہہ رہے تھے ۔۔؟؟ تو میں نے جواب دیا کہ میں کہ رہا تھا کہ آپ کے وہاں مساج کر دوں ؟؟ اور ساتھ ہی میں جی کڑا کر کے اپنا ایک ہاتھ ان کی بڑی سی گانڈ پر لے گیا اور شلوار کے اوپر سے ہی اس پر ہلکہ سا ہاتھ پھیر دیا پھر میرا ہاتھ تھوڑا اور آکے بڑھا اور میرا ہاتھ ان کی قمیص کے اندر چلا گیا وہ کچھ نہ بولی بس چپ چاپ میرے طرف دیکھتی رہی پھر میرا ھاتھ آہستہ آہستہ رینگتا ہوا ان کی قمیص کے اندر چلا کیا اور پھر میں نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ عاصمہ جی کی شلوار میں " آزار بند " نہیں بلکہ الاسٹک ہے تب میں ان کے اور قریب گیا اور بڑے ہی پیار سے ان کی شلوار کھیچ کر ان کے گھٹنوں تک کر دی اور اب میرا ہاتھ ان کی ننگی گانڈ پر تھا اور میں وہاں بڑے ہی پیار سے مساج کر رہا تھا۔۔ پھر میں تھوڑا گھوم کر ان کے پیچھے کی طرف چلا گیا اور ان کو کمر سے پکڑ کر تھوڑا جھکا دیا اور اس سُرخ جگہ جہاں چیونٹے نے کاٹا تھا وہاں ہر اپنے ہونٹ رکھ دیۓ اور بولا ۔۔۔۔ عاصمہ جی ۔۔۔ یہاں چیونٹے نے کاٹا تھا نہ ۔۔
اور ان کی وہ جگہ چُوم لی اور پھر بڑے ہی رومانٹک لہجے میں ان سے پوچھا۔۔۔۔۔ عاصمہ جی ۔۔۔ یہاں اب بھی جلن ہو رہی ھے۔؟؟؟ تو وہ سرگوشی میں بولی بے شک چیونٹے نے یہاں ہی کاٹا تھا پر جلن یہاں نہیں۔۔۔۔ بلکہ تھوڑا آگے ہو رہی ہے یہ سن کر میں اپنے ہونٹ تھوڑا اور آگے لے گیا اور پھر وہا ں ہونٹ رکھ کر بولا ۔۔ یہاں جلن ہورہی ھے تو وہ بولی نہیں تھوڑا اور آگے اب میں سمجھ گیا اور میں اپنے ہونٹ ان کی چوت کے تھوڑا اوپر رکھ دیۓ اور پوچھا ۔۔۔ عاصمی جی یہاں ۔۔؟؟؟؟ تو وہ بولی نہیں تھوڑا اور نیچے اور اب میں نے ان کو تھوڑا اور جھکایا اور انہوں نے خود ہی اپنی ٹانگیں کھول کر دونوں ھاتھ صوفے پر رکھ دیۓ اور میں نے اپنی زبان نکال کر ان کی چوت پر رکھ دی اور بولا یہاں جلن ہو رہی ھے تو وہ بولی ۔۔۔۔ ہاں شاہ ۔۔۔۔ یہاں جلن ہو رہی ھے یہ سن کر میں نے اپنی زبان ان کی پھدی میں ڈال دی اور اسے چاٹنے لگا
۔۔۔۔اور عاصمہ جی نے ایک تیز سسکی لی۔۔ آہ ۔۔ ہ۔۔ہ ۔۔۔ام م م ۔۔۔۔ ان کی چوت کافی گرم اور گیلی تھی چنانچہ میں نے زبان ان کی گیلی چوت میں داخل کی اور اسے چاٹنے لگا ۔۔۔ ان کی چوت کا گرم پانی مجھے اپنی زبان پر بڑا اچھا لگ رہا تھا اور چوت کی دیواریں اندر سے بڑی چکنی اور گرم تھیں اور میں بڑے مزے سے اپنی زبان ان کی چوت میں ان آؤٹ کر رہا تھا کافی دیر بعد اچانک انہوں نے پیچھے کی طرف میرے منہ کر دبانی شروع کر دی اور چوت کو میرے منہ پر رگڑنے لگی ۔۔۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد ان کے جسم نے جھٹکے کھاۓ اور ان کی چوت نے اپنا سارا گرم گرم پانی میرے منہ پر چھوڑ دیا ۔۔۔ عاصمہ جی کی پھدی کا پہلا پانی میرے منہ میں آ گیا تھا -
کچھ دیر تک تو عاصمہ جی یوں ہی اپنی پھدی میرے منہ کے ساتھ رگڑتی رہی پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ صوفے سے ہٹا لیۓ اور سیدھی کھڑی ہو گئ اسکے ساتھ ہی وہ میری طرف مُڑی اور مجھے بازؤں سے پکڑ کر کھڑا کر دیا اور پھر انہوں نے ایک عجیب کام کیا وہ یہ کہ انہوں میرے منہ پر لگی ۔۔۔ منی کو اپنی زبان سے چاٹنا شروع کر دیا ان کی زبان کسی وائپر کی طرح میرے منہ پر چلتی رہی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جو تھوڑی بہت منی میرے منہ پر لگی رہ گئ تھی ان کی زبان نے وہ سب صاف کر دی اور پھر انہوں نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی اور اب میں ان کی نمکین زبان چوسنے لگا ۔ زبان چوسنے کے ساتھ ساتھ میرا ایک ہاتھ ان کے موٹے ممے پر بھی چلا گیا اور میں بڑے پیار سے ان کو دبانے لگا انہوں نے بھی پینٹ کے اوپر سے ہی میرا لن پکڑاور اسے دبانے لگی
پھر انہوں نے اپنا منہ میرے منہ سے ہٹایا اور بولی شاہ اپنے کپڑے اُتارو میں تم کر ننگا دیکھنا چاہتی ہوں اس کے ساتھ ہی انہون نے اپنی قمیض بھی اتار دی شلوار تو پہلے سے ہی اتری ہوئ تھی اب ان کے جسم پر صرف برا ہی رہ گئ تھی اس کے بعد انہوں نے وہ بھی اتار دی اب وہ میرے سامنے بلکل ننگی ہو گئ تھی میں ان کو ننگا دیکھنے میں اتنا مگن تھا کہ میں اپنے کپڑے ا تارنا بھول ہی گیا وہ تو عاصمہ جی اگر یاد نا دلاتی تو میں ابھی بھی ویسے کا ویسا ہی کھڑا رہتا جونہی عاصمہ جی نے اپنی برا اُتار کر میری طرف دیکھا تھوڑا حیران ہو کر بولی ۔۔۔۔ ہا ۔۔ شاہ تم ابھی ننگے نہیں ہوۓ ؟؟؟؟؟؟ ان کی یہ بات سن کر میں نے بجلی کی سی تیزی سے اپنے سارے کپڑے اتار دیۓ اور ننگا ہوکر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا-
پھر انہوں نے اپنا منہ میرے منہ سے ہٹایا اور بولی شاہ اپنے کپڑے اُتارو میں تم کر ننگا دیکھنا چاہتی ہوں اس کے ساتھ ہی انہون نے اپنی قمیض بھی اتار دی شلوار تو پہلے سے ہی اتری ہوئ تھی اب ان کے جسم پر صرف برا ہی رہ گئ تھی اس کے بعد انہوں نے وہ بھی اتار دی اب وہ میرے سامنے بلکل ننگی ہو گئ تھی میں ان کو ننگا دیکھنے میں اتنا مگن تھا کہ میں اپنے کپڑے ا تارنا بھول ہی گیا وہ تو عاصمہ جی اگر یاد نا دلاتی تو میں ابھی بھی ویسے کا ویسا ہی کھڑا رہتا جونہی عاصمہ جی نے اپنی برا اُتار کر میری طرف دیکھا تھوڑا حیران ہو کر بولی ۔۔۔۔ ہا ۔۔ شاہ تم ابھی ننگے نہیں ہوۓ ؟؟؟؟؟؟ ان کی یہ بات سن کر میں نے بجلی کی سی تیزی سے اپنے سارے کپڑے اتار دیۓ اور ننگا ہوکر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا-
ان کی نظریں مسلسل میرے لن پر یہ لگی ہوئ تھی جونہی میں پورا ننگا ہو کر ان کی طرف بڑھا تو وہ بڑی ستائیشی نظروں سے میرے لن کو دیکھ رہی تھی فوراً آگے بڑھی اور میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بولی شاہ تمہارا لن بڑا زبردست ہے لگتا تم نے آرڈر پر بنوایا ھے اور ھنس پڑی ۔۔۔۔۔ پھر وہ نیچھے صوفے پر بیٹھ گیئ اور لن پر کس کر کے بولی سچ میں تمھارا لن بڑے کمال کا ھے اور پھر ٹوپے پر کس دینے کے لیۓ جیسے ہی جھکی میرے لن سے مزی کا ایک موٹا سا قطرہ نکلا جسے انہوں نے نیچھے گرنے سے پہلے ہی اپنے منہ میں لے لیا اور ۔۔۔۔۔ بولی ۔۔۔ تمہاری مزی بڑی نمکین اور مزے کی ھے ۔۔۔ مجھے اور بھی دو تو میں نے جواب دیا آپ مزی کی بات کرتی ہو مین آپ کو منی کا پورا گلاس پلاؤں گا آپ بس میرا لن چوسو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سن کر اُس نے میرا لن اپنے منہ میں ڈال لیا اور مست ہو کر چوسنے لگی – وہ میرا لن چوس رہی تھی اور اچانک میری نطر عاصمہ جی کی موٹی گانڈ پر پڑ گئ تو میں نے کہا عاصمہ جی !!! مجھے سرسُوں کا تیل تو لا دیں تو انہوں نے لن سے منہ سے ہٹا کر مجھ سے پوچھا ۔۔۔۔ تیل ۔۔۔ اُس کا کیا کرو گے۔۔؟؟ تو میں نے کہا کہ مجھے آپ کی گانڈ مارنے کے تیل کی ضرورت ہو گی ۔۔ تو وہ بڑے لاڈ سے بولی ۔۔۔ شاہ ۔۔۔ تم نے تو میری گانڈ کا ہہت اچھی طرح سے دیکھا ہے اس کے لیا تیل کی کوئ ضرورت نہیں پڑے گی بس تھوڑا سا تُھوک لگا دینا کام چل جاۓ گا۔۔۔ تاب میں نے اُن سے کہا تو آپ گھوڑی بن جائیں میں آپ کی گانڈ مارنا چاہتا ہوں تو وہ بولی ۔۔۔۔ یار ۔۔۔ پہلے تھوڑا سا لن تو چوسنے دو پھر جو مرضی ھے کر لینا اور دوبارہ لن پر سر جھکا دیا اور لن اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگی۔۔۔ پھر کچھ دیر تک وہ میرے لن کو چوستی رہی پھر اُٹھی اور صوفے پر دونوں ھاتھ ٹکا دیۓ اور گانڈ میری طرف کر کے بولی تمھارا لن میں نے چوپا لگا لگا کر گیلا کر دیا ھے اب تم میری گانڈ پر تھوک لگا کر اسے اچھی طرح چکنا کر لو اور پھر اپنا لن ڈال کار ہلکے ہلکے دھکے لگانا جب تمھارا لن میری گانڈ میں پوری طرح ایڈجسٹ ہوجاۓ تو بے شک زور زور سے دھکے مار لینا-
آب میں اپنا منہ ان کی گانڈ کے بلکل قریب لے گیا اور اک بڑا سا تھوک کا گولا ان کی گانڈ کی موری پر پھینکا وہ بولی ہاں ٹھیک ہے اب یہ تھوک میرے موری کے اندر اور باہر اچھی طرح مل دو اور میری موری پر تھوڑا سا مساج بھی کر دو
اور پھرمیں نے انگلی کی مدد سے پہلے تو اچھی طرح ان کی موری پر مساج کیا پھر تھوڑا سا تھوک اور پھینک کر اسے اچھی طرح ان کی موری کے اندر اور باہر مل دیا ۔۔۔
پھر میں نے عاصمہ جی کی سرگوشی سنی وہ کہہ رہی تھی یس س ۔۔۔ شاہ۔۔۔۔ اب میری گانڈ مار لو ۔۔ ڈال دو اپنا لن۔۔۔ اور میری گانڈ مار لو۔۔
اور پھرمیں نے انگلی کی مدد سے پہلے تو اچھی طرح ان کی موری پر مساج کیا پھر تھوڑا سا تھوک اور پھینک کر اسے اچھی طرح ان کی موری کے اندر اور باہر مل دیا ۔۔۔
پھر میں نے عاصمہ جی کی سرگوشی سنی وہ کہہ رہی تھی یس س ۔۔۔ شاہ۔۔۔۔ اب میری گانڈ مار لو ۔۔ ڈال دو اپنا لن۔۔۔ اور میری گانڈ مار لو۔۔
---- اور پھر بولی ایک منٹ روکو پلیز اور پھر اپنے منہ سے بہت سارا تھوک نکال کر میرے لن پر پھر سے مل دیا اور خاص کر میرے موٹے ٹوپے پر اچھی طرح مساج کیا اور بولی ۔۔۔۔ اب کرو۔۔۔۔ اور میں نے اپنا ٹوپا ان کی موری پر رکھا اور ھلکا سا ۔۔ دھکا مارا۔۔۔۔ بہت ہلکا ۔۔۔ تھوک سے تر ٹوپا ان کی گیلی گانڈ میں تھوڑا سا اندر چلا گیا ۔۔۔ اور عاصمہ نے ایک آہ بھری ۔۔آہ۔ ہ۔ہ ۔۔۔ اُف۔۔۔ ف۔۔۔ف۔ اور میں نے ایک گرم ۔۔۔ سلکی اور بہت نرم گانڈ کا رنگ اپنے ٹوپے کے گرد کسا ہوا محسوس کیا ۔۔۔ ان کی گانڈ بڑی گرم اور مست تھی سو میرے لن کہ سواد آگیا اور میں نے اور گھسا مارا اور میرا لن جڑ تک ان کی گانڈ میں اُتر گیا پورا لن گانڈ میں جاتے ہی عاصمہ نے ایک چییخ ماری اور بولی ۔۔۔۔ آف ۔۔۔ شاہ تیرا لن ہے کہ مزہ کا " ٹرک" ۔۔۔۔۔ یار مجھے بڑا مزہ آرہا ھے ۔۔۔۔ اب اور زیادہ زور دار پٹائ کر نا میری گانڈ کی ۔۔۔۔ اور میں نے ان کی گانڈ کا زور دار پٹائ کرنی شروع کر دی اور اب کمرہ۔۔۔ تھپ تھپ۔۔۔ تھپ اور عاصمہ جی کی سسکیوں سے گونجنا شروع ہو گیا ۔۔۔۔
عاصمہ بڑی ہی مست لیڈی تھی میرے ہر سٹورک کا بھر پور جواب دیتی تھی جس سے مجھے اور بھی جوش چڑھ جاتا اور میں پہلے سے بھی زیادہ زور سے ٹھوکریں مارنا شروع کر دیتا ۔۔۔ اب میں نے دیکھا کہ میرے دھکوں سے عاصمہ کی سانس چڑھ گئ تھی اور وہ تیزی سے سانس لے رہی تھی پھر اچانک انہوں نے اپنا ھاتھ پیچھے کی طرف کیا اور بولی ۔۔۔ ایک ۔۔ منٹ ۔۔۔ ایک منٹ رکو پلیز ۔۔۔۔۔ اور خود تھوڑا آگے ہوگئ جس سے میرا لن ان کی گانڈ سے باہر آ گیا تھا اور میں نے دیکھا کہ میرے طاقتور دھکوں کی وجہ سے ان کی پوری گانڈ سُرخ ہو گئ تھی تب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ہوا تو وہ کہنے لگی پانی ۔۔۔ پانی ۔۔۔ اور میں نے سامنے پڑے جگ سے ایک گلاس پانی بھر کر دیا تو وہ ایک ہی سانس میں سارا پانی پی گئ اور بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اور دے دو پلیز اور میں نے دوسرا گلاس بھی دیا تو وہ پی کر عاصمہ جی نے میری طرف دیکھا اور ایک بھر پور سمائل پاس کی اور بولی ۔۔۔۔ کیا جم کر گانڈ ماری ھے تم نے۔۔۔
یہ سُن کر میں نے ان سے کہا کہ عاصمہ جی گانڈ ہوتی ہی جم کر مارنے کے لئے ھے اب اپ دوبارہ سے گھوڑی بن جاؤ کہ مجھے اپ کی گانڈ ابھی اور بھی مارنی ھے تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ بس ۔۔۔۔ گانڈ نہیں تم اب میرے پھدی کی آگ بجھاؤ ۔۔۔ تو میں نے ان کی بات کاٹ کر جواب دیا ۔۔۔ لیکن عاصمہ جی مجھے تو آپ کی گانڈ میں بڑا مزہ آرہا تھا تو وہ کہنے لگی مزہ تو مجھ کو بھی بڑا آرہا تھا پر۔۔۔ کیا کروں ڈئیڑ۔۔۔ یہاں کی آگ اب میرے بس سے باہر ہوتی جا رہی ھے ۔۔ پھر وہ صوفے پر بیھٹی اور اپنی دونوں ٹانگیں کھول کر بولی ۔۔۔۔ دیکھو تو چوت کیسے پانی پانی ہو رہی ھے ۔۔۔ اور میں نے ان کی چوت کی طرف غور سے دیکھا تو اُس میں سے واقعی پانی رس رس کر ان کی ان کی ٹانگوں سے نیچے گر رہا تھا مجھے یوں دیکھتے دیکھ کر وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ کیا دیکھتے ہو ۔۔۔ میری پھدی بلکل تیار ہے پھر میری طرف آنکھ مار کر بولی ۔۔۔ جان ۔۔۔یہاں تم کو تھوک کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی ۔۔۔ اب میں نے ایک نطر ان کی چوت کی طرف دیکھا اور بولا ۔۔۔ یہ تو ٹھیک ھے پر۔۔۔ مجھے آپ کی گانڈ کا مزہ آ رہا تھا ۔۔۔
تو وہ کہنے لگی بدھو ۔۔۔ تم کو یہاں گانڈ سے کہیں زیادہ مزہ آے گا ۔۔۔۔ تم ایک دفعہ یہاں ڈالو تو سہی ۔۔۔۔ اور پھر بولی جلدی آ۔۔۔ نا ۔۔۔۔ اور میں ان کے پاس چلا گیا انہوں نے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اپنی چکنی پھدی کے سُوراخ پر رکھ کر بولی ۔۔ دھکا لگا۔۔۔ اور میں نے ایک دھکا لگایا تو لن بڑی آسانی سے ان کی چوت میں جڑ تک اتر گیا ،،، اور ان کے منہ سے مزے کے مارے سسکی ۔۔۔ سی نکل گئ ۔۔ اُفف۔۔۔ف۔ف۔ف۔ف۔ف۔۔ف ۔۔۔۔ اور دبی دبی آواز میں بولی ۔۔۔۔۔ شاہ۔۔۔۔ مجھے چود۔۔۔۔ جیسے تم نے میری گانڈ میں فُل سپیڈ گھسے مارے تھے اس سے دوگنا سپیڈ سے اب میری چوت مارو ۔۔۔۔۔ اور میں نے فُل سے بھی زیادہ سپیڈ سے گھسے مارنا شروع کر دیئے میرے ان گھسوں نے اس کے نشے میں مزید اضافہ کر دیا اور وہ مسلسل مجھے ہلا شیری دیتی ری ۔۔ ہاں ۔۔۔ایسے ہی ۔۔۔۔مار ۔۔۔اور زور سے مار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یس سسس س س۔۔۔ اور پھر وہ ٹائیم بھی آ گیا کہ جب مجھے اپنی ٹانگوں میں جان ختم ہوتی ہوئ محسوس ہوئ اور ۔۔مجھے لگا کہ میں گیا۔۔۔۔۔۔۔
ادھر عاصمہ بھی مجھ سے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔ آخری۔۔۔۔ گھسا فُل سپیڈ سے مارو ۔۔۔کہ میں نے چھوٹنا ھے ۔۔۔۔ اور میں نے اپنی ساری توانائی اکھٹی کی اور ۔۔۔ آخری آخری ۔۔۔جھٹکے پوری قوت سے مارے اور۔۔۔ پھر ہم دونوں ایک ساتھ ہی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ چھو ٹتے گۓ چھوتٹے گۓ۔۔۔۔۔۔ چھوٹتے گۓ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Labels: عاصمہ جی Part 2
عاصمہ جی Part 1
عاصمہ جی
Part 1
ہیلو دوستو کیسے ہو آپ ؟ تھینک یو کہ آپ نے میری پچھلی سٹوری پسند کی۔ اب ہم اگلی سٹوری کی طرف آتے ہیں –
دوستو اگر آپ اسلام آباد رہتے ھیں تو یقیناً آپ جانتے ہوں گے کی آئ ایٹ سیکٹر میں واقع علامہ اقبال او پن یونیورسٹی ایک ویران جگہ پر واقع ہۓ خاص کرسردیوں کی رات کے وقت یہ جگہ کافی ویران ہوتی تھی۔ جس وقت کی یہ بات ہے اُس وقت یونیورسٹی کے سامنے درختوں کا کافی گھنا سلسلہ تھا –
