عاصمہ جی Part 1

عاصمہ جی
Part 1
ہیلو دوستو کیسے ہو آپ ؟ تھینک یو کہ آپ نے میری پچھلی سٹوری پسند کی۔ اب ہم اگلی سٹوری کی طرف آتے ہیں –
دوستو اگر آپ اسلام آباد رہتے ھیں تو یقیناً آپ جانتے ہوں گے کی آئ ایٹ سیکٹر میں واقع علامہ اقبال او پن یونیورسٹی ایک ویران جگہ پر واقع ہۓ خاص کرسردیوں کی رات کے وقت یہ جگہ کافی ویران ہوتی تھی۔ جس وقت کی یہ بات ہے اُس وقت یونیورسٹی کے سامنے درختوں کا کافی گھنا سلسلہ تھا –
یہ ایک ایسی ہی سردیوں کہ رات تھی اور میں اپنی موٹر سائیکل پر اسی روڈ سے گزر رہا تھا کہ مجھے دُور سے بایئک کے پاس ایک شخص کھڑا نظر آیا جو مجھے رُکنے کا اشارہ کر رہا تھا اُس کے ساتھ ایک عورت بھی کھڑی تھی تھوڑا تھوڑا اندھیرا ہو نے کی وجہ سے میں ان کو ٹھیک سے پہچان نہ سکا-
لیکن جیسے ہی میری بایئک ان کی قریب پُہنچی تو میں نے ان کو پہچان لیا یہ ہمارے محلے دار مسٹر اور مسز سلامت تھے اور محلے دار ہونے کی وجہ سے میری ان سے میری اچھی خاصی سلام دعا تھی چنانچہ جیسے ہی میں ان کے پاس رُکا انہوں نے مجھے دیکھ کر اطمینان کی سانس لی اور بولے شکر ھے کہ تم مل گۓ ورنہ ہم کافی دیر سے کھڑے تھے ایک تو یہا ں پر ٹریفک بھی کافی کم ھے دوسرا جو ایک آدھا یہا ں سے گزرا بھی تو اس نے رُکنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی۔ تو میں نے ان سے پوچھا انکل معاملہ کیا ھے ؟؟؟ تو وہ بولے معاملہ کیا ہونا ہے یار بایئک خراب ہو گیا ہے اور پھر کہنے لگے یار اگر تم موٹر سائیکل کے بارے کچھ جانتے ہو تو کچھ کر دو میں نے تو کافی مغز مارا ھے پر کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ چکر کیا ھے ؟؟ موٹر سائیکل کے بارے میرا بھی علم بس واجبی سا تھا پر پھر بھی میں بایئک سے نیچے اُترا اور اُسے سٹارٹ کرنے کی پوری کوشش کی۔۔۔۔ پر کامیاب نا ہوسکا تب میں نے اپنی ہار مان لی اور ان سے کہا کہ سوری سر جی یہ میرے بس سے باہر ھے آپ ایسا کریں میری بایئک لے جایئں میں آپ کی بائیک ٹھیک کروا کے لے آؤں گا –
سلامت صاحب نے رسمی سا انکار کیا لیکن چونکہ اُن کے ساتھ ان کی بیوی بھی تھی اس لیۓ میرے اصرار پر انہوں نے میرا بائیک لے لیا اور اسے سٹارٹ کر کے بیوی سمیت بیٹھ کر چلے گۓ لکین کچھ ھی دُور گۓ ہوں گے کہ میری بائیک بھی پھٹ پھٹ کر کے رُک گئ-
انکل نے اُسے سٹارٹ کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن بے سود۔ اسی اثناء میں میں بھی ان کے بائیک سمیت وھاں پہنچ گیا اور وہاں جا کر رُک گیا اور پوچھنے لگا کہ کیا ہوا ؟؟ تو وہ تھوڑا جُھنجھلا کر بولے یار آج کا دن بڑا منحوس ھے ہر کام ہی اُلٹا ہو رہا ھے دیکھو نا تمہارا بائیک اچھا خاصہ چل رہا تھا پر جیسے میرے پاس آیا یہ چلتے چلے اچانک رُک گیا اور اب چلنے کا نام ھی نہیں لے رہا یہ سُن کر میں نے اُن سے اپنا بائیک لیا اور 3،4 ککیں ماریں تو وہ سٹارٹ ہو گیا اور میں نے دوبارہ بائیک ان کے حوالے کرتے ہوۓ کہا کہ پلیز آپ لوگ جاؤ وہ فوراً بائیک پر بیٹھے اور روانہ ہو گۓ لیکن ابھی تھوڑی ہی دور گۓ ہوں گے کہ بائیک پھر رُک گئ سلامت صاحب نے دوبارہ ککیں مارنا شروع کیں پر وہ سٹارٹ نہ ہوئ اتنی دیر میں میں پھر ان کا بائیک لیۓ وہاں پُہنچ گیا تو دیکھا کہ سلامت صاحب دونوں ھاتھ اپنی کمر پر رکھے بڑے غصوے سے میری بائیک کی طرف دیکھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ مُنہ ہی مُنہ میں کچھ بُڑبُڑا بھی رہے تھے جیسے ہی میں ان کے پاس پُہنچا انہوں نے بڑی بے بسی سے میری طرف دیکھا اور بولے یار آج واقع ہی بڑا منحوس دن ھے دیکھو نا تم کک مارتے ہو تو یہ سالا سٹارٹ ہو جاتا ھے اور میری ککوں سے بھی اس کو کچھ بھی نہیں ہوتا –
یہ سُن کر میں نے ایک دفعہ پھر اُن سے بایئک لیا اور 3، 2 ککوں سے ہی سٹارٹ کر لیا اور دوبارہ ان سے کہا کہ بیٹھیں پلیز اس سے پہلے کہ وہ بائیک پر بیٹھتے اُن کی بیوی فوراً بولی
"جی نہیں میں ان کے ساتھ نہیں جاؤں گی شاہ آپ پلیز مجھے گھر تک چھوڑ آؤ " اس سے قبل کہ میں کچھ کہتا سلامت صاحب فوراً بولے " ٹھیک ھے شاہ آپ ہی عاصمہ جی کو گھر چھوڑ آؤ اور ویسے بھی مجھ سے آپ کا بائیک نہیں چل رھا میرا بائیک میرے حوالے کر دیں میں اسے ٹھیک کروا کے گھر لے آؤں گا – میں نے تھوڑی ہیچر میچر ۔۔۔ پر وہ نہ مانے اور پھر ان کے پُر زور اصرار میں اپنے بائیک پر بیٹھ گیا –
اور اس کے ساتھ ہی میرے پیچھے عاصمہ جی (اُن کی بیگم ) بیٹھ گئ ۔ اس سے قبل کہ کہانی آگے چلے میں آپ سے عاصمہ جی کا تعارُف کرواتا چلوں- عاصمہ جی ایک 35،36 سال کی خوبصورت دراز قد کی کشمیری عورت تھی ۔۔ اس کی بڑی آنکھیں تھیں اور موٹے ممے تھے پر اُس کے بدن کی سب سے دلکش اور خاص بات عاصمہ جی کی گانڈ تھی موٹی تو اس عمر میں تقریباً سب ہی لیڈیز کی گانڈ ہو جاتی ھے پر عاصمہ کی گانڈ لاکھوں میں ایک تھی جس نے بھی ان کی گانڈ دیکھی وہ دل پکڑ کر بیٹھ گیا
چاہے وہ گانڈ لور ھے یا نہیں ۔۔۔۔ چلتے ہوۓ خاص کر وہ ایسے مٹک مٹک کر چلتی کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ ۔۔۔ نا پوچھ یار – ہماری مُحلے کے تقریباً سارے ہی لوگ ان کی دلکش گانڈ کے عاشق تھے – اور یہ میری بڑی خوش قسمتی تھی کہ آج یہ دلکش گانڈ والی خاتون میری پرانی پھٹ پھٹی پر میرے پیچھے بیٹھی تھی۔ گو کہ اس خوبصورت خاتون کا نام عاصمہ ھی تھا مگر ان کا میاں چونکہ ان کو عاصمہ جی کہتا تھا اس لیۓ سارا محلہ ان کو عاصمہ جی کے نام سے یاد کرتا تھا-