دوستو اگر آپ اسلام آباد رہتے ھیں تو یقیناً آپ جانتے ہوں گے کی آئ ایٹ سیکٹر میں واقع علامہ اقبال او پن یونیورسٹی ایک ویران جگہ پر واقع ہۓ خاص کرسردیوں کی رات کے وقت یہ جگہ کافی ویران ہوتی تھی۔ جس وقت کی یہ بات ہے اُس وقت یونیورسٹی کے سامنے درختوں کا کافی گھنا سلسلہ تھا –
یہ ایک ایسی ہی سردیوں کہ رات تھی اور میں اپنی موٹر سائیکل پر اسی روڈ سے گزر رہا تھا کہ مجھے دُور سے بایئک کے پاس ایک شخص کھڑا نظر آیا جو مجھے رُکنے کا اشارہ کر رہا تھا اُس کے ساتھ ایک عورت بھی کھڑی تھی تھوڑا تھوڑا اندھیرا ہو نے کی وجہ سے میں ان کو ٹھیک سے پہچان نہ سکا-
لیکن جیسے ہی میری بایئک ان کی قریب پُہنچی تو میں نے ان کو پہچان لیا یہ ہمارے محلے دار مسٹر اور مسز سلامت تھے اور محلے دار ہونے کی وجہ سے میری ان سے میری اچھی خاصی سلام دعا تھی چنانچہ جیسے ہی میں ان کے پاس رُکا انہوں نے مجھے دیکھ کر اطمینان کی سانس لی اور بولے شکر ھے کہ تم مل گۓ ورنہ ہم کافی دیر سے کھڑے تھے ایک تو یہا ں پر ٹریفک بھی کافی کم ھے دوسرا جو ایک آدھا یہا ں سے گزرا بھی تو اس نے رُکنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی۔ تو میں نے ان سے پوچھا انکل معاملہ کیا ھے ؟؟؟ تو وہ بولے معاملہ کیا ہونا ہے یار بایئک خراب ہو گیا ہے اور پھر کہنے لگے یار اگر تم موٹر سائیکل کے بارے کچھ جانتے ہو تو کچھ کر دو میں نے تو کافی مغز مارا ھے پر کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ چکر کیا ھے ؟؟ موٹر سائیکل کے بارے میرا بھی علم بس واجبی سا تھا پر پھر بھی میں بایئک سے نیچے اُترا اور اُسے سٹارٹ کرنے کی پوری کوشش کی۔۔۔۔ پر کامیاب نا ہوسکا تب میں نے اپنی ہار مان لی اور ان سے کہا کہ سوری سر جی یہ میرے بس سے باہر ھے آپ ایسا کریں میری بایئک لے جایئں میں آپ کی بائیک ٹھیک کروا کے لے آؤں گا –
سلامت صاحب نے رسمی سا انکار کیا لیکن چونکہ اُن کے ساتھ ان کی بیوی بھی تھی اس لیۓ میرے اصرار پر انہوں نے میرا بائیک لے لیا اور اسے سٹارٹ کر کے بیوی سمیت بیٹھ کر چلے گۓ لکین کچھ ھی دُور گۓ ہوں گے کہ میری بائیک بھی پھٹ پھٹ کر کے رُک گئ-
انکل نے اُسے سٹارٹ کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن بے سود۔ اسی اثناء میں میں بھی ان کے بائیک سمیت وھاں پہنچ گیا اور وہاں جا کر رُک گیا اور پوچھنے لگا کہ کیا ہوا ؟؟ تو وہ تھوڑا جُھنجھلا کر بولے یار آج کا دن بڑا منحوس ھے ہر کام ہی اُلٹا ہو رہا ھے دیکھو نا تمہارا بائیک اچھا خاصہ چل رہا تھا پر جیسے میرے پاس آیا یہ چلتے چلے اچانک رُک گیا اور اب چلنے کا نام ھی نہیں لے رہا یہ سُن کر میں نے اُن سے اپنا بائیک لیا اور 3،4 ککیں ماریں تو وہ سٹارٹ ہو گیا اور میں نے دوبارہ بائیک ان کے حوالے کرتے ہوۓ کہا کہ پلیز آپ لوگ جاؤ وہ فوراً بائیک پر بیٹھے اور روانہ ہو گۓ لیکن ابھی تھوڑی ہی دور گۓ ہوں گے کہ بائیک پھر رُک گئ سلامت صاحب نے دوبارہ ککیں مارنا شروع کیں پر وہ سٹارٹ نہ ہوئ اتنی دیر میں میں پھر ان کا بائیک لیۓ وہاں پُہنچ گیا تو دیکھا کہ سلامت صاحب دونوں ھاتھ اپنی کمر پر رکھے بڑے غصوے سے میری بائیک کی طرف دیکھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ مُنہ ہی مُنہ میں کچھ بُڑبُڑا بھی رہے تھے جیسے ہی میں ان کے پاس پُہنچا انہوں نے بڑی بے بسی سے میری طرف دیکھا اور بولے یار آج واقع ہی بڑا منحوس دن ھے دیکھو نا تم کک مارتے ہو تو یہ سالا سٹارٹ ہو جاتا ھے اور میری ککوں سے بھی اس کو کچھ بھی نہیں ہوتا –
یہ سُن کر میں نے ایک دفعہ پھر اُن سے بایئک لیا اور 3، 2 ککوں سے ہی سٹارٹ کر لیا اور دوبارہ ان سے کہا کہ بیٹھیں پلیز اس سے پہلے کہ وہ بائیک پر بیٹھتے اُن کی بیوی فوراً بولی
"جی نہیں میں ان کے ساتھ نہیں جاؤں گی شاہ آپ پلیز مجھے گھر تک چھوڑ آؤ " اس سے قبل کہ میں کچھ کہتا سلامت صاحب فوراً بولے " ٹھیک ھے شاہ آپ ہی عاصمہ جی کو گھر چھوڑ آؤ اور ویسے بھی مجھ سے آپ کا بائیک نہیں چل رھا میرا بائیک میرے حوالے کر دیں میں اسے ٹھیک کروا کے گھر لے آؤں گا – میں نے تھوڑی ہیچر میچر ۔۔۔ پر وہ نہ مانے اور پھر ان کے پُر زور اصرار میں اپنے بائیک پر بیٹھ گیا –
اور اس کے ساتھ ہی میرے پیچھے عاصمہ جی (اُن کی بیگم ) بیٹھ گئ ۔ اس سے قبل کہ کہانی آگے چلے میں آپ سے عاصمہ جی کا تعارُف کرواتا چلوں- عاصمہ جی ایک 35،36 سال کی خوبصورت دراز قد کی کشمیری عورت تھی ۔۔ اس کی بڑی آنکھیں تھیں اور موٹے ممے تھے پر اُس کے بدن کی سب سے دلکش اور خاص بات عاصمہ جی کی گانڈ تھی موٹی تو اس عمر میں تقریباً سب ہی لیڈیز کی گانڈ ہو جاتی ھے پر عاصمہ کی گانڈ لاکھوں میں ایک تھی جس نے بھی ان کی گانڈ دیکھی وہ دل پکڑ کر بیٹھ گیا
اور اس کے ساتھ ہی میرے پیچھے عاصمہ جی (اُن کی بیگم ) بیٹھ گئ ۔ اس سے قبل کہ کہانی آگے چلے میں آپ سے عاصمہ جی کا تعارُف کرواتا چلوں- عاصمہ جی ایک 35،36 سال کی خوبصورت دراز قد کی کشمیری عورت تھی ۔۔ اس کی بڑی آنکھیں تھیں اور موٹے ممے تھے پر اُس کے بدن کی سب سے دلکش اور خاص بات عاصمہ جی کی گانڈ تھی موٹی تو اس عمر میں تقریباً سب ہی لیڈیز کی گانڈ ہو جاتی ھے پر عاصمہ کی گانڈ لاکھوں میں ایک تھی جس نے بھی ان کی گانڈ دیکھی وہ دل پکڑ کر بیٹھ گیا
چاہے وہ گانڈ لور ھے یا نہیں ۔۔۔۔ چلتے ہوۓ خاص کر وہ ایسے مٹک مٹک کر چلتی کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ ۔۔۔ نا پوچھ یار – ہماری مُحلے کے تقریباً سارے ہی لوگ ان کی دلکش گانڈ کے عاشق تھے – اور یہ میری بڑی خوش قسمتی تھی کہ آج یہ دلکش گانڈ والی خاتون میری پرانی پھٹ پھٹی پر میرے پیچھے بیٹھی تھی۔ گو کہ اس خوبصورت خاتون کا نام عاصمہ ھی تھا مگر ان کا میاں چونکہ ان کو عاصمہ جی کہتا تھا اس لیۓ سارا محلہ ان کو عاصمہ جی کے نام سے یاد کرتا تھا-
جب میں اوپن یونیورسٹی سے تھوڑا سا آگے گیا تو اچانک مجھے پیچھے سے عاصمہ جی کی آواز سُنائ دی ۔۔۔ ایک منٹ ۔۔۔۔ ایک منٹ رکو پلیز۔۔۔!!! میں نے فوراً بریک لگا دی اور ان سے پوچھا خیریت۔۔؟ تو وہ تھوڑا سا جھجھک کر بولی " وہ بڑے زور کا سُو سُو (پیشاب) آیا ہے۔۔ میں نے بڑی دیر سے روکا ہوا تھا پر اب یہ کام میری برداشت سے باہر ہو گیا ہے تم رکو میں بس ابھی آئ ۔۔ انہوں نے یہ کہا اور جلدی سے یونیورسٹی کے سامنے اندھیرے میں گھنے درختوں کی طرف غائب ہو گئ- اور میں بائیک پر ہی بیٹھا ان کا انتظار کرنے لگا – بمشکل ایک آدھ منٹ ہی گزرا ہو گا کہ مجھے عامصہ جی کی چیخ سنائ دی۔۔۔ اُو۔۔ئ۔۔ ئ۔۔۔ ماں۔۔۔ سانپ ۔۔۔۔ سانپ۔۔۔ شاہ جلدی آؤ مجھے سانپ نے کاٹ لیا ھے۔۔۔ یہ سُن کر میرے تو حواس ہی گُم ہو گۓ اور میں بھاگتا ہوا درختوں کی طرف چلا گیا پر اندھیرا ہونے کی وجہ سے مجھے وہاں کچھ دکھائ نہ دیا چنانچہ اب میں اُتنی یہ جلدی سے واپس گیا اور ھیڈ لائیٹ فُل پہ کر کے بائیک جاۓ حادثہ کی طرف لے گیا –
جب میں اوپن یونیورسٹی سے تھوڑا سا آگے گیا تو اچانک مجھے پیچھے سے عاصمہ جی کی آواز سُنائ دی ۔۔۔ ایک منٹ ۔۔۔۔ ایک منٹ رکو پلیز۔۔۔!!! میں نے فوراً بریک لگا دی اور ان سے پوچھا خیریت۔۔؟ تو وہ تھوڑا سا جھجھک کر بولی " وہ بڑے زور کا سُو سُو (پیشاب) آیا ہے۔۔ میں نے بڑی دیر سے روکا ہوا تھا پر اب یہ کام میری برداشت سے باہر ہو گیا ہے تم رکو میں بس ابھی آئ ۔۔ انہوں نے یہ کہا اور جلدی سے یونیورسٹی کے سامنے اندھیرے میں گھنے درختوں کی طرف غائب ہو گئ- اور میں بائیک پر ہی بیٹھا ان کا انتظار کرنے لگا – بمشکل ایک آدھ منٹ ہی گزرا ہو گا کہ مجھے عامصہ جی کی چیخ سنائ دی۔۔۔ اُو۔۔ئ۔۔ ئ۔۔۔ ماں۔۔۔ سانپ ۔۔۔۔ سانپ۔۔۔ شاہ جلدی آؤ مجھے سانپ نے کاٹ لیا ھے۔۔۔ یہ سُن کر میرے تو حواس ہی گُم ہو گۓ اور میں بھاگتا ہوا درختوں کی طرف چلا گیا پر اندھیرا ہونے کی وجہ سے مجھے وہاں کچھ دکھائ نہ دیا چنانچہ اب میں اُتنی یہ جلدی سے واپس گیا اور ھیڈ لائیٹ فُل پہ کر کے بائیک جاۓ حادثہ کی طرف لے گیا –
جیسے ہی میرا بائیک عاصمہ جی کے قریب پہنچا تو میں نے ہیڈ لائیٹ کی روشنی میں دیکھا کہ ان کے چہرے کا رنگ اُڑا ہوا تھا اور ان کی شلوار ان کے گھٹنوں سے نیچے زمین پر پڑی تھی اور وہ بڑی خوف زدہ نطروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی مجھے دیکھ کر انہوں نے اپنی پیٹھ کی طرف اشارہ کیا اور بولی " شاہ مجھے یہاں پر سانپ نے کا ٹا ھے" اور میں فوراً اُن کی پیٹھ پر سانپ کے کاٹنے کا منظردیکھنے کے لیۓ جھکا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اُن کی موٹی گانڈ کی موری کے بلکل ساتھ ایک بڑا سا چیونٹا چپکا ہوا تھا جس کی وجہ سے ان کی گا نڈ کا وہ حصہ خاصہ سُرخ ہو چکا تھا جیسے ہی میری نطر اُس بڑے سے چیونٹے پر پڑی میں نے شُکر کا سانس لیا اور عاصمہ جی سے بولا کہ آپ کو سانپ نے نہیں بلکہ ایک بڑے سے چیونٹے نے کاٹا ہے لیکن اُن کو میری بات کا یقین نہیں آیا اور بولی پلیز اچھی طرح دیکھو کہ مجھے بڑی شدید جلن ہو رہی ہے عاصمہ جی نے یہ کہا اور اپنا منہ دو سری طرف کر کے پوری گانڈ میری طرف کر دی اور خود رکوع کے بل جھک گئ-
لو جی میری تو عید ہو گئ کہ اب میرے سامنے ایک بہت ہی بڑی زبردست موٹی نرم اور گوری گانڈ تھی جس کا میں اچھی طرح جائزہ لے رہا تھا ان کی چوت سے پیشاب کے کچھ قطرے ابھی بھی گر رہے تھے پر جو خاص بات میں آپ سے شئیر کرنا چاہتا ہون وہ اُن کی گانڈ کی موری تھی جو عام موری سے کھچ زیادہ ہی کُھلی تھی- (شاید عاصمہ جی نے گانڈ زیادہ مروائ تھی ) اتنی جاندار گانڈ دیکھ کر میرے تو منہ میں پانی آ گیا اور میں ان کی گانڈ کو دیکھ کر پاگل ہوا جا رہا تھا اور بڑی مشکل سے خود پر کنٹرول کر رہا تھا۔۔ گانڈ کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد میں نے اس جگہ کو دوبارہ دیکھا جہان ابھی تک چیونٹا چپکا ہوا تھا میں نے میں نے چیونٹے کو دو انگلیوں کی مدد سے وہاں سے ہٹایا اور متاثرہ جگہ پر تھوڑا مساج کیا اور پھر نہ چاہتے ہوے بھی میں نے اپنی ایک انگلی ان کی گانڈ کی بڑی سی موری میں داخل کر دی ۔۔ کچھ سکینڈ تک انگی ان کی موری میں گھمائ اور پھر نکال لی اسکے بعد میں نے مرا ہوا چینونٹا ان کو دکھا کر بولا سانپ شانپ کوئی نہیں تھا عاصمہ جی بلکہ آپ کے وہاں ایک بڑے سے چیانٹے نے کاٹا تھا اور یہ رہا وہ چیونٹا اور ان کو چیونٹا دکھا دیا جسے دیکھ کر وہ تھوڑی سی نارمل ہو گئ اور بولی جلدی سے یہاں سے نکلو شاہ کہ مجے بڑا ڈر لگ رہا ھے-
اور انہوں نے جلدی سے شلوار پہنی اور میرے ساتھ بائیک پر بیٹھ گئ اور ھم ان کے گھر کی طرف چل پڑے ۔۔ مرا ہوا چیونٹا دیکھ وہ کافی حد تک نارمل ہو گئ تھی اور پھر راستے بھر میں وہ مجھ سے سانپ بچھو وغیرہ کی باتیں کرتی رہی پر میرے دھیان میں ان کی موٹی گانڈ خاص کر بڑی سی موری آتی رہی ۔۔۔۔
اس طرح باتوں باتوں میں کب ان کا گھر آیا پتہ ہی نہیں چلا – جیسے ہی ھم ان کے گھر کے قریب پہنچے تو میں نے عاصہ جی کو بائیک سے آتارا اور جانے کی اجازت لی تو وہ کہنے لگی بنا چاۓ کے تم کیسے تم جا سکتے ہو۔۔ ؟؟؟؟ اس لیۓ اپنی بائیک کو لاک کرو اور میرے ساتھ گھر چلو اورخود گھر کا تالا کھولنا لگی میں نے بھی بائیک کو لاک کیا اور پھر ان کے گھر داخل ہو گیا وہ مجھے ساتھ لے کر ڈرائنگ روم میں لے گئ وہاں مجھے ایک صوفے پر بیٹھنے کو کہا تو میں نے ان سے پوچھا کہ عاصمہ جی گھر کے باقی لوگ کہا ں ہیں۔۔؟؟ تو وہ کہنے لگی سب لوگ ایف سکس میں برکت صاحب کے بھتیجے کی شادی پر گۓ ہوۓ ہیں اور مزید کچھ دن وہاں ہی رکیں گے میں اور برکت صاحب بھی صبع سے وہاں ہی تھے پھر کہنے لگی تم بیٹھو میں ابھی چاۓ لے کر آتی ہوں اور وہ کچن میں چاۓ بنانے چلی گئ – کوئ 15،20 منٹ کے بعد جب وہ واپس آئ تو ان کے ہاتھ میں ایک بڑی سی ٹرے تھی جس میں 2 کپ چاۓ کے ساتھ 2،3 پلیٹیں اور بھی تھیں جو بسکٹ اور دیگر لو ازمات سے بھری ہوئ تھیں یہ دیکھ کر میں نے کہا عاصمہ جی آپ نے تو بڑا تکلف کر دیا تو وہ بولی ارے تکلف کیسا اسی بہانے تئم کچھ دیر بیٹھو گے تو سہی نہ -
اس طرح باتوں باتوں میں کب ان کا گھر آیا پتہ ہی نہیں چلا – جیسے ہی ھم ان کے گھر کے قریب پہنچے تو میں نے عاصہ جی کو بائیک سے آتارا اور جانے کی اجازت لی تو وہ کہنے لگی بنا چاۓ کے تم کیسے تم جا سکتے ہو۔۔ ؟؟؟؟ اس لیۓ اپنی بائیک کو لاک کرو اور میرے ساتھ گھر چلو اورخود گھر کا تالا کھولنا لگی میں نے بھی بائیک کو لاک کیا اور پھر ان کے گھر داخل ہو گیا وہ مجھے ساتھ لے کر ڈرائنگ روم میں لے گئ وہاں مجھے ایک صوفے پر بیٹھنے کو کہا تو میں نے ان سے پوچھا کہ عاصمہ جی گھر کے باقی لوگ کہا ں ہیں۔۔؟؟ تو وہ کہنے لگی سب لوگ ایف سکس میں برکت صاحب کے بھتیجے کی شادی پر گۓ ہوۓ ہیں اور مزید کچھ دن وہاں ہی رکیں گے میں اور برکت صاحب بھی صبع سے وہاں ہی تھے پھر کہنے لگی تم بیٹھو میں ابھی چاۓ لے کر آتی ہوں اور وہ کچن میں چاۓ بنانے چلی گئ – کوئ 15،20 منٹ کے بعد جب وہ واپس آئ تو ان کے ہاتھ میں ایک بڑی سی ٹرے تھی جس میں 2 کپ چاۓ کے ساتھ 2،3 پلیٹیں اور بھی تھیں جو بسکٹ اور دیگر لو ازمات سے بھری ہوئ تھیں یہ دیکھ کر میں نے کہا عاصمہ جی آپ نے تو بڑا تکلف کر دیا تو وہ بولی ارے تکلف کیسا اسی بہانے تئم کچھ دیر بیٹھو گے تو سہی نہ -
پھر انہوں نے تپائ پر ٹرے رکھی اور میرے سامنے بیٹھ گئ اور ہم چاۓ کے ساتھ ساتھ دوبارہ سانپ بچھو وغیرہ کے کاٹنے اور اسی حادثے کے بارے میں باتیں بھی کرنے لگے تب باتوں باتوں میں مین نے اُن سے کہا یقین کریں عاصمہ جی آپ کی دلدوز چیخ نے تو میری جان ہی نکال دی تھی شکر ھے کہ وہاں سانپ نہیں تھا ورنہ بڑی مشکل ہو جاتی۔اور میں نے پھر سے اپنی بات دھراتے ہوے کہا کہ عاصمہ جی آپ کی اُس چیخ نے تو میرا پورے 2 کلو خون خشک کر دیا تھا-
میری بات سُن کر عاصمہ جی تھوڑی سے کھسیانی ہو گئ اور بولی " آئ ایم سوری شاہ جی ۔۔۔۔۔۔۔۔ پر بعد میں آپ نے میری چیخ کا پورا فائدہ بھی اُٹھا یا تھا " اور پُر اسرار طریقے سے مُسکرا دی – یہ سُن کر میں نے قدرے حیرانی سے ان سے پوچھا کہ " عاصمہ جی میں نے کون سا فائیدہ اُٹھایا تھا ۔۔؟؟؟؟؟ تو اُنہوں نے تُرنت ہی جواب دیا اور کہنے لگی زیادہ سمارٹ بننے کی کوئ ضرورت نہیں ھے مسٹر شاہ ۔۔۔۔۔۔ تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ میں کس فائیدے کی بات کر رہی ہوں اور تب اچانک مجھے یاد آیا کہ میں نے سانپ کا کا ٹا چیک کرتے وقت اپنی ایک انگی ان کی گانڈ کی بڑی سی موری میں ڈالی تھی وہ لحمہ یاد کر کے میں نے بڑی شرمند گی محسوس کی اور پھر فوراً ہی اُن سے اپنی اس حرکت کی معافی مانگ لی اور بولا اس بات کے لیۓ ویری ویری سوری عاصمہ جی ۔۔۔
میری بات سُن کر عاصمہ جی تھوڑی سے کھسیانی ہو گئ اور بولی " آئ ایم سوری شاہ جی ۔۔۔۔۔۔۔۔ پر بعد میں آپ نے میری چیخ کا پورا فائدہ بھی اُٹھا یا تھا " اور پُر اسرار طریقے سے مُسکرا دی – یہ سُن کر میں نے قدرے حیرانی سے ان سے پوچھا کہ " عاصمہ جی میں نے کون سا فائیدہ اُٹھایا تھا ۔۔؟؟؟؟؟ تو اُنہوں نے تُرنت ہی جواب دیا اور کہنے لگی زیادہ سمارٹ بننے کی کوئ ضرورت نہیں ھے مسٹر شاہ ۔۔۔۔۔۔ تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ میں کس فائیدے کی بات کر رہی ہوں اور تب اچانک مجھے یاد آیا کہ میں نے سانپ کا کا ٹا چیک کرتے وقت اپنی ایک انگی ان کی گانڈ کی بڑی سی موری میں ڈالی تھی وہ لحمہ یاد کر کے میں نے بڑی شرمند گی محسوس کی اور پھر فوراً ہی اُن سے اپنی اس حرکت کی معافی مانگ لی اور بولا اس بات کے لیۓ ویری ویری سوری عاصمہ جی ۔۔۔
میری معافی کی بات سن کر وہ بولی زیادہ جزباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ " اٹس اوکے " اور مسکُرا دی۔
جب عاصمہ جی نے" اٹس او کے" کہا تو یہ سُن کر میری پینٹ میں تھوڑی ہلچل مچی اور لن صاحب نے ہلکہ سا سر اٹھا کر مجھ سے کہا ۔۔۔ میڈم کی بات سمجھ سالے ۔۔۔ لیکن میں لن کے بتانے سے پہلے ہی کافی کچھ سمجھ چکا تھا اور بات کی تہہ تک جانے سے پہلے کچھ باتوں کی وضاحت ضروری تھی چنانچہ یہ سوچ کر میں نے اپنے چہرے پر تھوڑی تشویش ظاہر کی اور بولا ۔۔ یہ سلامت صاحب ابھی تک نہیں پہنچے ۔۔۔ ؟؟ تو وہ بولی اصل میں انہوں نے رات گۓ گھر آنا ھے کہ شادی کے سلسلہ میں کافی کام اُن کے زمہ تھے اُن کی یہ بات سُن کر میں کافی حد تک مطمئین ہو گیا تھا سو اب میں نے دانہ پھیکنے کا ارادہ کر لیا اور بولا ۔۔ عاصمہ جی کیا ابھی بھی آپ کو درد ہو رہا ھے ؟ وہ فوراً میری بات کو سمجھ گئ اور بولی نہیں شاہ جی درد تو نہیں البتہ جلن بڑی سخت ہو رہی ہے ۔۔۔ یہ سننا تھا کہ جھٹ میں نے اپنی خدمات پیش کرے ہوے بولا اگر آپ مائینڈ نہ کریں تو میں متاثرہ حصہ پر دوبارہ مساج کر دوں۔۔؟ وہ منہ سے کچھ نا بولی پر اپنی جگہ سے اُٹھ کر آ کر میرے سامنے کھڑی ہو گئ-
جب عاصمہ جی نے" اٹس او کے" کہا تو یہ سُن کر میری پینٹ میں تھوڑی ہلچل مچی اور لن صاحب نے ہلکہ سا سر اٹھا کر مجھ سے کہا ۔۔۔ میڈم کی بات سمجھ سالے ۔۔۔ لیکن میں لن کے بتانے سے پہلے ہی کافی کچھ سمجھ چکا تھا اور بات کی تہہ تک جانے سے پہلے کچھ باتوں کی وضاحت ضروری تھی چنانچہ یہ سوچ کر میں نے اپنے چہرے پر تھوڑی تشویش ظاہر کی اور بولا ۔۔ یہ سلامت صاحب ابھی تک نہیں پہنچے ۔۔۔ ؟؟ تو وہ بولی اصل میں انہوں نے رات گۓ گھر آنا ھے کہ شادی کے سلسلہ میں کافی کام اُن کے زمہ تھے اُن کی یہ بات سُن کر میں کافی حد تک مطمئین ہو گیا تھا سو اب میں نے دانہ پھیکنے کا ارادہ کر لیا اور بولا ۔۔ عاصمہ جی کیا ابھی بھی آپ کو درد ہو رہا ھے ؟ وہ فوراً میری بات کو سمجھ گئ اور بولی نہیں شاہ جی درد تو نہیں البتہ جلن بڑی سخت ہو رہی ہے ۔۔۔ یہ سننا تھا کہ جھٹ میں نے اپنی خدمات پیش کرے ہوے بولا اگر آپ مائینڈ نہ کریں تو میں متاثرہ حصہ پر دوبارہ مساج کر دوں۔۔؟ وہ منہ سے کچھ نا بولی پر اپنی جگہ سے اُٹھ کر آ کر میرے سامنے کھڑی ہو گئ-
Labels: عاصمہ جی Part 1
بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 4 + Last
بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 4 + Last
ادھر آنٹی میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑے آہستہ آہستہ جوش میں آتی جا رہیں تھیں پہلے تو وہ بڑے آرام سے لن کو پکڑے ہوئے تھیں ۔۔لیکں پھر رفتہ رفتہ ان کے ہاتھ کی گرفت میرے لن پر سخت سے سخت تر ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ ۔۔۔۔ بیڈ کے قریب پہنچ کر میں نے ان کے منہ سے منہ ہٹایا اور ان کے اکڑے ہوئے نپل کر اپنے ہونٹوں میں لے لیا اور اس کو چوسنے لگا۔۔۔۔ابھی مجھے نپل لیئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک آنٹی نے میرے منہ سے اپنا نپل چھڑایا اور میرا لن کو دبا کر بولی ۔۔۔۔۔یہ کیا پکڑا دیا مجھے۔۔۔ اُف ف ف ۔۔۔۔ یہ کتنا موٹا اور پتھر کی طرح سخت ہے ۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے مسلسل میرے لن کو اپنی مُٹھی میں پکڑے ہوئے دبانا شروع کر دیا ۔۔۔اورپھر لن کے ساتھ کھیلتے کھیلتے ۔۔۔انہوں نے بڑی نشیلی نظرو سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔جانو۔۔۔۔کچھ کرو نا۔۔۔ کہ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا ۔۔۔
پھر وہ مجھ سے بولیں۔۔۔ اچھا اگر تم کچھ نہیں کرتے تو میں خود ہی اس کا کچھ کرتی ہوں اور مجھ سے کہنے لگیں کہ میں بیڈ پر لیٹ جاؤں ۔۔۔ ان کے کہنے پہ جیسے ہی میں پلنگ پر لیٹا وہ بھی بیڈ پر آئیں اور گھٹنوں کے بل چلتی ہوئی میرے لن کے پاس آ گئیں اور ایک دفعہ پھر اسے اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بولیں۔۔۔ واہ ۔۔ ایسا ہوتا ہے نا لن ۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنا منہ نیچے جھکایا اور میرے ٹوپے کو اپنے ہونٹوں میں لیکر ۔۔۔۔ اس پر ایک ہلکا سا بوسہ دیا ۔۔۔۔ پھر ۔۔آہستہ آہستہ میرے لن کو اپنے منہ کے اندر لے گئیں اور پھر آدھا لن لیکر کر اپنے منہ سے باہر نکلا اور بولیں ۔۔۔اس سے زیادہ میں نہیں لے جا سکتی ۔۔۔ اور پھر لن کو منہ میں لیا اور اسے چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔ لن چوستے چوستے انہوں نے ایک دفعہ پھر اپنا منہ میرے لن سے ہٹا یا اور کہنے لگیں ۔۔۔۔ شاہ۔۔۔ تمھارے سائز نے تو میرا جی خوش کر دیا۔۔۔۔ اور تمھارے سائز کو دیکھ میرا جی کرتا ہے کہ میں تمھارا لن کھا جاؤں ۔۔تو میں نے ان سے کہا کہ کھا جاؤ نا میری جان۔۔۔تو وہ میری طرف دیکھ کر ایک ادا سے کہنے لگیں ۔۔۔۔ میں اسے کھانے میں ایک منٹ بھی نہ لگاؤں لیکن کیا کروں یار ۔۔۔ میری چوت ناراض ہو جائے گی ۔۔تو میں نے ان سے کہا کیوں آپ کی چوت کیوں ناراض ہو گی آنٹی جی ؟؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔ ارے اتنی مشکل سے تو اس کو من پسند لن ملا ہے ۔۔۔۔ پھر کہنے لگیں یو نو۔۔ جب سے تم نے مجھے اپنا لن دکھایا ہے ۔۔۔ میری چوت اسے اپنے اندر لینے کے لیئے بے چین ہے اس پر میں نے ان سے کہا کہآنٹی جی میں نے آپ کی چوت پہ ہاتھ رکھ کر دیکھا تھا ۔۔۔خاصی گرم ہو رہری تھی ۔۔ میری بات سن کر آنٹی بڑے ہی مست اور نشیلے لہجے میں بولی ۔۔۔ کیا کہا تم نے صرف گرم۔۔۔ ارے میری جان ۔۔ میری چوت تو آگ پھینک رہی ہے آگ۔۔۔ پھر وہ اوپر اُٹھیں اور کہنے لگیں میں تم کو بتاؤں اپنی چوت کی آگ اور پھر گھٹنوں کے بل چلتی ہوئی ۔۔۔ اپنی پھدی کو میرے منہ کے پاس لے آئیں اور اپنی دونوں انگلیوں سے چوت کے دونوں لبوں کو کھول کر بولیں ۔۔۔ دیکھ زرا ۔۔۔ میری پھدی سے کس قدر پانی کا اخراج ہو رہا ہے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی گرم پھدی میرے منہ پر رکھ دی ۔۔۔اور سرگوشی میں کہنے لگیں ۔۔۔ میری پھدی کو چاٹو۔۔۔ ان کی بات سُن کر میں نے اپنے منہ سے زبان باہر نکالی اور۔۔۔ ان کی پھدی کے اندر ڈال دی ۔۔۔اُف۔۔ف۔ ان کی پھدی اندر سے اس قدر گرم اور پانی سے بھر پور تھی کہ ۔۔۔مجھے چوت چاٹنے کا مزہ آ گیا ۔۔۔ اور میں ان کی کھلی چوت کے پانی میں اپنی زبان کو چپوؤں کی طرح چلانے لگا۔۔۔اور ان کی پھدی کے اندر تک اپنی زبان کو لے گیا۔۔۔ ابھی مجھے چوت چاٹتے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی ۔۔۔ کہ آنٹی نے گہرے گہرے سانس لینے شروع کر دیئے اور اس کے ساتھ ہی اپنی پھدی کو میرے منہ پر رگڑنے لگیں۔۔۔ اور پھر ان کی چوت سے پانی ایک سیلاب سا نکلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ۔۔۔۔۔۔۔ ان کی چوت سے تیزی کے ساتھ پانی کا اخراج ہونے لگا۔۔۔
پھر انہوں نے اپنی پھدی کو میرے منہ سے الگ کیا اور خود بستر پر لیٹ کر بولیں ۔۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔اب میں بستر سے اُٹھا اور ان کی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں آ گیا ۔۔۔ اور پھر میں نے ان کی ایک ٹانگ کو اپنے کندھے پر رکھا اور اپنے لن کی نوک کو ان کے موٹے اور پھولے ہوئے دانے پر رکھا اور رگڑنے لگا ۔۔۔۔کچھ ہی دیر بعد آنٹی میرے نیچے سے کسمسائی اور بولیں۔۔۔میری جان اپنے لن کی نوک کو میرے دانے پر اور زیادہ رگڑو ۔۔مجھے بڑا مزہ آ رہا ہے ۔۔۔۔ اور میں نے اپنی لن کی نوک سے ان کے دانے کو اور بے دردی سے رگڑنا شروع کر دیا۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد انہوں نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک لیا اور کہنے لگیں ۔۔۔۔ بس۔س۔۔س۔ اب میرے اندر ڈالو۔۔۔ اور پھر میں نے اپنا لن وہاں سے ہٹایا اور آنٹی کی چوت کی چوت پر ایک نظر ڈالی تو میں نے دیکھا کہ آنٹی کو چوت کافی بھری بھری اور گوشت سے بھر پور تھی ۔۔۔۔ جبکہ چوت کے لب کافی موٹے موٹے تھے اور تھوڑے لٹکے ہوئے تھے ۔۔اس کےساتھ ساتھ ساتھ ان کی چوت بلکل صاف اورشفاف تھی اور اس پر ایک بھی بال نہ تھا ۔۔۔ ان کی چوت کا اچھی طرح سے چائزہ لیکر میں نے اپنا لن کو ہاتھ میں پکڑا اور پھر ان کی چوت کے موٹے موٹے لبوں کے درمیان رکھ دیا ۔۔۔۔ اور ہلکا سا دھکا لگایا تو لن پھسلتا ہوا ۔۔۔ان کی گرم چوت میں اتر گیا ۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ میرے کانوں میں آنٹی کی مست آواز گونجی وہ کہہ رہیں تھی ۔۔۔ اور اندر کرو ۔۔۔ اور اندر کرو۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔۔پھر میں نے لن اور اندر کیا تو آنٹی نے ایک مست سسکی لی اور بولیں سارا ڈالا ہے نا۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟ تو میں نے ان کی بات کا کوئی جوات نہ دیا اور ۔۔۔۔ ایک طاقت سے بھر پور گھسہ مارا۔۔۔ تو وہ نیچے سے کہنے لگیں ۔۔۔۔۔۔ ہاں تم نے پورا لن میرے اندر ڈالا ہے ۔۔۔مزہ آ گیا جانو۔۔۔۔۔۔ با رکو مت اور میری چوت کی جم کر پٹائی کرو۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے ان کی چوت میں لن کو تیزی کے ساتھ اندر باہر کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔اور میرے ہر گھسے پر وہ کہتیں ہاں ۔۔۔اب مزہ آ رہا ہے ۔۔یس۔س۔س۔س۔س۔سس۔۔۔پھر اس کے بعد میں نے ان کی مست آوازوں پر کوئی توجہ نہ دی اور پوری قوت سے اپنا لن ان کے اندر باہر کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد اچانک انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر مجھے روک لیا۔۔۔ اس وقت میرا لن جڑ تک آنٹی کی چوت میں پہنچا ہوا تھا کہ جب آنتی نے مجھے رُکنے کا اشارہ کیا ۔۔۔اور میرے رکنے پر ۔۔۔۔وہ بولیں ۔۔۔۔۔ لن چوت سے نکلو۔۔ میں نے سٹائیل تبدیل کرنا ہے اور جب میں نے اپنا لن ان کی چوت سے باہر نکلا تو میں دیکھا کہ میرا لن ان کی چوت کے پانی سے چمک رہا تھا یہ دیکھ کر انہوں نے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور بولیں۔۔۔۔ بڑی شاندار پٹائی کی ہے اس ظالم نے اور پھرتی سے میرے سامنے گھوڑی بن گئیں ۔۔۔ اور بولیں ۔۔۔ اب زرا پیچھے سے بھی ویسے ہی گھسے مارو جیسے کہ آگے سے مارے تھے ۔۔۔ا ن کی بات سن کر میں آنٹی کے پیچھے آ گیا اور پہلے تو ان کی موٹی بنڈ پر ایک کس کی اور پھر حسبِ عادت ان کی گانڈ کی موری میں انگلی گھمائی اور پھر لن کو ہاتھ میں پکڑا اور ان کی چوت پر رکھ دیا ۔۔۔ اور پھر پہلے اہستہ آہستہ گھسے مارے تو وہ اپنا منہ پیچھے کر بولیں ۔۔۔ طاقت لگا میری جان ۔۔اور پٹائی کر جیسے تھوڑی دیر پہلے کر رہا تھا ۔۔ ان کی بات سُن کر میں نے اپنے دھکوں اور طاقت کی رفتار بڑھا دی ۔۔۔ اور ۔۔۔ اپنی پوری قوت سے ان کی پھدی مارنے لگا ۔۔۔۔ میرے ہر گھسے پر وہ کہتیں شاباش ۔۔۔۔۔اور زور سے ۔۔۔۔اور میں اگلی دفعہ پھر زور لگا کر چوت میں گھسہ مارتا ۔۔تو وہ کہتیں ۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔ اور پھر مجھے لگا کہ آنٹی کی شاباش میں کچھ گڑبڑ آ گئی ہے ۔۔۔اور وہ بڑا توڑ توڑ کر کہہ رہیں تھیں۔۔۔شا۔۔۔۔۔با۔۔۔ش ش آہ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی آنٹی اپنی پورے زور سے پیچھے ہونے لگیں اور میں سمجھ گیا کہ آنٹی چھوٹنے والی ہیں یہ صورتِ حال دیکھ کر میں بہت پُرجوش ہو گیا اور ۔۔۔۔ بجلی کی سی تیزی سے آنٹی کی چوت میں فُل سپیڈ سے گھسے مارنے لگا ۔۔۔اسی دوران آنٹی کا جسم کانپا ۔۔۔۔۔۔اور ان کی چوت کے مسل میرے لن کے ساتھ ملنا شروع ہو گئے اور پھر اچانک ہی میرے لن نے بھی منی چھوڑنے کا اشارہ دے دیا ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے آنٹی کی چوت میں آخری آخری گھسے مارے اور ۔۔۔اور پھر مجھے ایسا لگا کہ میرے لن سے پانی نکل نکل کر آنٹی کی تنگ ہوتی ہوئی چوت کہ تہہ میں اتر رہا ہے اور ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی آنٹی نے بھی ایک چیخ ماری ۔۔اوئی ماں۔۔۔۔ں ںں ں ۔۔۔اور ان کی چوت سے بھی پانی کا اخراج شروع ہو گیا اور میں بے دم ہو کر آنٹی کے اوپر ہی گر گیا۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
کچھ دیر تک میں آنٹی کے اوپر ہی گرا رہا پھر میں اُٹھا اور ان کے ساتھ ہی لیٹ گیا زور دار دھکے مارنے کی وجہ سے میرا سارا بدن پسینے میں نہایا ہوا تھا۔۔۔ جیسے ہی میں آنٹی کے اوپر سے ہٹا۔۔وہ پھرتی سے اپنی جگہ سے اُٹھیں اور مجھ سے چمٹ گئیں اور کافی دیر تک ہم ایسے ہی ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے رہے پھر انہوں نے ایک کپڑے سے میرا لن اور اپنی چوت کو اچھی طرح صاف کیا ۔۔۔ اورپھر میں واپس اپنے گھر آ گیا۔۔۔