جب میں اوپن یونیورسٹی سے تھوڑا سا آگے گیا تو اچانک مجھے پیچھے سے عاصمہ جی کی آواز سُنائ دی ۔۔۔ ایک منٹ ۔۔۔۔ ایک منٹ رکو پلیز۔۔۔!!! میں نے فوراً بریک لگا دی اور ان سے پوچھا خیریت۔۔؟ تو وہ تھوڑا سا جھجھک کر بولی " وہ بڑے زور کا سُو سُو (پیشاب) آیا ہے۔۔ میں نے بڑی دیر سے روکا ہوا تھا پر اب یہ کام میری برداشت سے باہر ہو گیا ہے تم رکو میں بس ابھی آئ ۔۔ انہوں نے یہ کہا اور جلدی سے یونیورسٹی کے سامنے اندھیرے میں گھنے درختوں کی طرف غائب ہو گئ- اور میں بائیک پر ہی بیٹھا ان کا انتظار کرنے لگا – بمشکل ایک آدھ منٹ ہی گزرا ہو گا کہ مجھے عامصہ جی کی چیخ سنائ دی۔۔۔ اُو۔۔ئ۔۔ ئ۔۔۔ ماں۔۔۔ سانپ ۔۔۔۔ سانپ۔۔۔ شاہ جلدی آؤ مجھے سانپ نے کاٹ لیا ھے۔۔۔ یہ سُن کر میرے تو حواس ہی گُم ہو گۓ اور میں بھاگتا ہوا درختوں کی طرف چلا گیا پر اندھیرا ہونے کی وجہ سے مجھے وہاں کچھ دکھائ نہ دیا چنانچہ اب میں اُتنی یہ جلدی سے واپس گیا اور ھیڈ لائیٹ فُل پہ کر کے بائیک جاۓ حادثہ کی طرف لے گیا –
جیسے ہی میرا بائیک عاصمہ جی کے قریب پہنچا تو میں نے ہیڈ لائیٹ کی روشنی میں دیکھا کہ ان کے چہرے کا رنگ اُڑا ہوا تھا اور ان کی شلوار ان کے گھٹنوں سے نیچے زمین پر پڑی تھی اور وہ بڑی خوف زدہ نطروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی مجھے دیکھ کر انہوں نے اپنی پیٹھ کی طرف اشارہ کیا اور بولی " شاہ مجھے یہاں پر سانپ نے کا ٹا ھے" اور میں فوراً اُن کی پیٹھ پر سانپ کے کاٹنے کا منظردیکھنے کے لیۓ جھکا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اُن کی موٹی گانڈ کی موری کے بلکل ساتھ ایک بڑا سا چیونٹا چپکا ہوا تھا جس کی وجہ سے ان کی گا نڈ کا وہ حصہ خاصہ سُرخ ہو چکا تھا جیسے ہی میری نطر اُس بڑے سے چیونٹے پر پڑی میں نے شُکر کا سانس لیا اور عاصمہ جی سے بولا کہ آپ کو سانپ نے نہیں بلکہ ایک بڑے سے چیونٹے نے کاٹا ہے لیکن اُن کو میری بات کا یقین نہیں آیا اور بولی پلیز اچھی طرح دیکھو کہ مجھے بڑی شدید جلن ہو رہی ہے عاصمہ جی نے یہ کہا اور اپنا منہ دو سری طرف کر کے پوری گانڈ میری طرف کر دی اور خود رکوع کے بل جھک گئ-
لو جی میری تو عید ہو گئ کہ اب میرے سامنے ایک بہت ہی بڑی زبردست موٹی نرم اور گوری گانڈ تھی جس کا میں اچھی طرح جائزہ لے رہا تھا ان کی چوت سے پیشاب کے کچھ قطرے ابھی بھی گر رہے تھے پر جو خاص بات میں آپ سے شئیر کرنا چاہتا ہون وہ اُن کی گانڈ کی موری تھی جو عام موری سے کھچ زیادہ ہی کُھلی تھی- (شاید عاصمہ جی نے گانڈ زیادہ مروائ تھی ) اتنی جاندار گانڈ دیکھ کر میرے تو منہ میں پانی آ گیا اور میں ان کی گانڈ کو دیکھ کر پاگل ہوا جا رہا تھا اور بڑی مشکل سے خود پر کنٹرول کر رہا تھا۔۔ گانڈ کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد میں نے اس جگہ کو دوبارہ دیکھا جہان ابھی تک چیونٹا چپکا ہوا تھا میں نے میں نے چیونٹے کو دو انگلیوں کی مدد سے وہاں سے ہٹایا اور متاثرہ جگہ پر تھوڑا مساج کیا اور پھر نہ چاہتے ہوے بھی میں نے اپنی ایک انگلی ان کی گانڈ کی بڑی سی موری میں داخل کر دی ۔۔ کچھ سکینڈ تک انگی ان کی موری میں گھمائ اور پھر نکال لی اسکے بعد میں نے مرا ہوا چینونٹا ان کو دکھا کر بولا سانپ شانپ کوئی نہیں تھا عاصمہ جی بلکہ آپ کے وہاں ایک بڑے سے چیانٹے نے کاٹا تھا اور یہ رہا وہ چیونٹا اور ان کو چیونٹا دکھا دیا جسے دیکھ کر وہ تھوڑی سی نارمل ہو گئ اور بولی جلدی سے یہاں سے نکلو شاہ کہ مجے بڑا ڈر لگ رہا ھے-