اسی طرح میرا ان کے گھر آنا جانا لگا رہا لیکن اس دن کے بعد مجھے دوبارہ آنٹی کو چودنے کو موقعہ نہیں ملا ۔۔۔ ہاں جھٹ پٹ کس کر لیتا تھا یا ان کے ہاتھ میں لن پکڑا لیتا تھا ۔۔۔ لیکن اس کے بعد مجھے اس شاندار عورت کوچودنے کو موقعہ نہ مل سکا تھا ۔۔۔اسی طرح ۔ادوسری طرف ۔نازیہ کے ساتھ میری دوستی عروج پر تھی لیکن وہاں بھی مجھے کوئی ایسا موقعہ ہاتھ نہ لگ رہا تھا کہ جس سے میرا لن ٹھنڈا ہوتا ۔۔۔ ایک دن کی بات ہے کہ اس دن صبع سے ہی کافی بادل چھائے ہوئے تھے ۔۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ بائیک پر آفس جایا جائے کہ نہیں یا چھٹی ماری جائے لیکن مسلہ یہ تھا کہ اس دن کچھ ایسے کام تھے کہ میں آفس سے چھٹی نہ کر سکتا تھا اور اسی شش و پنج میں تھا کہ اگر بارش شروع ہو گئی تو بڑی خواری ہو گی ۔۔۔ پھر سوچا کہ چلو ٹیکسی پر چلتے ہیں ۔۔۔۔ لیکن آخری تاریخیں ہونے کی وجہ سے ۔۔۔ ٹیکسی پرجانا ۔بھی ۔۔ مشکل تھا ۔۔۔ چنانچہ نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے یہی فیصلہ کیا کہ اپنی بائیک پر ہی آفس جایا جائے ۔۔۔اور پھر میں نے اپنی پھٹ پھٹی سٹارٹ کی اور آفس پہنچ گیا ۔۔۔ سارے راستے میں ڈرتا ہی رہا کہ کہیں بارش نہ شروع ہو جائے ۔۔۔ لیکن خیریت ہوئی کہ میرے آفس پہنچتے پہنچتے بارش یہ ہوئی البتہ ٹھنڈی اور مست ہوا چلتی رہی ۔۔۔۔ جس کو وجہ سے موسم بڑا خوش گوار ہو گیا ۔۔۔اور میں یہ سہانا موسم انجوائے کرتا ہوا اپنے آفس پہنچ گیا ۔۔۔
اسی طرح میرا ان کے گھر آنا جانا لگا رہا لیکن اس دن کے بعد مجھے دوبارہ آنٹی کو چودنے کو موقعہ نہیں ملا ۔۔۔ ہاں جھٹ پٹ کس کر لیتا تھا یا ان کے ہاتھ میں لن پکڑا لیتا تھا ۔۔۔ لیکن اس کے بعد مجھے اس شاندار عورت کوچودنے کو موقعہ نہ مل سکا تھا ۔۔۔اسی طرح ۔ادوسری طرف ۔نازیہ کے ساتھ میری دوستی عروج پر تھی لیکن وہاں بھی مجھے کوئی ایسا موقعہ ہاتھ نہ لگ رہا تھا کہ جس سے میرا لن ٹھنڈا ہوتا ۔۔۔ ایک دن کی بات ہے کہ اس دن صبع سے ہی کافی بادل چھائے ہوئے تھے ۔۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ بائیک پر آفس جایا جائے کہ نہیں یا چھٹی ماری جائے لیکن مسلہ یہ تھا کہ اس دن کچھ ایسے کام تھے کہ میں آفس سے چھٹی نہ کر سکتا تھا اور اسی شش و پنج میں تھا کہ اگر بارش شروع ہو گئی تو بڑی خواری ہو گی ۔۔۔ پھر سوچا کہ چلو ٹیکسی پر چلتے ہیں ۔۔۔۔ لیکن آخری تاریخیں ہونے کی وجہ سے ۔۔۔ ٹیکسی پرجانا ۔بھی ۔۔ مشکل تھا ۔۔۔ چنانچہ نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے یہی فیصلہ کیا کہ اپنی بائیک پر ہی آفس جایا جائے ۔۔۔اور پھر میں نے اپنی پھٹ پھٹی سٹارٹ کی اور آفس پہنچ گیا ۔۔۔ سارے راستے میں ڈرتا ہی رہا کہ کہیں بارش نہ شروع ہو جائے ۔۔۔ لیکن خیریت ہوئی کہ میرے آفس پہنچتے پہنچتے بارش یہ ہوئی البتہ ٹھنڈی اور مست ہوا چلتی رہی ۔۔۔۔ جس کو وجہ سے موسم بڑا خوش گوار ہو گیا ۔۔۔اور میں یہ سہانا موسم انجوائے کرتا ہوا اپنے آفس پہنچ گیا ۔۔۔
ابھی مجھے اپنی سیٹ پر بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک میرے موبائیل پر ایک ایس ایم ایس آیا میں نے موبائیل آن کر کے دیکھا تو وہ ایس ایم ایس ۔۔ نازیہ کا تھا اور اس نے لکھا تھا۔۔
موسم ہے بارش کا اور یاد تمھاری آتی ہے
بارش کے ہر قطرے سے آواز تمھاری آتی ہے
ابھی میں نازیہ کا پہلا ایس ایم ایس ہی پڑھ رہا تھا کہ اوپر سے اس کا دوسرا ایس ایم ایس بھی آ گیا اس میں اس نے لکھا تھا
رم جھم رم جھم برس رہی ہے
یاد تمھاری قطرہ قطرہ ۔۔۔۔
نازیہ کا یہ میسج پڑھ کے میں بڑا حیران ہو گیا ہوا۔۔۔اور اس کو جوابی میسج کیا کہ مس نازیہ آپ کے میسج تو بہت اچھے ہیں لیکن آپ نے ان کو غلط پتہ پر بھیج دیا ہے میرے خیال میں تو یہ پیغام معاذ کے لیے بنتا تھا ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد مجھے پھر سے نازیہ کا جواب موصول ہوا اس نے لکھا تھا ۔۔۔ میں نے بلکل ٹھیک پتہ پر ٹھیک میسج بھیجے ہیں مسڑ شاہ۔۔۔اور اس کے نیچے لکھا تھا ۔۔ ساون کے دن آئے ساجن جھولا کون جھلائے۔۔۔یہ بات پڑھ کے میں نے اس کو لکھا کہ ۔۔۔ ڈئیر نازیہ تمھارا جھولا تو میں جھولا دوں ۔۔۔ لیکن اگر اوپر سے معاذ آ گیا تو ؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ اس نے جوب میں لکھا ۔۔ یہ تم نے کیا معاذ معاذ لگ ا رکھا ہے وہ اپنے آفس کے کام سے لاہور گیا ہوا ہے ۔۔ ۔۔ معاذ کا لاہورکا سن کر مجھے ایک کمینی سی خوشی ہوئی اور میں نے اس سے کہا ۔۔۔ اب میں سمجھا اور پھر ۔۔قدرے مزاحیہ انداز میں تحریر کیا ۔۔۔ تم اپنے لان میں جھولا ڈالو میں شام کو آ کے جھلا دوں گا میرے میسج کے جواب میں اس نے لکھا ۔۔۔۔ جی نہیں ۔۔۔ جھولا جھولنے پر اس وقت من کر رہا ہے اور آپ مجھے شام کا ٹائم دے رہئے ہیں آنا ہے تو ابھی آؤ کہ۔۔۔ شام کو تو ماما بھی آ جائیں گی۔۔۔ ماما کا گھر میں نہ ہونے کا سُن کر میرے لن نے ایک انگڑائی لی اور مجھ سے بولا ۔۔۔ سالے تُف ہےتم پر۔۔لڑکی اتنے کھلے اشارے دے رہی ہے اور تم ہو کہ ۔۔۔۔ میں نے اپنے لن کی بات بڑے دھیان سے سُنی اور اس کو لکھا ۔تم جھولا ڈالو ۔۔۔ میں آفس کا کام ختم کر کے تمھارے پاس آ رہا ہوں ۔۔۔میرے میسج کے جواب میں اس نے لکھا ۔۔ آفس گیا بھاڑ میں ۔۔۔تم ابھی اور اسی وقت میرے پاس آؤ ۔۔۔ پھر آگے لکھا تھا ۔۔۔یاد ہے تم نے ایک دفعہ ایک درخواست کی تھی ۔۔۔ تو آج تمھاری درخواست منظور کر لی گئی ہے ۔۔تم جتنا جلدی میرے گھر آ جاؤ گے تمھارے لیئے اتنا ہی بہتر ہو گا ۔۔۔
موسم ہے بارش کا اور یاد تمھاری آتی ہے
بارش کے ہر قطرے سے آواز تمھاری آتی ہے
ابھی میں نازیہ کا پہلا ایس ایم ایس ہی پڑھ رہا تھا کہ اوپر سے اس کا دوسرا ایس ایم ایس بھی آ گیا اس میں اس نے لکھا تھا
رم جھم رم جھم برس رہی ہے
یاد تمھاری قطرہ قطرہ ۔۔۔۔
نازیہ کا یہ میسج پڑھ کے میں بڑا حیران ہو گیا ہوا۔۔۔اور اس کو جوابی میسج کیا کہ مس نازیہ آپ کے میسج تو بہت اچھے ہیں لیکن آپ نے ان کو غلط پتہ پر بھیج دیا ہے میرے خیال میں تو یہ پیغام معاذ کے لیے بنتا تھا ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد مجھے پھر سے نازیہ کا جواب موصول ہوا اس نے لکھا تھا ۔۔۔ میں نے بلکل ٹھیک پتہ پر ٹھیک میسج بھیجے ہیں مسڑ شاہ۔۔۔اور اس کے نیچے لکھا تھا ۔۔ ساون کے دن آئے ساجن جھولا کون جھلائے۔۔۔یہ بات پڑھ کے میں نے اس کو لکھا کہ ۔۔۔ ڈئیر نازیہ تمھارا جھولا تو میں جھولا دوں ۔۔۔ لیکن اگر اوپر سے معاذ آ گیا تو ؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ اس نے جوب میں لکھا ۔۔ یہ تم نے کیا معاذ معاذ لگ ا رکھا ہے وہ اپنے آفس کے کام سے لاہور گیا ہوا ہے ۔۔ ۔۔ معاذ کا لاہورکا سن کر مجھے ایک کمینی سی خوشی ہوئی اور میں نے اس سے کہا ۔۔۔ اب میں سمجھا اور پھر ۔۔قدرے مزاحیہ انداز میں تحریر کیا ۔۔۔ تم اپنے لان میں جھولا ڈالو میں شام کو آ کے جھلا دوں گا میرے میسج کے جواب میں اس نے لکھا ۔۔۔۔ جی نہیں ۔۔۔ جھولا جھولنے پر اس وقت من کر رہا ہے اور آپ مجھے شام کا ٹائم دے رہئے ہیں آنا ہے تو ابھی آؤ کہ۔۔۔ شام کو تو ماما بھی آ جائیں گی۔۔۔ ماما کا گھر میں نہ ہونے کا سُن کر میرے لن نے ایک انگڑائی لی اور مجھ سے بولا ۔۔۔ سالے تُف ہےتم پر۔۔لڑکی اتنے کھلے اشارے دے رہی ہے اور تم ہو کہ ۔۔۔۔ میں نے اپنے لن کی بات بڑے دھیان سے سُنی اور اس کو لکھا ۔تم جھولا ڈالو ۔۔۔ میں آفس کا کام ختم کر کے تمھارے پاس آ رہا ہوں ۔۔۔میرے میسج کے جواب میں اس نے لکھا ۔۔ آفس گیا بھاڑ میں ۔۔۔تم ابھی اور اسی وقت میرے پاس آؤ ۔۔۔ پھر آگے لکھا تھا ۔۔۔یاد ہے تم نے ایک دفعہ ایک درخواست کی تھی ۔۔۔ تو آج تمھاری درخواست منظور کر لی گئی ہے ۔۔تم جتنا جلدی میرے گھر آ جاؤ گے تمھارے لیئے اتنا ہی بہتر ہو گا ۔۔۔
نازیہ کا اتنا کھلا پیغام ملتے ہی میں نے آفس کے کام کو خیر آباد کہا اور منہ پر مسکینی طاری کر کے باس کے پاس جا پہنچا اور اس سے عرض کی کہ جناب میرے نانا جی کو دل کا دورہ پڑا ہے اور وہ اس وقت پمز ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔۔۔ اس لیئے مجھے دو گھنٹے کی شارٹ لیو عنائیت فرمائی جائے ۔۔۔ میری بات سُن کر باس نے میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ باس کو اپنی طرف متوجہ پا کر میں نے اپنی آنکھوں میں نمی لائی ۔۔۔ اور ایک بہت ہی ٹھنڈا سانس بھر کر بولا۔۔۔۔ سر میرے نانا۔۔۔۔اور منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ میری اس شاندار ایکٹنگ کا باس پر خاطر خواہ اثر ہوا ۔۔اور وہ بولا ۔۔۔ بزرگ بہت بڑی نعمت ہوتے ہیں ۔۔۔ تم فوراً جاؤ ۔۔۔ تو میں نے کام کے بارے میں بات کی تو وہ کہنے لگے ۔۔۔ تم فوراً پمز پہنچو۔۔۔۔۔ باقی کام تو ہوتے رہتے ہیں۔۔۔۔ ان کی بات سُن کر میں وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا اور بائیک پر بیٹھ کر سیدھا نازیہ کے گھر پہنچ گیا سڑک پر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔۔۔ اور گھنے بادلوں کی وجہ سے دن بھی رات کا منظر پیش کر رہا تھا ۔۔غرض موسم بڑا سہانا اور رنگین تھا۔۔۔۔۔۔اور جا دروازہ کھٹکھٹایا ۔۔۔
دروازہ نازیہ نے ہی کھولا اس وقت اس نے ایک کالے رنگ کی شال اوڑھی ہوئی تھی ۔۔۔ مجھے دیکھ کر بولی بائیک بھی اندر کھڑی کر دو اور سارا گیٹ کھول دیا ۔۔۔۔ میں نے بائیک کھڑا کیا اور ہم برآمدے میں پہنچ گئے جہاں پر پہلے سے ہی دو کرسیاں اور ایک میز پڑا تھا اور میز پر چائے کے سامان کے ساتھ خاص بات یہ تھی کہ پکوڑے بھی پڑے ہوئے تھے جو کہ برسات کی خاص سوغات تھی ۔۔۔۔ پھر اس نے مجھے وہاں بٹھا یا اور کہنے لگی ۔۔۔ میں چائے لیکر ابھی آئی اور پھر چند ہی لمحوں کے بعد وہ چائے بھی لے آئی اور میرے سامنے بیٹھ گئی۔۔۔ اور میری طرف دیکھنے لگی۔میں تو پہلے ہی اس کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔ ۔ اور ۔۔۔ وہ میری طرف ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی کہ مجھےایک غزل کے چند مصرے یاد آ گئے ۔۔۔۔۔چنانچہ میں نے نازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
نظر جب اس سے ملتی تھی
میں خود کو بھول جاتا تھا
بس ایک دھڑکن دھڑکتی تھی
میں دل کو بھول جاتا تھا
چائے بناتے بناتے اس نے میری طرف دیکھا اور بولی ۔بڑی شاعری فرما رہے ہو خیریت تو ہے نا ۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا مس نازیہ میں شاعری نہیں فرما رہا بلکہ تم کو دیکھ شاعری خود بخود میرے ہونٹوں سے نکلتی جا ر ہی پھر میں نے اس سے کہا کہ نازیہ جی یہ شال تم پر بڑی جچ رہی ہے ۔۔۔ تو وہ میری طرف دیکھ کربولی ایسے مت بولو۔۔ تم پہ بھی تو یہ شرٹ بہت سوٹ کر رہی ہے تو میں نے اس کہا ۔۔تم ٹھیک کہتی ہو لیکن اور پھر اس یہ شعر سنایا ۔۔۔
اسے ملنے سے پہلے میں بہت سجتا سنورتا تھا
مگر جب وہ سنورتی تھی میں خود کو بھول جاتا تھا
شعر سُن کر وہ بولی ۔۔۔۔۔۔ مجھے بناؤ مت ۔میں تو کوئی بنی سنوری نہیں ہوں میں تو بس بارش کو انجوائے کرنے کے لیئےیہ عام سا لباس پہنا ہے تو میں نے اس سے کہا کہ اندازہ کرو تم اس عام سے لباس میں بھی قیامت ڈھا ۔۔۔رہی ہو میری بات سُن کر اس کا چہرہ شرم سے گل نار ہو گئی اور مجھے چائے کی پیالی دیتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ لو چائے پیو۔۔۔ میں نے اس کے ہاتھ سے چائے کا کپ پکڑا اور ہم چائے پیتے ہوئے باتیں کرنے لگا ۔۔۔۔ ہمارے کپوں میں ابھی چائے ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ اچانک ۔۔۔ بارش شروع ہو گئی بارش کا پانی دیکھتے نازیہ مست ہو گئی اور میری طرف دیکھ کر بولی آؤ نہاتے ہیں ۔۔۔۔ اور میراجواب سُنے بغیر اس نے اپنے جوتے اتارے اور شال کو کرسی پر رکھا اور بھاگ کر اپنے چھوٹے سے لان میں پہنچ گئی ۔۔اور دونوں بازو پھیلا کر ہلکی ہلکی بارش کا مزہ لینے لگی۔۔۔ اور پھر مجھے بھی اشارے سے اپنے پاس بلایا ۔۔ اس کا اشارہ دیکھ کر میں بھی اپنی سیٹ سے اُٹھا اور اپنی پینٹ میں پڑیں چیزیں نکال کر میز پر رکھیں اور شرٹ اور بوٹ وغیرہ اتار کر اس کے پاس لان میں چلا گیا ۔۔۔مجھے دیکھ کر وہ بولی ایسے ہی رہنے دیتے نا۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف دیکھا اور بولا ۔۔ نہیں مجھے ننگا نہانا پسند ہے ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ شرارت سے بولی تو پھر پینٹ کیں پہنی ہوئی ہے۔۔یہ بھی اتار دیتے۔۔۔ابھی اس نے اتنی ہی بات کی تھی کہ میں نے جھٹ سے اپنی پینٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی۔۔۔۔ ۔۔ارے ارے۔۔۔۔ میں نے تو مزاق کیا تھا ۔تم تو سیریس ہی ہو گئے۔۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی ۔۔۔۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔۔۔ اور میں اور وہ بارش میں نہاتے ہوئے مسلسل ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ تب وہ ہولے سے بولی ۔۔۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ کا دھیان بارش کی طرف کم اور میری طرف زیادہ ہے ۔۔۔ پھر بولی آپ مجھے گھورنا بند کریں اور اور ۔۔۔ بارش کا مزہ لیں نا ۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں نے اس کو گھورنا بند کیا اور اس کےسراپے کا جائزہ لینے لگا ۔۔۔۔ اس نے پیلے رنگ کی پتلی سی لون کی قمیض پہنے ہوئی تھی ۔اور اس قمیض کے نیچے کالے رنگ کی برا تھی ۔۔۔ بارش کا پانی گرنے کی وجہ سے اس کی قمیض گیلی ہو کر اس کے بدن کے ساتھ چپک رہی تھی اور اس کی چپکی ہوئی قمیض سے اس کا انگ انگ صاف دکھائی دے رہا تھا مزید یہ کہ بارش کے پانی سے اس کی پتلی قمیض اس کے کالے برا کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی اور برا میں سے اس کے نوگ دار نپلز اکڑے ہوئے صاف نظر آ رہے تھے ۔۔۔ ۔اور اس کے اکڑے ہوئے نپلز دیکھ کر میرے انڈروئیر میں حرارت ہوئی اور میرا لن کھڑا ہو گیا ۔۔۔ پھر میں نے اس کے مموں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔اور بلکل فلمی سٹائل میں اپنے ایک گھٹنے کو موڑا اور اس کے ہاتھ کی پشت کو چوم کر بڑے ہی دل رومینٹک انداز میں بولا ۔ آئی لو یو۔ نازیہ ۔ میری اس حرکت سے نازیہ بڑی متاثر ہوئی اور اس نے میری دیکھا اور بڑے ہی دل نشین لہجے میں بولی ۔۔آئی لو یو ٹو۔۔۔۔۔۔اس کی یہ بات سُن کر میں نے اس سے کہا نازیہ یہ شعر بھی تمھارے لیئے ہے ۔
میں اکثر ہی یہ کہتا تھا میں تم سے پیار کرتا ہوں
مگر جب وہ یہ کہتی تھی میں دنیا بھول جاتا تھا
نظر جب اس سے ملتی تھی
میں خود کو بھول جاتا تھا
بس ایک دھڑکن دھڑکتی تھی
میں دل کو بھول جاتا تھا
چائے بناتے بناتے اس نے میری طرف دیکھا اور بولی ۔بڑی شاعری فرما رہے ہو خیریت تو ہے نا ۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا مس نازیہ میں شاعری نہیں فرما رہا بلکہ تم کو دیکھ شاعری خود بخود میرے ہونٹوں سے نکلتی جا ر ہی پھر میں نے اس سے کہا کہ نازیہ جی یہ شال تم پر بڑی جچ رہی ہے ۔۔۔ تو وہ میری طرف دیکھ کربولی ایسے مت بولو۔۔ تم پہ بھی تو یہ شرٹ بہت سوٹ کر رہی ہے تو میں نے اس کہا ۔۔تم ٹھیک کہتی ہو لیکن اور پھر اس یہ شعر سنایا ۔۔۔
اسے ملنے سے پہلے میں بہت سجتا سنورتا تھا
مگر جب وہ سنورتی تھی میں خود کو بھول جاتا تھا
شعر سُن کر وہ بولی ۔۔۔۔۔۔ مجھے بناؤ مت ۔میں تو کوئی بنی سنوری نہیں ہوں میں تو بس بارش کو انجوائے کرنے کے لیئےیہ عام سا لباس پہنا ہے تو میں نے اس سے کہا کہ اندازہ کرو تم اس عام سے لباس میں بھی قیامت ڈھا ۔۔۔رہی ہو میری بات سُن کر اس کا چہرہ شرم سے گل نار ہو گئی اور مجھے چائے کی پیالی دیتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ لو چائے پیو۔۔۔ میں نے اس کے ہاتھ سے چائے کا کپ پکڑا اور ہم چائے پیتے ہوئے باتیں کرنے لگا ۔۔۔۔ ہمارے کپوں میں ابھی چائے ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ اچانک ۔۔۔ بارش شروع ہو گئی بارش کا پانی دیکھتے نازیہ مست ہو گئی اور میری طرف دیکھ کر بولی آؤ نہاتے ہیں ۔۔۔۔ اور میراجواب سُنے بغیر اس نے اپنے جوتے اتارے اور شال کو کرسی پر رکھا اور بھاگ کر اپنے چھوٹے سے لان میں پہنچ گئی ۔۔اور دونوں بازو پھیلا کر ہلکی ہلکی بارش کا مزہ لینے لگی۔۔۔ اور پھر مجھے بھی اشارے سے اپنے پاس بلایا ۔۔ اس کا اشارہ دیکھ کر میں بھی اپنی سیٹ سے اُٹھا اور اپنی پینٹ میں پڑیں چیزیں نکال کر میز پر رکھیں اور شرٹ اور بوٹ وغیرہ اتار کر اس کے پاس لان میں چلا گیا ۔۔۔مجھے دیکھ کر وہ بولی ایسے ہی رہنے دیتے نا۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف دیکھا اور بولا ۔۔ نہیں مجھے ننگا نہانا پسند ہے ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ شرارت سے بولی تو پھر پینٹ کیں پہنی ہوئی ہے۔۔یہ بھی اتار دیتے۔۔۔ابھی اس نے اتنی ہی بات کی تھی کہ میں نے جھٹ سے اپنی پینٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی۔۔۔۔ ۔۔ارے ارے۔۔۔۔ میں نے تو مزاق کیا تھا ۔تم تو سیریس ہی ہو گئے۔۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی ۔۔۔۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔۔۔ اور میں اور وہ بارش میں نہاتے ہوئے مسلسل ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ تب وہ ہولے سے بولی ۔۔۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ کا دھیان بارش کی طرف کم اور میری طرف زیادہ ہے ۔۔۔ پھر بولی آپ مجھے گھورنا بند کریں اور اور ۔۔۔ بارش کا مزہ لیں نا ۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں نے اس کو گھورنا بند کیا اور اس کےسراپے کا جائزہ لینے لگا ۔۔۔۔ اس نے پیلے رنگ کی پتلی سی لون کی قمیض پہنے ہوئی تھی ۔اور اس قمیض کے نیچے کالے رنگ کی برا تھی ۔۔۔ بارش کا پانی گرنے کی وجہ سے اس کی قمیض گیلی ہو کر اس کے بدن کے ساتھ چپک رہی تھی اور اس کی چپکی ہوئی قمیض سے اس کا انگ انگ صاف دکھائی دے رہا تھا مزید یہ کہ بارش کے پانی سے اس کی پتلی قمیض اس کے کالے برا کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی اور برا میں سے اس کے نوگ دار نپلز اکڑے ہوئے صاف نظر آ رہے تھے ۔۔۔ ۔اور اس کے اکڑے ہوئے نپلز دیکھ کر میرے انڈروئیر میں حرارت ہوئی اور میرا لن کھڑا ہو گیا ۔۔۔ پھر میں نے اس کے مموں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔اور بلکل فلمی سٹائل میں اپنے ایک گھٹنے کو موڑا اور اس کے ہاتھ کی پشت کو چوم کر بڑے ہی دل رومینٹک انداز میں بولا ۔ آئی لو یو۔ نازیہ ۔ میری اس حرکت سے نازیہ بڑی متاثر ہوئی اور اس نے میری دیکھا اور بڑے ہی دل نشین لہجے میں بولی ۔۔آئی لو یو ٹو۔۔۔۔۔۔اس کی یہ بات سُن کر میں نے اس سے کہا نازیہ یہ شعر بھی تمھارے لیئے ہے ۔
میں اکثر ہی یہ کہتا تھا میں تم سے پیار کرتا ہوں
مگر جب وہ یہ کہتی تھی میں دنیا بھول جاتا تھا
میرا شعر سن کر اس کے منہ سے ایک جلترنگ سی ہنسی پھوٹی اور اس کی یہ جلترنگ سے ہنسی کی آواز سُن کر میں کھو سا گیا اور اُٹھ کھڑا ہوا اور اس کا ہاتھ تھام کر بولا ۔۔۔ نازیہ اجازت ہو تو میں تم کو ایک کس کر لوں ۔۔۔ تو وہ شرارت سے بولی ۔۔ میں نے آپ سے بارش میں نہانے کے لیئے بلایا تھا ہے یہ بےہودہ حرکات کرنے کے لیئے نہیں۔۔۔ اس لیئے جناب براہِ کرم ۔۔ میری طرف بڑھتے ہوئے اپنے منہ کو قابو میں رکھیں اور برسات کا مزہ لیں ۔۔ لیکن میرا منہ کہاں قابو میں رہتا تھا۔۔اور میرا منہ اس کے منہ کے قریب ہو گیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر اس نے اپنا منہ دوسری طرف گھمایا اور بولی ۔۔۔۔ پلیززززززززز ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی بارش کا موٹا سا قطرہ اس کے لال ہوتے گالوں پر پڑا اور میں نے زبان نکال کر اس کے لال ہوتے گال پر بارش کا یہ قطرہ چاٹ لیا۔۔۔ یہ دیکھ کر اس کے منہ سے منکلا ۔۔۔س۔سس۔۔ مت کرو نا۔۔۔ پھر میں نے اپنی زبان اس کے ہونٹوں کی طرف کی اور اس کے ہونٹوں پر لگی نمی کو بھی چاٹ لیااور پھر اس کے ہونٹؤں کی نمی سے نم ہونے والی اپنی زبان کو اس کے ہونٹوں پر پھیرنا شروع کر دیا ۔۔۔ میری اس حرکت سے نازیہ نے ایک سسکی لی ۔۔۔۔اور بس اتنا ہی بولی۔۔۔ بارش۔ش۔ش۔۔۔ اور اس کے قبل کہ وہ کچھ مزید کہتی میں نے اس کے نیچے والے ہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں لیا اور اسے چوسنے لگا۔۔۔ نازیہ کے بدن نے ایک انگڑائی لی اور میں نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اس کو اپنے ساتھ چپکا لیا ۔۔۔ میرے سینے کے ساتھ لگتے ہی اس کے نوک دار نپلز میری چھاتی کے ساتھ لگ گئے اور اس کے اکڑے ہوئے نپلز کے ٹچ کا مزہ میرے سارے بدن میں پھیل گیا۔اور میرے اندر شہوت کا گھوڑا سر پٹ دوڑنے لگا ۔۔ ہونٹ چوستے چوستے میں نے اپنی زبان نازیہ کے منہ میں ڈال دی اور اس کی زبان سے اپنی زبان کو ٹکرانا شروع کر دیا ۔۔۔ نازیہ کے منہ سے اس کی زبان سے مجھے مست مہک آ رہی تھی اور میں پُرجوش طریقے اس کی زبان اور ہونٹوں کو چوس رہا تھا۔
طویل کسنگ کے بعد میں نازیہ سے الگ ہوا ۔۔۔اور اس کے بدن کے ساتھ چپکی ہوئی قمیض کو اتارنے لگا ۔۔۔ اور پھر اس کی قمیض اتار تے ساتھ ہی میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کی برا کا ہُک بھی کھول دیا ۔۔۔۔۔۔۔اور اب نازیہ کی ننگی چھاتیوں میرے سامنے تھیں ۔۔۔ جن کے اوپر پنک رنگ کے نوک دار نپلز اکڑے ہوئے ایک عجیب ہی بہار دکھا رہا تھے ۔۔۔ نازیہ کی چھاتیاں ننگی کر کے میں نے اپنی پینٹ اتاری اور اسے برآمدے میں پھینک دیا اب میں بھی صرف انڈروئیر پہنے نازیہ کے سامنے کھڑا تھا اس وقت میرالن اکڑا ہوا تھا اور اس کا رُخ آسمان کی طرف تھا میرا خیال ہے کہ نازیہ میرے انڈر وئیر کے ابھار سے میرے لن کے سائز کا اندازہ لگا رہی تھی کہ میں نے اس کو بازو سے پکڑا اور اسے گھما کر میں اس کے پیچھے کی طر ف آ گیا ۔۔ اور پھر میں نے اپنا لن ہاتھ میں پکڑا اور نازیہ کو تھوڑا سا جھکا کر ا س کی گانڈ کے چھید میں اپنا موٹا لن پھنسا لیا اور پھر دونوں ہاتھ سامنے لے گیا اور اپنے دونوں ہاتھوں میں نازیہ کی شاندار چھاتیاں پکڑیں اور ان کو دبانے کے ساتھ اپنے دونوں ہونٹ جوڑ کر اس کی پشت کو چومنے لگا ۔۔۔ اب پوزیشن یہ تھی کہ میرا لن نازیہ کی گانڈ کی دراڑ میں پھنسا ہوا تھا میرے ہاتھ نازیہ کی دونوں چھاتیوں پر تھے اور میرے ہونٹ اس کے ننگے کندھوں سے چپکے ہوئے تھے ۔۔ میری اس واردات سے نازیہ کا برا حال ہو گیا اور وہ ۔۔۔ لزت آمیز سیکیاں لینے لگی ۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔ ادھر میں اپنے ہونٹوں سے مسلسل اس کی پشت کو چومتا رہا جس سے نازیہ کی آگ مزید بھڑک اُٹھی اور وہ بے چین ہو گئی اور لزت آمیز سسکیاں لیتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔جان۔۔۔۔ مجھے ۔۔۔۔ اپنا پکڑا نا۔۔۔ آہ ۔۔سس۔سس ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے ایک دم سے اپنی گانڈ کی دراڑ کو میرے لن کے گرد کسنا شروع کر دیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اس کی پشت کو چومنا موقوف کر دیا اور پیچھے سے اکے اکڑے ہوئے نپکز کو اپنی دونوں انگلیوں میں پکڑا اور ان کو مسلنے لگا۔۔۔
میرے اس عمل سے نازیہ کو مزید آ گ لگ گئی اور وہ تڑپتے ہوئے اپنی گانڈ کو میرے لن کے گرد مزید سکیڑنے لگی اب میں نے اس کی چھاتیوں سے اپنے ایک ہاتھ ہٹایا اور اسے نیچے کی طرف لاتے ہوئے ۔۔۔ اس کی شلوار کے آزار بند پر آ گیا لیکن اس نے آزار بند کی بجائے۔۔۔۔ اپنی شلوار میں الاسٹک پہنا ہوا تھا ۔۔۔ چنانچہ میں تھوڑا پیچھے ہو کر لن اس کی گانڈ کی دراڑ سے نکلا اور پھر کھینچ کر اس کی شلوار نیچے کر دی اور اس کو ٹانگیں کھولنے کو کہا۔۔ نازیہ نے ایسا ہی کیا اور میں نے ایک دفعہ پھر اپنا لن اس کی ننگی گانڈ کی دراڑ میں پھنسا دیا ۔۔۔ تو وہ اپنا منہ پیچھے کی طرف کر کے بڑی ہی سیکسی آواز میں کہنے لگی۔۔۔ تم بھی اپنا انڈروئیر نیچے کرو نہ اور پھر اس نے خود ہی میرا انڈر وئیر کھینچ کر نیچے کر دیا اور میں نے اپنا ننگا لن دوبارہ سے اس کی ننگی گانڈ کی دراڑ میں پھنسانے لگا تو وہ بولی ایک منٹ ۔۔۔اور پھر اس نے اپنے منہ سے تھوڑا سا تھوک میری ٹوپے پر اور تھوڑا سا تھوک اپنی گانڈ کے رِنگ پر لگایا اور اس کے بعد وہ تھوڑا سا جھکی اور ۔۔۔۔ میرے لن کو پکڑ کر اپنی گانڈ کے رنگ پر رکھ دیا اور ۔۔پھر۔۔۔ بڑی احتیاط سے اس نے اپنی گانڈ کو میرے لن کی طرف دبایا ۔۔۔۔ اور ۔۔میرا ٹوپا پھسلتا ہوا اس کی گانڈ کے رِنگ میں پھنس گیا۔۔۔ اس کے بعد اس نے میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔ اس سے آگے نہیں لے کر جانا ۔اور پھر اس نے بڑی مستی کے ساتھ اپنے رنگ کو میرے ٹوپے پر کسا اُف۔ف۔ف۔ف اس کی گانڈ کے نرم ٹشو نے میرے ٹوپے کو بڑا مزہ دیا ۔۔۔۔ اور میں نے اس سے کہا ۔۔ایک دفعہ اور ویسا ہی کرو پلیززز۔۔۔ اور اس نے میری طرف دیکھا اور تین چار دفعہ اپنی گانڈ کو میرے ٹوپے پر بھینچ دیا ۔۔ اور پھر کہنے لگی۔۔اب تم پھر سے میری پُشت کو چومو ۔۔۔ اور میں نے اپنے دونوں ہونٹوں کو جوڑ کر اس کی ننگے کندھے پر رکھا اور اس کو چومنے لگا اس کےساتھ ساتھ میں اپنا ایک ہاتھ نازیہ کی پھدی پر لے گیا اور وہاں اپنی انگلیوں سے اس کی چوت پر مساج کرنے لگا اس کی پھدی پر ہلکے ہلکے بال تھے۔۔۔ اور وہ بال بارش کے پانی سے گیلے ہو رہے تھے پھر میں اپنی انگلیاں اس کی چوت کے اندر کے اندر کی طرف لے گیا ۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔۔اس کی چوت سے بہت سارا پانی نکل نکل کر باہر کی طرف بہہ رہا تھا۔۔۔ میں نے اپنی انگلیاں اس کی چوت کی دراڑ میں پھیرتے ہوئے اس کے کان کی لو کو چوما اور بولا۔۔۔ نازیہ جی آپ کی چوت نے تو بہت سارا پانی خارج کیا ہوا ہے۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ نہ نہ ۔۔نہیں یہ پانی میری ۔۔۔۔۔۔۔ کا نہیں بلکہ یہ تو بارش کا پانی ہے ۔۔۔
اس کی بات سُن کر میں نے اپنی دو انگلیا ں اس کی چوت میں ڈبوئیں اور پھر باہر نکال کر اس کے آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے بولا ۔۔یہ دیکھو جان ۔۔۔ یہ میری انگلیاں تمھاری چوت کےپانی سے پچ پچ کر رہیں ہیں ۔۔۔ اور اگر یہ بارش کا پانی ہوتا تو میری انگلیاں کبھی بھی چِپ چِپ نہ کرتیں ۔۔۔ میری بات سُن کر اس نے اپنے سر کو میری طرف گھومایا کہنے لگی ۔۔ جب تم اپنا مضبوط ڈنڈا میری گانڈ میں پھنساؤ گے تو میری چوت چِپ چِپ ہی کرے گی تو کیا کرے گی اور پھر کہنے لگی ۔۔۔ میری بات سمجھے ہو نا ۔۔۔ تو میں اس کی بات سمجھ کر ۔۔۔اپنے لن کو اس کی کی گانڈ کے رنگ سے باہر نکالا اور پھر نازیہ کو پکڑ کر اندر کمرے کی طرف لے جانے لگا ۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ بولی۔۔۔۔۔ یہ تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ تو میں نے کہا کہ اندر کمرے میں ۔۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ ہم یہاں ہی سب کچھ کریں گے ۔۔۔۔ اور پھر وہ وہیں اپنے لان کی میں لگی امریکن گھاس پر لیٹ گئی اور بولی۔۔۔ دیکھو نا۔۔۔۔۔ جان یہ گھاس کس قدر نرم ہے ۔اور اوپر سے ۔۔ موسم کس قدر حسین ہے اور ایسے میں مجھے کمرے میں لے جا رہے ہو ۔۔۔ میں نے نازیہ کی بات سُن کر وہیں رُک گیا اس کی دیکھا دیکھی میں بھی نیچے گھاس پر بیٹھ گیا ۔اور ویسے ہی گھاس پر ہاتھ لگا کر دیکھا تو ۔۔۔۔واؤؤؤ۔۔۔ ان کی گھاس بڑی ہی نرم اور ریشمی تھی ۔۔۔۔ مخملی گھاس پر لیٹی نازیہ بڑی شہوت زدہ نظروں سے میری دیکھ رہی تھی اس لیئے میں گھٹوں کے بل رینگتا ہوا نازیہ کے منہ کی طرف گیا
اور پھر میں نے اپنا منہ نازیہ کے منہ کے قریب کیا ہی تھا کہ اس نے مجھ سے پہلے ہی اپنے منہ سے زبان باہر نکالی ہوئی تھی ۔۔ چنانچہ میں نے اس کی زبان کو اپنے منہ میں لیا اور چوسنے لگا ۔۔۔ اس کے منہ سے سہی مست مہک آ رہی تھی کہ جس نے مجھے پاگل کیا ہوا تھا ۔۔۔ میں نے کچھ دیر تک نازیہ کی ذائقے والی زبان کو خوب چوسا پھر میں نے اس کی زبان کو اپنے منہ سے نکلا اور اس کی گردن کو چومنے لگا۔۔۔ جیسے ہی میرے ہونٹوں نےاس کی گردن کو چھوا ۔۔۔ اس نے سسکیاں لینا شروع کر دیں۔۔۔۔۔سی سی ۔۔۔آہ۔ہ ہ۔۔اوں ں ں ں ۔۔۔اس کے بعد میں اپنے ہونٹوں کو تھوڑا اور نیچے لایا اور نازیہ کی شاندار چھاتیوں پر اکڑے ہوئے اس کے نوکیلے نپلز کو اپنے منہ میں لیا اورباری باری ان کو چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ اور پھر چوستا گیا ۔۔۔ نازیہ کے یہ نوکیلے نپلز چوسنے میں ایسے مزے دار تھے کہ میرا کے اس کی چھاتیوں منہ ہٹانے کو میرا دل نہ کر رہا تھا لیکن ابھی چھاتیوں سے بھی زیادہ مزیدار چیز میری منتظر تھی ۔۔۔۔اس لیئے میں نے اس کیے اکڑے ہوئے نپلز سے اپنا منہ ہٹایا اور اور اس کی چھاتیوں کے نیچے سے زبان پھیرنے لگا۔۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ میں اپنی زبان کو اس کی چوت کی طرف لانے لگا ۔۔۔ اور ابھی میری زبان اس کے ناف کے گول گڑھے تک جا پہنچی اور میں نے اس کے گڑھے میں خوب زبان گھومائی اور پھر آہستہ آہستہ نیچے کی طرف آ گیا۔۔۔ اور اس کو ٹانگیں کھولنے کو کہا ۔۔ میرے کہنے پر نازیہ نے اپنی دونوں ٹانگیں آخری حد تک کھول دیں ۔۔اور میں اس کی دونوں ٹانگوں کی بیچ کی جگہ پر بیٹھ گیا اور بڑے غور سے اس کی پھدی کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔ میں نے نازیہ کا لگ بھگ سارا جسم ہی چاٹا تھا لیکن مجھے اس کے جسم پر ایک بھی بال نظر نہ آیا تھا۔۔۔ لیکن اس کے بر عکس ۔۔۔ میں دیکھا کہ نازیہ کی پھدی پر سنہری رنگ کے ہلکے ہلکے بال تھے ۔۔۔ اس کی چوت گوشت سے بھری ہوئی تھی ۔۔۔۔ اور اس چوت کے ہونٹ اندر کی طرف کو تھے اسی طرح نازیہ کی چوت کو دانہ کافی موٹا اور اس وقت کافی پھولا ہو ا تھا اور اس کی دودھیا رنگ کی چوت اور سنہرے بالوں پر قدرے کتھئی رنگ کا یہ سوجھا ہوا دانہ بڑا ہی دلکش منظر پیش کر رہا تھا ۔۔اوپر آسمان پر ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اور نیچے میں ریشمی گھاس پر لیٹی نازیہ کی پھدی کا بھر پور نظارہ کر رہا تھا ۔۔ پھر میں نے اپنےدونوں ہونٹ جوڑے اور اس کی چوت پر رکھ دیئے ۔۔۔اس کی چوت سے ایک بھینی بھینی مست سی مہک آ رہی تھی ۔۔۔ میں نے اس کی چوت کی مہک کو سونگھا اور پھر اس کی گوشت سے بھر پور چوت کو چومنے لگا۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی ایک انگلی اس کی چوت میں بھی دے دی ۔۔۔۔۔۔.نازیہ کی چوت اندر سے کافی گرم اور تنگ تھی اور پانی اس میں کافی تعداد میں جمع تھا۔۔ چوت کو اچھی طرح چومنے کے بعد میں نے نازیہ کے انتہائی حَساس جِنسی عضو ۔۔یعنی کہ اس کی چوت کے عین اوپر ابھرے ہوئے کتھئی سے رنگ کے دانے کو اپنے ہونٹوں میں لیا اور اسے چوسنے لگا۔۔۔ نازیہ جو پہلے ہی سیکس کی آگ میں جل رہی تھی ۔۔ میرا ہونٹوں میں اس کے دانے کو لینے کی دیر تھی ۔۔ کہ اس نے اونچی آواز میں سسکیاں لینا شروع کر دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُف ف فف ف ف ف۔۔۔ آہ۔۔۔ اور اپنےسر کو دائیں بائیں پٹخنے لگے۔۔۔ اور بولی۔۔۔۔۔ میرا دانہ ۔۔ اُف۔ف۔ف۔ کھا جا ۔۔ اس کو۔۔آہ۔۔۔ اور چوس س س۔ اور پھر اس نے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بڑے ہی شہوت زدہ لہجے میں بولی ۔۔میرے دانے کو چوس کے نچوڑ لے۔۔آہ۔۔۔۔۔۔ اچھی طرح چوس ۔۔۔۔ اچھی طرح آہ آہ۔۔۔۔۔۔ دانہ چوسنے کے ساتھ ساتھ میں اس کے دانے کو اپنی زبان کی مدد سے چاٹتا بھی تھا ۔۔۔۔ اور ساتھ ہی نیچے سے اس کی چوت میں اپنی انگلی کو بھی خوب گھوما رہا تھا۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد میں نے اس کے دانے کو اپنےہونٹوں سے آذاد کیا اور اس کی چوت کے لبوں پر آ گیا اور پھر کچھ دیر تک اس کی چوت بھی چاٹی ۔۔۔ اسی دوران نازیہ ایک دفعہ فارغ بھی ہوئی تھی ۔۔۔ پھر نازیہ نے مجھے بالوں سے پکڑ کر اُٹھایا اور بولی۔۔۔۔ کھڑے ہو جاؤ۔۔۔ اور اس کی بات سُن کر میں اُٹھا اور اس کے سامنے گھاس پر کھڑا ہو گیا۔۔۔
جیسے ہی میں کھڑا ہو ا نازیہ بھی اپنی جگہ سے اُٹھی اور میرے سامنے اکڑوں بیٹھ گئی۔۔۔ اور میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بولی۔۔۔ جتنے تم سیکسی ہو نا اس سے 100 گنا زیادہ تمھارا لن سیکسی ہے۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنا منہ میرے لن کے قریب کر دیا اور ۔۔۔۔ اپنے منہ سے زبان باہر نکالی اور میرے موٹے سے ٹوپے پر پھیرنے لگی۔۔۔۔۔۔ اوربولی۔۔ اُف۔۔۔ کتنا گرم لن ہے تمھارا ۔۔۔اور پھر اس نے اپنا منہ کھولا اور میرے لن کو منہ میں لے لیا اور چوسنے لگی۔اس کے نرم ہونٹ اور گرم سانسوں کا میرے لن پر لگنا تھا کہ ۔۔۔ میں برداشت نہ کر سکا ۔۔اور آہستہ آہستہ کراہنے لگا۔۔۔مجھے کراہتے دیکھ کر اس نے اپنے منہ سے میرا لن نکالا اور بولی۔۔۔ تمہاری سسکیاں بڑی ۔۔۔ لزت انگیز ہیں ۔۔۔ ۔۔۔اور پھر اس کے بعد ۔۔ کافی دیر تک وہ مختلف زاویوں سےمیرے لن کو چوستی رہی اور میرے منہ سے نکلنے والی لزت آمیز کراہوں سے محظوظ ہوتی رہی۔۔
وہ کافی دیر تک میرا لن کو چوستی رہی پھر اچانک کھڑی ہو گئی ۔۔ آسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے تھے اور ان کالے بادلوں سے پھوار کی صورت میں ہلکی ہلکی بارش برس رہی تھی۔۔۔ اور اس کےساتھ ساتھ تھنڈی ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی تھی ۔۔۔۔ نازیہ نے ایک نظر آسمان کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔ کتنا حسین موسم ہے۔۔۔۔ اس کی دیکھا دیکھی میں نے بھی ایک نظر آسمان کی طرف دیکھا اور اس سے بولا ۔۔ موسم واقعہ ہی بڑا حسین ہے پر۔۔لیکن ۔ نازیہ ڈارلنگ ۔۔۔۔ تم سا حسین نہیں ہے ۔۔۔ اس نے میری بات سنی اور شرما کر میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ بناؤ مت ۔۔۔ اب میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اس کے ہاتھ کو ۔۔۔اپنے دل پر رکھ دیا ۔۔اور بولا۔۔۔۔ بے شک میرے دل سے پوچھ لو ۔۔۔ یہ صرف تمھارے نام پہ دھڑکتا ہے۔۔۔۔ اس نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھا اور میرے سینے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔ تم ٹھیک کہہ رہے ہو نا۔۔۔ تو میں نے اس کو چوم لیا اور بولا۔۔۔۔ آئی لو لو میری جان۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کا ہاتھ پکڑ کا اپنے لن پر رکھ دیا۔۔۔ اس نے اپنے ہاتھ میں میرا لن پکڑ کر بولی۔۔۔ کتنا بڑا ہے تمھارا لن ۔۔۔۔ پھر اس کو دباتے ہوئے بولی ۔۔اس کو کیا کھلاتے ہو؟ ۔؟ تو میں نے بھی اس کی طرف دیکھتےہوئےکہا کہ ۔۔میری جان میں اس کو پھدی کھلاتا ہوں۔۔۔ میری بات سُن کر اس نے بڑی نشیلی نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ صرف پھدی؟؟ تو میں نے کہا ۔۔۔نہیں ۔۔۔ اس کو گانڈ بھی کھلاتا ہوں ۔۔۔ ہونٹوں میں بھی دیتا ہوں ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ ابھی اس کو کیا کھلاؤ گے تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ ابھی میں اس کو تمھاری چوت کھلاؤں گا۔۔۔ میری بات سُن کر ایک دم اس کی آنکھوں میں ایک شرارت کوندی اور اس نے اپنے ہاتھ سے میرا لن چھوڑا اور بولی۔۔۔۔ ۔۔۔۔ تو کھلاؤ نا۔۔۔اور اپنے لان میں بھاگنے لگی۔۔۔یہ دیکھ کر میں بھی اس کے پیچھے بھاگا اور ۔۔۔ جامن کے درخت کے پاس جا کر اس کو پیچھے سے پکڑ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کو اپنے ساتھ چپکا لیا ۔۔۔ اوپر بارش ہو رہی تھی اور نیچے دو ننگے بدن آپس میں جُڑے ہوئے تھے۔۔۔اور دونوں میں ہوس کی آگ بھڑک رہی تھی ۔۔ میں نے پہلی دفعہ ۔۔۔۔ پانی کواپنے جسموں میں آگ لگاتے ہوئے دیکھا تھا۔۔ شہوت تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی ۔۔
پھر نازیہ نے خود کو مجھ سے چھڑایا اور وہیں اپنے اپنے دونوں ہاتھ آگے بڑھاکر جامن کے درخت کے تنے کو پکڑ لیا اور اپنی گانڈ کو تھوڑا پیچھے کر لیا ۔۔۔ اور پھر اپنا منہ میری طرف کر کے بولی۔۔۔ اپنے لن کو پھدی کھلاؤ نا جان۔۔۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں اس کے پیچھے گیا اور اپنے لن پر تھوڑا سا تھوک لگایا اور ٹوپا اس کی چوت پر رکھ کر ایک زوار دار گھسہ مارا تو ۔۔۔ پھسلتا ہوا میرا لن ۔۔۔ نازیہ کی تنگ چوت میں اتر گیا۔۔۔۔اور اس کےس اتھ ہی نازیہ نے ایک لزت بھری سسکی لی اور بولی۔۔۔۔ پورا ڈالنا ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ فکر نہ کرو میری جان۔۔۔ لن پورا ہی جائے گا اور ۔۔۔ پھر میں نے اپنے لن سے اس کی چوت میں پمپنگ شروع کر دی۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ فضا میں نازیہ کی مترنم اور گرم سسکیاں بھی گونجنے لگیں ۔۔۔ جو کہ انتہائی لزت آمیز تھیں۔۔۔ اور جن کو سُن کر میں اور زور سے دھکے مارتا اور وہ ۔۔۔ پیچھے مُڑ کر کہتی ۔۔۔ لن پورا گیا ہے نا۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی ۔۔ایک انتہائی لزت آمیز سی چیخ مارتی ۔۔اُف۔ف۔ف۔ف آہ ہ ہ ہ ۔۔۔ اور میں نے مسلسل پیچھے سے مسلسل دھکے مارنا شروع کر دئے ۔۔۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور مجھے رُکنے کو بولا اور جب میں نے دھکے مارنے بند کر دئے تو اس نے ہاتھ پکڑ کر میرا لن اپنی چوت سے نکلا اور بولی۔۔۔ باقی چودائی۔۔۔ گھاس پر کرو۔۔۔ اور میرے ساتھ چلتی ہوئی اپنے لان کے وسط میں پہنچ گئی اور وہاں جا کر لیٹ گئی اور اپنی ٹانگیں کافی حد تک کھولیں اور ان کو اُٹھا کر بولی۔۔۔۔۔ آ جاؤ ۔۔۔ اپنے لن کو میری پھدی کھلاؤ۔۔۔ میں اس کے ٹانگوں کی سائیڈ پر گیا اور گھٹنوں بل اس کے پاس کھڑا ہو گیا اور پھر میں نے اپنا لن ہاتھ میں پکڑا اور اس کی چوت پر رکھ کر دھکا دیا۔۔۔۔ ۔۔جیسے ہی لن اس کی چوت میں گیا ۔۔۔نازیہ نے ایک چیخ ماری۔۔۔یس۔س۔س۔س۔سس۔۔۔ اور بولی۔۔۔۔ رُکنا نہیں ۔۔ بس مجھے چودتے جاؤ ؤؤ ؤ ؤ ؤ ؤ۔۔اور پھر میں نے بنا کوئی سٹاپ کے اس کی پھدی میں دھکے مارنے شروع کر دیئے ۔۔۔اور اس کو چودتا گیا۔۔۔چودتا گیا۔۔اور وہ لزت آمیز سسکیوں میں مجھے ہلا شیری دیتی گئی اور پھر ۔۔ آخر ایک وقت وہ بھی آیا کہ میں اور وہ ایک ساتھ ایک ساتھ ہی چیخنے لگے اور مجھے پتہ چل گیا کہ میں بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جانے والا ۔۔ ہوں تو میں نے نازیہ سے کہا۔۔ نازیہ میں چھوٹنے والا ہوں ۔۔۔ تو وہ بولی ۔۔۔۔ مجھے پتہ چل گیا ہے۔۔۔ تم رُکو مت ۔۔اور مجھے چودتے جاؤؤؤ۔۔ ۔۔اور اپنے لن کی ساری پھوار ۔۔ میری چوت میں اندر تک مار دو۔۔۔۔ اور اس کے فوراً بعد ہی اس کے جسم کو جھٹکے لگنا شروع ہو گئے ۔۔۔اور پھر اس کی چوت کے سارے ہی ٹشو میرے لن کے گرد سکڑ کر اکھٹے ہو گئے اور ۔۔۔میرے لن کو چاروں طر ف سے بھینچنے لگے۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس کی چوت نے ہیچانِ شہوت میں آ کر ۔پانی چھوڑنا شروع کر دیا ۔۔۔ میرے لن نے اس کی چوت کو گرم پانی محسوس کیا ۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔اس کے ساتھ ہی ۔۔ مجھے بھی ایسا لگا کہ میری ٹانگوں کا سارا خون لن کی سمت بڑھ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس کےس اتھ ہی میرے منہ سے نکلا۔۔۔۔اوہ ہ ہ ہ ہہ ہ۔۔۔۔ اوپر آسمان سے بارش کا پانی برس رہاتھا اور نیچے نیچے زمین پر گھاس پر لیٹی نازیہ کی چوت میں میرا لن فوارے کی صورت میں اپنا پانی چھوڑ رہا تھا ۔۔۔۔ اور نازیہ کی چوت میرے اس پانی سے بھرتی جا رہی تھی ۔ میرے اور بارش کے پانی میں فرق یہ تھا کہ ۔۔ بارش کے پانی نے نازیہ کے تن بدن میں آگ لگائی تھی جبکہ ۔۔۔ میرے پانی نے اس کے تن بدن کی آگ بجھائی تھی۔۔۔۔۔
ختم شد۔۔=
Labels: بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 4 + Last
بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 3
بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 3
اس کے بعد میں کافی دنوں تک آنٹی کے گھر کا چکر نہیں لگایا ۔اور اتفاق سے نہ ہی میرا آنٹی سے کوئی آمنا سامنا ہوا کہ میں اپنی ایکٹنگ کا رزلٹ دیکھ لیتا ۔میرے ان کے گھر نہ جانے سے گاہے نازیہ پوچھتی بھی رہی لیکن میں نے دفتر کی مصروفیت کا بہانہ بنا لیا لیکن اس کے ساتھ گپ شپ ویسے ہی چلتی رہی ۔۔۔۔۔۔ایک دن کی بات ہے کہ میں آفس سے گھر آیا تو دیکھا تو آنٹی امی کے پاس بیٹھی گپیں لگا رہیں تھیں ۔۔ میں نے آنٹی کو دیکھ کر دور سے سلام کیا اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگا تو انہوں نے مجھے آواز دیکر بلایا اور بولیں ۔۔۔ کہاں جا رہے ہو ؟ ادھر تو آؤ ۔۔۔ اور میں بڑی مسکین سی شکل بنا کر آنٹی کے پاس چلا گیا ۔۔۔۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگیں ۔۔۔ کیا بات ہے ہم سے کوئی خفگی ہے ؟ جو تم نےکافی دنوں سے ہمارے گھر کا چکر نہیں لگایا ۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔ آنٹی کی بات سُن کر میرے دل میں منوں لڈو پھوٹ گئے کہ وہ مارا۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں نے ان پر یہ بات ظاہر نہ ہونے دی اور بڑی آہستگی کے ساتھ ان سے کہا ۔۔۔ وہ جی میں آپ سے ڈر گیا تھا ۔۔۔ میری بات سُن کر انہوں نے تیوری چڑھائی اور بڑی مصنوعی خفگی سے بولیں۔۔ میں کوئ چڑیل ہوں جو تم مجھ سے ڈر گئے تھے؟ یہ سُن کرمیں نے ان سے کہا کہ تو پھر میں کل سے آپ کے گھر آجایا کروں؟ میر ی بات سن کر وہ کہنے لگیں کل سے کیوں بھائی تم آج سے ہی میرے ساتھ چلو۔۔۔ نازیہ بھی تم کو بہت یاد کر رہی تھی ۔۔۔
میں تو ان سے مایوس ہو گیا تھا لیکن آنٹی کے رویے لگ رہا تھا کہ میرا تیر نشانے پر بیٹھا ہے لیکن اس کے باوجود بھی میں نے آنٹی کی طرف سے محتاط ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔چنانچہ اب جب بھی میں ان کے گھر جاتا تو میں آنٹی کو سپیشل ٹریٹمنٹ دیتا لیکن اس بات کا خاص خیال رکھتا کہ نازیہ کو میرے اس نئے عشق کی بھنک بھی نہ پڑے ۔۔ ایک دن کی بات ہے کہ حسبِ معمول میں آنٹی کے گھر گیا تو نازیہ نے دروازہ کھولا اور پوچھنے پر بتلایا کہ ماما نہا رہی ہیں ۔۔۔۔اتنے دنوں میں میرا یہ پہلا موقعہ تھا کہ مجھے نازیہ کے ساتھ تنہائی کا موقعہ ملا تھا ۔۔چنانچہ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کو سہلاتے ہو بولا ۔۔۔وہ نازیہ جی میں نے آپ سے ایک درخواست کی تھی ؟ تو وہ اٹھلاتے ہوئے بولی ۔۔ کون سی درخواست جی ۔۔ مجھے تو کچھ یاد نہیں اور ساتھ ہی مسکرا دی۔۔۔اس کا مسکرانہ تھا کہ میں نے اس کو کھیچ کر اپنے گلے سے لگا لیا اور اس کے گال چوم کر بولا ۔۔۔یہ والی درخواست۔۔۔ جیسے ہی میں نے نازیہ کو گلے سے لگایا ۔۔وہ ایک دم پیچھے ہٹی لیکن اس دوران میں اس کے گال چوم چکا تھا۔۔۔ پیچھے ہٹتے ہی وہ بڑی خوف زدہ آواز میں بولی ۔۔۔۔ تم مرواؤ گے۔۔۔ اگر اوپر سے ماما آ جاتی ۔۔۔ تو نہ تم نے بچنا تھا نہ میں نے ۔۔۔ تو میں نے اس کی بات سن کر اس سے کہا جار ب جی بات یہ ہے کہ میں تو بس آپ کو یاد دلا رہا تھا کہ ۔۔۔ اتنے میں واش روم کا دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی اور نازیہ کے چہرے پر ایک رنگ سا آ گیا ۔۔ موقعہ اچھا دیکھ کر میں نے اس سے کہا ۔۔۔ یاد آیا ۔۔۔ کہ میں دوبارہ یاد کرواؤں؟ میری بات سن کر اس نے ایک نظر آنٹی کے کمرے کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔۔ ہاں ہاں یاد آ گیا اور بھاگ گئی۔۔۔ اور میں بڑی شرافت سے چلتا ہوا ان کے ڈرائینگ روم میں جا کر بیٹھ گیا ۔۔۔
کچھ دیر بعد آنٹی کمرے میں داخل ہوئی اور ان کو دیکھ میں کھڑا ہو گیا اور یک ٹک ان کو دیکھنے لگا ۔۔۔ مجھے یوں اپنی طرف دیکھتے ہوئے وہ کہنے لگی۔۔۔ یہ۔۔تم مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو۔۔تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ آنٹی اگر آپ مائینڈ نہ کریں تو میں ایک بات کہوں تو وہ کہنے لگی بولو۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا کہ ۔۔۔اس سوٹ میں آپ اپسرا لگ رہیں ہیں ۔۔ میری بات سن کر ان کے چہرے پر لالی سی پھیل گئی اور کہنے لگیں ۔۔۔ باتیں بنانا تو کوئی تم سے سیکھے اور پھر میرے سامنے بیٹھ کر بولیں۔۔ کب آئے تو میں نے کہا بس آیا ہی ہوں ۔۔۔ میری بات سن کر انہوں نے ایک نظر کمرے کے باہردیکھا اور پھر مجھ سے بولیں ۔۔۔ نازیہ اندر آ رہی ہے ۔۔۔تم پلیز اپنی نظروں پر کنٹرول کرو۔۔ تو میں نے ان کو دیکھتے ہوئے رومینٹک لہجے میں کہا ۔۔۔ میں آپ کو نہیں دیکھ رہا ۔۔ بلکہ میری نظریں خود بخود آپ کے حسین سراپے کا طواف کر رہیں ہیں۔۔ ۔۔اتنی دیر میں نازیہ اندر داخل ہو چکی تھی ۔۔۔ اسے ۔۔۔ دیکھ کر وہ ہولے سے بولیں ۔۔ پلیز اپنی نظریں دوسری طرف کر لو۔۔۔
جیسے ہی نازیہ نے کولڈ ڈرنک کی بوتل میرے ہاتھ میں پکڑائی تو میں نے کولڈ ڈرنک پکڑتے ہوئے انگھوٹھے کی مدد سے اس کے ہاتھ پر مساج کر دیا ۔۔۔ جواب میں اس نے مجھے اپنے لمبے سے ناخن چبوئے ۔۔ اتنے میں آنٹی بولیں نازیہ بیٹے ۔۔۔ دوپہر کو مسرت آنٹی کا فون آیا تھا لیکن اس وقت آپ سوئی ہوئی تھیں ۔۔۔ کہہ رہیں تھں کہ کوئی ضروری کام ہے ابھی ان کو فون کر لو ۔۔۔ آنٹی کی بات سن کر نازیہ نے چوری چوری میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ ماما جی میں نے کوئی فون نہیں کرنا مسرت آنٹی کو ۔۔۔ تو آنٹی بولیں ۔۔۔ وہ کیوں بیٹا؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔ ماما آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ وہ فون پر کتنی لمبی بات کرتیں اُف ۔۔ بندہ بور ہو جاتا ہے پر ۔۔۔وہ اپنی ہی ہانکتی رہیتیں ہیں ۔۔ یہ سن کر آنٹی نے تھوڑے لاڈ سے کہا ایسے نہیں کہتے میرا بچہ ۔۔۔ کیا پتہ کوئی واقعہ ہی ارجنٹ کام ہو ۔۔۔ تم اس سے پوچھ لو پلیز۔۔۔ اور آنٹی کی بات سُن کر نازیہ نے ایک نظر ان کی طرف دیکھ اور بولی ۔۔ اوکے ماما ۔۔۔ اور مسرت آنٹی کو فون کرنے کے لیئے دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔۔۔
اسے جاتے دیکھ کر آنٹی نے میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ شکر ہے اس کا دھیان تمہاری نظروں پر نہیں گیا ورنہ ۔۔۔ آنٹی کی یہ بات سن کر میں صوفے سے اُٹھا اور ان کے پاس چلا گیا اور بولا ورنہ کیا ہوتا ۔۔۔؟ مجھے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر ۔۔ وہ بولیں ۔۔۔ یہ یہ ۔۔تم کیا کر رہے ہو؟ تو میں ان کے قریب بیٹھ گیا اور بولا گھبرائیں نہ میں بس جی بھر کر آپ کے حسین چہرے کو دیکھنا چاہتا ہوں۔۔ میری بات سن کر وہ ایک دم سے شرما گئیں اور بولیں ۔۔۔۔واقعہ ہی میں اتنی ۔۔کیوٹ ہوں ۔؟؟؟۔۔ یا تم ۔۔۔ مجھے بنا رہے ہو تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔ آپ خود کو میری نظروں سے دیکھیں تو پتہ چلے نا ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں ان کی طرف جھک گیا اور ۔۔۔۔ اپنے ہونٹ ان کے ہونٹوں پر رکھ دیئے ۔۔۔ اور ہلکہ سا بوسہ دے کر بولا ۔۔ آپ بڑی سیکسی ہو ڈارلنگ۔۔۔ !!! میری بات سن کر ان کے چہرے پر حیا کی لالی چھا گئی اور وہ کہنے لگیں۔۔۔ تم بھی کچھ کم نہیں ہو ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں دوبارہ ان کی طرف جھکا تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے پرے کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ کیا کر رہے ہو ۔۔ جوان بچی گھر میں ہے اگر اس نے دیکھ لیا تو وہ کیا سوچے گی؟ تو میں نے کہا ٹھیک ہے میں پرے ہو جاتا ہوں ۔۔ لیکن آپ ایک دفعہ مجھے گلے سے لگانے دیں ۔۔۔ میری بات سن کر وہ اُٹھی اور بولی ایک منٹ اور باہر چلی گئی ۔۔۔ پھر واپس آئی تو میں نے ان کہ کہنے سے پہلے ہی ان کو اپنے گلے سے لگا لیا ۔۔۔ اور آنٹی کے نرم ممے میرے سینے کے ساتھ پریس ہونے لگے ۔۔پھر میں ان کے منہ پر جھکا اور ایک دفعہ پھر ان کی ایک سیکس سے بھر پور شہوت بھرا بوسہ دے دیا۔۔۔۔
ایک دن کی بات ہے کہ چھٹی ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھی کہ میرے موبائیل پر نازیہ کے گھر سے فون آیا ۔۔۔ میں نے آن کر کے ہیلو کہا تو آگے سے آنٹی بولیں ۔۔ وہ تم نے آج ہماری طرف آنا ہے کہ نہیں تو میں نے کہا کیوں نہیں ڈارلنگ ضرور آؤں گا تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔ اگر مائینڈ نہ کرو تو " رے بین " والے سے جاوید کا چشمہ لےتں آنا ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا اوکے آتی دفعہ لے آؤں گا تو وہ کہنے لگی آتی دفعہ نہیں جی ۔۔۔ ابھی لاؤ کہ جاوید نے آ کر سب سے پہلا سوال یہی کرنا ہے ۔۔۔ ان کے لہجے میں کوئی خاص بات ضرور تھی کہ جسے سن کر میرا جسم سرشار ہو گیا اور میں نے کہا اوکے جی انکل کا چشمہ لیکر میں ابھی آیا ۔۔۔اور پھر باس کو بتا کر سیدھا” رے بین “والے کے پاس گیا وہ میرا واقف تھا ۔۔۔ چنانچہ وہاں سے انکل کا چشمہ لیکر میں سیدھا ان کے گھر چلا گیا ۔۔۔
میری دستک پر جیسے ہی آنٹی نے دروازہ کھولا تو انہیں دیکھ کر میں دنگ ہی رہ گیا ۔۔ کیونکہ وہ بڑے اہتمام سے تیار ہوئی ہوئیں تھی ۔۔۔ان کو اتنا تیار شیار دیکھ کر میں نے ان سے کہا ۔۔۔ واؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔ آنٹی جی آج تو آپ قیامت لگ رہیں ہیں ۔۔۔ تو وہ بولیں ۔۔ ہٹ بے شرم ۔۔۔۔۔ میری کون سی عمر ہے قیامت لگنےکی ۔۔۔ اور مجھے اندر آنے کا راستہ دے دیا ۔۔۔۔۔۔اندر داخل ہو کر میں نے ان کو چشمہ دیتے ہوئے کہا خیریت ہے آپ نے اتنی جلدی کیوں بلایا ۔۔۔ پھر میں نے ادھر ادھر دیکھا اور بولا ۔۔۔ نازیہ کاہں ہے ؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔ اس کی کسی دوست کی برتھ ڈے تھی وہ صبع سے ہی وہاں گئی ہوئی ہے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ نہیں گئیں؟ تو وہ بولیں ۔۔۔ یار برتھ ڈے پارٹی رات کو ہے۔۔اس لیئے ہم سب رات کو ہی جائیں گے نا ۔۔ نازیہ تو اس لیئے گئی کہ وہ اپنی دوست کی کھانے پکانے میں کچھ ہیلپ کرسکے ۔۔۔۔ اور دروازہ بند کر کنڈی لگا دی ۔۔۔۔ اب میں نے آنٹی کو اپنی باہنوں میں بھرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ۔۔۔۔ ہم تم۔۔۔ اس مکان میں اکیلے ہیں ۔۔۔ تو انہوں نے ہاں میں سر ہلا کر کہا ۔۔۔ لیکن دیکھو۔۔۔کوئی بدتمیزی نہیں چلے گی۔۔۔ لیکن یہ بد تمیز کہاں باز آنے والا تھا۔۔
آنٹی نے اپنے موٹے سے ہونٹوں پر سُرخ رنگ کی سرخی لگائی ہوئی تھی جو ان کے گورے چہرے پر بڑی جچ رہی تھی۔۔اور ان کے یہ سرخ ہونٹ مجھے اور میرے لن کو بڑے تنگ کر رہے تھے۔۔اس لیئے میں آنٹی کے تھوڑے قریب ہو گیا یہ دیکھ کو وہ تھوڑا سا کسمائی اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں؟؟ کک کیا کرنے لگے ہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میں بولا کچھ نہیں ۔۔لیکن چلتا ہوا آنٹی کے بلکل قریب جا کھڑا ہوا اور اپنے دونوں ہاتھوں میں ان کے چہرے کو پکڑ کر بولا ۔۔۔آنٹی آپ کے ہونٹوں پر یہ سرخ سرخی قیامت ڈھا رہی ہے اور پھر اپنا منہ ان کے منہ کے قریب کرنے لگا ۔۔۔۔ جب میرے ہونٹ ان کے ہونٹوں سے چند سینٹی میٹر رہ گئے تو اچانک آنٹی بولیں ۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ایسے نہ کرو پلیز ۔۔۔ لیکن میں نے ان کی کوئی بات نہ سُنی اور اپنا منہ ان کے کان کے قریب لے گیا اور سرگوشی میں بولا ۔۔۔ آنٹی آپ کے ہونٹ بڑے پیارے لگ رہے ہیں میں بس تھوڑا سا ہی ان کو چوسو ں گا ۔۔۔ پہلے تو آنٹی نے کافی انکار کیا اور میرے بازؤوں کے حصار سے نکلنے کی بڑی کوشش کی لیکن بے سود۔۔۔ پھر وہ ہار مان گئیں اور ۔۔۔ میری طرف دیکھ کر کہنے لگیں ۔۔ وعدہ کرو کس کرنے کے بعد تم یہاں سے چلے جاؤ گے؟ تو میں نے کہا ٹھیک ہے میں چلا جاؤں گا ۔۔۔اب مجھے کس کرنے دیں ۔۔ اب میں نے اپنے ہونٹ ان کےسرخ ہونٹوں پر رکھے اور ان کا رس چوسنے لگا۔۔ ان کے منہ سے ایک عجیب سی مہک آ رہی تھی جو مجھے بھی مست سے مست تر بنا رہی تھی ۔۔۔۔کچھ دیر بعد میں نے اپنی زبان ان کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی تو وہ اچانک الگ ہو گئیں اور بولیں ۔۔۔ بس۔ پلیز اب تم یہاں سے جاؤ۔
میں بولا کچھ نہیں ۔۔لیکن چلتا ہوا آنٹی کے بلکل قریب جا کھڑا ہوا اور اپنے دونوں ہاتھوں میں ان کے چہرے کو پکڑ کر بولا ۔۔۔آنٹی آپ کے ہونٹوں پر یہ سرخ سرخی قیامت ڈھا رہی ہے اور پھر اپنا منہ ان کے منہ کے قریب کرنے لگا ۔۔۔۔ جب میرے ہونٹ ان کے ہونٹوں سے چند سینٹی میٹر رہ گئے تو اچانک آنٹی بولیں ۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ایسے نہ کرو پلیز ۔۔۔ لیکن میں نے ان کی کوئی بات نہ سُنی اور اپنا منہ ان کے کان کے قریب لے گیا اور سرگوشی میں بولا ۔۔۔ آنٹی آپ کے ہونٹ بڑے پیارے لگ رہے ہیں میں بس تھوڑا سا ہی ان کو چوسو ں گا ۔۔۔ پہلے تو آنٹی نے کافی انکار کیا اور میرے بازؤوں کے حصار سے نکلنے کی بڑی کوشش کی لیکن بے سود۔۔۔ پھر وہ ہار مان گئیں اور ۔۔۔ میری طرف دیکھ کر کہنے لگیں ۔۔ وعدہ کرو کس کرنے کے بعد تم یہاں سے چلے جاؤ گے؟ تو میں نے کہا ٹھیک ہے میں چلا جاؤں گا ۔۔۔اب مجھے کس کرنے دیں ۔۔ اب میں نے اپنے ہونٹ ان کےسرخ ہونٹوں پر رکھے اور ان کا رس چوسنے لگا۔۔ ان کے منہ سے ایک عجیب سی مہک آ رہی تھی جو مجھے بھی مست سے مست تر بنا رہی تھی ۔۔۔۔کچھ دیر بعد میں نے اپنی زبان ان کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی تو وہ اچانک الگ ہو گئیں اور بولیں ۔۔۔ بس۔ پلیز اب تم یہاں سے جاؤ۔
ان کے کہنے پر بھلا میں کہاں جانے والا تھا اس لیئے میں نے ان سے کہا کہ بس ایک اور فائینل کس دے دیں تو میں چلا جاؤں گا ۔۔۔تو وہ بولیں ۔۔وعدہ۔۔۔ تو میں جھٹ کہہ دیا وعدہ ۔۔ اور پھر سے میں نے ان کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیئے اور ان کے ہونٹ چوستے چوستے بڑی نرمی سے اپنی زبان کو ان کے منہ میں داخل کرنے لگا۔۔۔ جیسے ہی میں نے اپنی زبان کو ان کے منہ میں ڈالا انہوں نے پہلے تو اپنے منہ کو نہ کھولا اور میری زبان کو اپنے منہ میں داخل نہ ہونے دیا لیکن میرے مسلسل ٹرائی سے انہوں نے ہلکا سا اپنا منہ کھولا اور میں نے موقعہ دیکھ کر ان کے منہ میں اپنی زبا ن ڈال دی اور کچھ ہچکچاہٹ کے بعد انہوں نے اپنی ٹیسٹی زبان کو میری زبان کے ساتھ ملا دیا ۔۔۔اور پھر جب میری ٹیسٹی زبان اس کی ٹیسٹی زبان سے ٹکرائی تو اچانک آنٹی کانپ اُٹھی اور میرے ساتھ چمٹ گئی۔۔ ۔۔۔ آنٹی کی زبان چوسنے کے ساتھ ساتھ میں نے ایک ہاتھ ان کی رائیٹ پستان پر رکھااور دوسرا ہاتھ ان کی قیمض کے پیچھے لے گیا ۔۔۔ اور ان کی زپ کا ہک پکڑا اور اسے دھیرے دھیرے نیچے لانے لگا ۔۔۔ادھر آنٹی اپنی زبان چوسوانے میں اتنی مگن تھیں کہ پہلے تو ا ن کو سمجھ ہی نہ آئی کہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے لیکن جب انہوں نے اس بات پر غور کیا تو اس وقت تک دیر ہو چکی تھی اور میں ان کی قمیض کی ساری زپ کھول چکا تھا ۔۔۔۔ یہ جان کر انہوں نے میرے منہ سے اپنا منہ ہٹایا اور بولیں ۔۔۔ دیکھو تم وعدہ خلافی کر رہے ہو؟ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔ نہیں میری جان میں وعدہ خلافی کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔۔ میں تو بس آپ کے یہ شاندار دودھ کا نظارہ کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ میری بات سن کر آنٹی نے سراسر مصنوعی خفگی سے کہا ۔۔۔ اُف ۔فو ۔۔۔ کیا مصیبت ہے کبھی کہتے ہو کہ صرف ہونٹ چومنے ہیں اور کبھی میرے دودھ پر نظر رکھتے ہے ۔۔۔۔۔ پھر بولیں نو نو میں یہ نہیں کر سکتی اب تم پلیز یہاں سے جاؤ۔۔۔
میں نے آنٹی کی بات سنی ان سنی کر دی اور ایک دم ان کو گلے سے لگا لیا اور ایک کس کر دی اور اس کے ساتھ ہی ان کی قمیض کے اندر ہاتھ ڈال کے ان کے دودھ پکڑ لیئے ۔۔۔۔ اور ان کو دبانے لگا۔۔۔اور پھر کچھ دیر بعد میں نے ان کی برا ۔اوپر کی اور ان کے ایک دودھ پر اکڑا ہوا نپل اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسے مسلنے لگا۔۔۔
اب آہستہ آہستہ آنٹی بھی ڈرامہ چھوڑ کر میرے ساتھ سیکس کا مزہ لینے لگ پڑی تھیں۔۔ کچھ دیر تک نپلز مسلنے کے بعد میں نے جب ان کی قمیض اوپر کی تو انہوں نے ہلکا سا احتجاج کیا اور بولی ۔۔۔۔ نہ کرو نہ۔۔۔۔ پلیزززززززززز۔۔۔لیکن میں نے ان کا نپل اپنے منہ میں لیا اور اسے چوسنے لگا۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر آنٹی کے منہ سےضبط کے باوجود ۔۔ہلکی ہلکی ۔۔لزت آمیز کراہیں۔۔۔ نکلنا شروع ہو گئیں۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ تم بڑے بد تمیز ہو۔۔۔ اُف ف ف ف ف۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ میں نے دوسرے ہاتھ سے آنٹی کی ننگی کمر پر مساج کرنا کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔جس سے ان کو بڑا مزہ اور وہ ۔۔سس۔سس۔ آہ ہ ہ ہ۔۔۔ کرنے لگ پڑیں۔۔۔۔۔
جب میں نے دیکھا کہ اب بڑی حڈ تک آنٹی کی مزاحمت دم توڑ چکی ہے تو میں نے اپنا ہاتھ ان کی کمر سے ہٹایا اور نیچے ان کی شلوار تک آ گیا اور ایک دم سے ان کی شلوار کے آزار بند پر ہاتھ رکھا اور آنٹی کی شلوار کھول دی ۔۔۔۔جس سے آنٹی کی شلوار نیچے زمین پر گر گئی اور جیسے ہی میں نے اپنا ہاتھ ان کی چوت کی طرف لے جانا چاہا ۔۔۔۔۔ تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کےس اتھ ہی اپنی دونوں رانوں کو بھی آپس میں ملا دیا ۔۔۔۔اور سر کو نہ کے انداز میں کر کے بولیں ۔۔۔۔ نہیں شاہ ۔۔۔۔ یہ کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔اب بس کر دو۔۔۔۔۔۔ اور مزید آگے نہ بڑھو پلیز زز۔۔۔ آنٹی کی بات سُن کر میں نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور ۔۔۔تو مجھے وہاں شہوت ہی شہوت نظر آ رہی تھی ۔۔۔ تب میں نے اپنی زبان نکلی اور ان کی کان کی لو کو چاٹنے لگا۔۔۔ فوراً ہی آنٹی کے منہ سے ۔۔۔سس۔۔۔سس۔۔۔ کی آواز نکلی ۔۔ اور میں نے ان کے کان سرگوشی کرتے ہو ئے کہا۔۔۔آنٹی میں کچھ نہیں کروں گا ۔۔۔میں تو صرف اس پر ہاتھ لگانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔آپ پلیززززز میرا ہاتھ چھوڑ دیں ۔اور رانوں کو بھی کھو ل دیں ۔ وعدہ میں اس کے سوا اور کچھ نہیں کروں گا مییر بات سُن کر وہ کہنے لگی۔۔۔ ؟تم بڑے جھوٹے ہو ۔۔۔بار بار وعدہ کرتے ہو اور پھر توڑ دیتے ہو۔۔۔ان کی بات سُن کر میں نے ان سے کہا ۔۔۔ آنٹی جہاں آپ نے اتنا درگزر کیا ہے ایک یہ بھی کر دیں ۔۔۔ اور ان سے اپنا ہاتھ چھڑوا لیا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی رانوں کو بھی کھول دیا ۔۔۔۔۔اور میں اپنا ہاتھ ان کی پھدی پر رکھ دیا ۔جو اس وقت کافی تپی ہو ئی تھی ۔۔جیسے ہی میرے ہاتھ نے ان کی پھدی کو ٹچ کیا تو مجھے صاف پتہ چلا کہ آنٹی کی چوت نیچے سے گیلی ہو رہی تھی ۔۔اب میں نے ان کی چوت کو اپنی مٹھی میں لیا اور بڑی بے دردی سے دبا دیا۔۔۔ تو آنٹی کے منہ سے ایک دلکش سی آہ۔۔۔ نکلی ۔۔ لیکن وہ کچھ نہ بولی۔۔اس کے بعد میں نے ان کی چوت پر ہاتھ پھیرنے شروع کر دیئے اور آنٹی چپ کر کے میرے ہاتھ کا مزہ اپنی چوت پر لیتی رہی ۔۔۔بس کھبی کھبی مم۔م۔مم ۔۔امم ۔کرتی رہیں ۔۔ اس کے بعد میں نے بھی چپکے سے اپنی پینٹ اتار دی ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انڈر وئیر بھی نیچے کر دیا اور پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ننگے لن پر رکھا اور ان سے بولا ۔۔۔ آنٹی میرے لن کو پکڑیں ۔۔۔ آنٹی جو کہ آنکھیں بند کیے اپنی پھدی پر میرے ہاتھ کا مساج انجوائے کر رہیں تھیں ۔۔۔ اور جیسے ہی میں نے ان کا ہاتھ اپنے لن پر رکھا اورہ ایک دم بدک گئیں اور آنکھیں کھول کر پھٹی پھٹی نظروں سے میرے لن کی طرف دیکھنے لگیں ۔۔۔ میرے لن کو دیکھ کر آنٹی کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا اور ۔۔۔پھر ۔۔۔ جب میں نے اپنا لن پکڑ کر ان کی طرف دیکھتے ہوئے لہرانا شروع کر دیا تو ۔ اپنے سامنے ایک موٹے تازے لن کو لہراتے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں ہوس کے لال ڈورے تیرنے لگے تھے ۔۔۔۔ لیکن انہوں نے میرا لن نہیں پکڑا ۔۔۔اور تھوڑاسا ہچکچائیں ۔۔۔ لیکن پھر میرے اصرار پر انہوں نے لن پر ہاتھ رکھ دیا اور ۔۔۔۔ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگیں ۔۔جیسے کہ رہیں ہوں کہ تم نے اتنا شاندار لن کہاں سے لیا ہے ۔۔ان کا یہ انداز دیکھ کر میں نے اپنا منہ ان پر جھکا لیا اور ان کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسنے لگا۔۔ اور پھر میں ان کے منہ میں اپنا منہ ڈالے آہستہ آہستہ ان کو لیکر بیڈ کی طرف لے جانے لگا۔۔۔۔ ۔۔
اب آہستہ آہستہ آنٹی بھی ڈرامہ چھوڑ کر میرے ساتھ سیکس کا مزہ لینے لگ پڑی تھیں۔۔ کچھ دیر تک نپلز مسلنے کے بعد میں نے جب ان کی قمیض اوپر کی تو انہوں نے ہلکا سا احتجاج کیا اور بولی ۔۔۔۔ نہ کرو نہ۔۔۔۔ پلیزززززززززز۔۔۔لیکن میں نے ان کا نپل اپنے منہ میں لیا اور اسے چوسنے لگا۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر آنٹی کے منہ سےضبط کے باوجود ۔۔ہلکی ہلکی ۔۔لزت آمیز کراہیں۔۔۔ نکلنا شروع ہو گئیں۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ تم بڑے بد تمیز ہو۔۔۔ اُف ف ف ف ف۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ میں نے دوسرے ہاتھ سے آنٹی کی ننگی کمر پر مساج کرنا کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔جس سے ان کو بڑا مزہ اور وہ ۔۔سس۔سس۔ آہ ہ ہ ہ۔۔۔ کرنے لگ پڑیں۔۔۔۔۔
جب میں نے دیکھا کہ اب بڑی حڈ تک آنٹی کی مزاحمت دم توڑ چکی ہے تو میں نے اپنا ہاتھ ان کی کمر سے ہٹایا اور نیچے ان کی شلوار تک آ گیا اور ایک دم سے ان کی شلوار کے آزار بند پر ہاتھ رکھا اور آنٹی کی شلوار کھول دی ۔۔۔۔جس سے آنٹی کی شلوار نیچے زمین پر گر گئی اور جیسے ہی میں نے اپنا ہاتھ ان کی چوت کی طرف لے جانا چاہا ۔۔۔۔۔ تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کےس اتھ ہی اپنی دونوں رانوں کو بھی آپس میں ملا دیا ۔۔۔۔اور سر کو نہ کے انداز میں کر کے بولیں ۔۔۔۔ نہیں شاہ ۔۔۔۔ یہ کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔اب بس کر دو۔۔۔۔۔۔ اور مزید آگے نہ بڑھو پلیز زز۔۔۔ آنٹی کی بات سُن کر میں نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور ۔۔۔تو مجھے وہاں شہوت ہی شہوت نظر آ رہی تھی ۔۔۔ تب میں نے اپنی زبان نکلی اور ان کی کان کی لو کو چاٹنے لگا۔۔۔ فوراً ہی آنٹی کے منہ سے ۔۔۔سس۔۔۔سس۔۔۔ کی آواز نکلی ۔۔ اور میں نے ان کے کان سرگوشی کرتے ہو ئے کہا۔۔۔آنٹی میں کچھ نہیں کروں گا ۔۔۔میں تو صرف اس پر ہاتھ لگانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔آپ پلیززززز میرا ہاتھ چھوڑ دیں ۔اور رانوں کو بھی کھو ل دیں ۔ وعدہ میں اس کے سوا اور کچھ نہیں کروں گا مییر بات سُن کر وہ کہنے لگی۔۔۔ ؟تم بڑے جھوٹے ہو ۔۔۔بار بار وعدہ کرتے ہو اور پھر توڑ دیتے ہو۔۔۔ان کی بات سُن کر میں نے ان سے کہا ۔۔۔ آنٹی جہاں آپ نے اتنا درگزر کیا ہے ایک یہ بھی کر دیں ۔۔۔ اور ان سے اپنا ہاتھ چھڑوا لیا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی رانوں کو بھی کھول دیا ۔۔۔۔۔اور میں اپنا ہاتھ ان کی پھدی پر رکھ دیا ۔جو اس وقت کافی تپی ہو ئی تھی ۔۔جیسے ہی میرے ہاتھ نے ان کی پھدی کو ٹچ کیا تو مجھے صاف پتہ چلا کہ آنٹی کی چوت نیچے سے گیلی ہو رہی تھی ۔۔اب میں نے ان کی چوت کو اپنی مٹھی میں لیا اور بڑی بے دردی سے دبا دیا۔۔۔ تو آنٹی کے منہ سے ایک دلکش سی آہ۔۔۔ نکلی ۔۔ لیکن وہ کچھ نہ بولی۔۔اس کے بعد میں نے ان کی چوت پر ہاتھ پھیرنے شروع کر دیئے اور آنٹی چپ کر کے میرے ہاتھ کا مزہ اپنی چوت پر لیتی رہی ۔۔۔بس کھبی کھبی مم۔م۔مم ۔۔امم ۔کرتی رہیں ۔۔ اس کے بعد میں نے بھی چپکے سے اپنی پینٹ اتار دی ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انڈر وئیر بھی نیچے کر دیا اور پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ننگے لن پر رکھا اور ان سے بولا ۔۔۔ آنٹی میرے لن کو پکڑیں ۔۔۔ آنٹی جو کہ آنکھیں بند کیے اپنی پھدی پر میرے ہاتھ کا مساج انجوائے کر رہیں تھیں ۔۔۔ اور جیسے ہی میں نے ان کا ہاتھ اپنے لن پر رکھا اورہ ایک دم بدک گئیں اور آنکھیں کھول کر پھٹی پھٹی نظروں سے میرے لن کی طرف دیکھنے لگیں ۔۔۔ میرے لن کو دیکھ کر آنٹی کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا اور ۔۔۔پھر ۔۔۔ جب میں نے اپنا لن پکڑ کر ان کی طرف دیکھتے ہوئے لہرانا شروع کر دیا تو ۔ اپنے سامنے ایک موٹے تازے لن کو لہراتے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں ہوس کے لال ڈورے تیرنے لگے تھے ۔۔۔۔ لیکن انہوں نے میرا لن نہیں پکڑا ۔۔۔اور تھوڑاسا ہچکچائیں ۔۔۔ لیکن پھر میرے اصرار پر انہوں نے لن پر ہاتھ رکھ دیا اور ۔۔۔۔ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگیں ۔۔جیسے کہ رہیں ہوں کہ تم نے اتنا شاندار لن کہاں سے لیا ہے ۔۔ان کا یہ انداز دیکھ کر میں نے اپنا منہ ان پر جھکا لیا اور ان کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسنے لگا۔۔ اور پھر میں ان کے منہ میں اپنا منہ ڈالے آہستہ آہستہ ان کو لیکر بیڈ کی طرف لے جانے لگا۔۔۔۔ ۔۔
Labels: بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 3
Subscribe to:
Posts (Atom)
Categories
- اس وقت رات کا پچھلا پہر تھا لیئے کھانا کھاتے ہی ۔ ۔۔۔۔ (1)
- بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (1)
- بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2 (1)
- بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 3 (1)
- بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 4 + Last (1)
- ترَاس قسط۔۔...13 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔١ (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔10 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔14 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔16 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔17 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔18 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔19 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔2 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔20 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔21 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔23 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔24 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔25 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔26 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔3 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔4 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔5 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔7 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔8 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔9 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔11 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔15 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔22 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔27 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔28 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔29 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔30 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔31 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔۔6 (1)
- ترَاس قسط۔۔۔12 (1)
- ﮈﮔﺮﯼ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ (1)
- عاصمہ جی Part 1 (1)
- عاصمہ جی Part 2 (1)
- میری پہلی کاوش 1 (1)
- میری پہلی کاوش2 (1)
- میری پہلی کاوشLast (1)
صفحات
موضوعات
- اس وقت رات کا پچھلا پہر تھا لیئے کھانا کھاتے ہی ۔ ۔۔۔۔
- بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2
- بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 3
- بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 4 + Last
- ترَاس قسط۔۔...13
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔١
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔10
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔14
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔16
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔17
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔18
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔19
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔2
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔20
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔21
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔23
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔24
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔25
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔26
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔3
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔4
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔5
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔7
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔8
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔9
- ترَاس قسط۔۔۔۔11
- ترَاس قسط۔۔۔۔15
- ترَاس قسط۔۔۔۔22
- ترَاس قسط۔۔۔۔27
- ترَاس قسط۔۔۔۔28
- ترَاس قسط۔۔۔۔29
- ترَاس قسط۔۔۔۔30
- ترَاس قسط۔۔۔۔31
- ترَاس قسط۔۔۔۔6
- ترَاس قسط۔۔۔12
- ﮈﮔﺮﯼ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ
- عاصمہ جی Part 1
- عاصمہ جی Part 2
- میری پہلی کاوش 1
- میری پہلی کاوش2
- میری پہلی کاوشLast
میری پہلی کاوشLast
Lastمیری پہلی کاوش میں اس کی منی میں لتھڑی پڑی تھی اور کمرے میں ٹشو تک نہیں تھا. امجد کے تولیے سے خود کو صاف کیا اور اسے کہا چلیں بس اب ب...
Contact Form
آمدو رفت
موضوعات
- اس وقت رات کا پچھلا پہر تھا لیئے کھانا کھاتے ہی ۔ ۔۔۔۔
- بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2
- بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 3
- بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 4 + Last
- ترَاس قسط۔۔...13
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔١
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔10
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔14
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔16
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔17
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔18
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔19
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔2
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔20
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔21
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔23
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔24
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔25
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔26
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔3
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔4
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔5
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔7
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔8
- ترَاس قسط۔۔۔۔۔9
- ترَاس قسط۔۔۔۔11
- ترَاس قسط۔۔۔۔15
- ترَاس قسط۔۔۔۔22
- ترَاس قسط۔۔۔۔27
- ترَاس قسط۔۔۔۔28
- ترَاس قسط۔۔۔۔29
- ترَاس قسط۔۔۔۔30
- ترَاس قسط۔۔۔۔31
- ترَاس قسط۔۔۔۔6
- ترَاس قسط۔۔۔12
- ﮈﮔﺮﯼ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ
- عاصمہ جی Part 1
- عاصمہ جی Part 2
- میری پہلی کاوش 1
- میری پہلی کاوش2
- میری پہلی کاوشLast
مشہور تحاریر
-
ترَاس ...
-
بارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 4 + Last ادھر آنٹی میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑے آہستہ آہستہ جوش میں آتی جا رہیں تھیں پہلے تو وہ بڑے آرام سے ل...
-
ترَاس ...