اور انہوں نے جلدی سے شلوار پہنی اور میرے ساتھ بائیک پر بیٹھ گئ اور ھم ان کے گھر کی طرف چل پڑے ۔۔ مرا ہوا چیونٹا دیکھ وہ کافی حد تک نارمل ہو گئ تھی اور پھر راستے بھر میں وہ مجھ سے سانپ بچھو وغیرہ کی باتیں کرتی رہی پر میرے دھیان میں ان کی موٹی گانڈ خاص کر بڑی سی موری آتی رہی ۔۔۔۔
اس طرح باتوں باتوں میں کب ان کا گھر آیا پتہ ہی نہیں چلا – جیسے ہی ھم ان کے گھر کے قریب پہنچے تو میں نے عاصہ جی کو بائیک سے آتارا اور جانے کی اجازت لی تو وہ کہنے لگی بنا چاۓ کے تم کیسے تم جا سکتے ہو۔۔ ؟؟؟؟ اس لیۓ اپنی بائیک کو لاک کرو اور میرے ساتھ گھر چلو اورخود گھر کا تالا کھولنا لگی میں نے بھی بائیک کو لاک کیا اور پھر ان کے گھر داخل ہو گیا وہ مجھے ساتھ لے کر ڈرائنگ روم میں لے گئ وہاں مجھے ایک صوفے پر بیٹھنے کو کہا تو میں نے ان سے پوچھا کہ عاصمہ جی گھر کے باقی لوگ کہا ں ہیں۔۔؟؟ تو وہ کہنے لگی سب لوگ ایف سکس میں برکت صاحب کے بھتیجے کی شادی پر گۓ ہوۓ ہیں اور مزید کچھ دن وہاں ہی رکیں گے میں اور برکت صاحب بھی صبع سے وہاں ہی تھے پھر کہنے لگی تم بیٹھو میں ابھی چاۓ لے کر آتی ہوں اور وہ کچن میں چاۓ بنانے چلی گئ – کوئ 15،20 منٹ کے بعد جب وہ واپس آئ تو ان کے ہاتھ میں ایک بڑی سی ٹرے تھی جس میں 2 کپ چاۓ کے ساتھ 2،3 پلیٹیں اور بھی تھیں جو بسکٹ اور دیگر لو ازمات سے بھری ہوئ تھیں یہ دیکھ کر میں نے کہا عاصمہ جی آپ نے تو بڑا تکلف کر دیا تو وہ بولی ارے تکلف کیسا اسی بہانے تئم کچھ دیر بیٹھو گے تو سہی نہ -
پھر انہوں نے تپائ پر ٹرے رکھی اور میرے سامنے بیٹھ گئ اور ہم چاۓ کے ساتھ ساتھ دوبارہ سانپ بچھو وغیرہ کے کاٹنے اور اسی حادثے کے بارے میں باتیں بھی کرنے لگے تب باتوں باتوں میں مین نے اُن سے کہا یقین کریں عاصمہ جی آپ کی دلدوز چیخ نے تو میری جان ہی نکال دی تھی شکر ھے کہ وہاں سانپ نہیں تھا ورنہ بڑی مشکل ہو جاتی۔اور میں نے پھر سے اپنی بات دھراتے ہوے کہا کہ عاصمہ جی آپ کی اُس چیخ نے تو میرا پورے 2 کلو خون خشک کر دیا تھا-
میری بات سُن کر عاصمہ جی تھوڑی سے کھسیانی ہو گئ اور بولی " آئ ایم سوری شاہ جی ۔۔۔۔۔۔۔۔ پر بعد میں آپ نے میری چیخ کا پورا فائدہ بھی اُٹھا یا تھا " اور پُر اسرار طریقے سے مُسکرا دی – یہ سُن کر میں نے قدرے حیرانی سے ان سے پوچھا کہ " عاصمہ جی میں نے کون سا فائیدہ اُٹھایا تھا ۔۔؟؟؟؟؟ تو اُنہوں نے تُرنت ہی جواب دیا اور کہنے لگی زیادہ سمارٹ بننے کی کوئ ضرورت نہیں ھے مسٹر شاہ ۔۔۔۔۔۔ تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ میں کس فائیدے کی بات کر رہی ہوں اور تب اچانک مجھے یاد آیا کہ میں نے سانپ کا کا ٹا چیک کرتے وقت اپنی ایک انگی ان کی گانڈ کی بڑی سی موری میں ڈالی تھی وہ لحمہ یاد کر کے میں نے بڑی شرمند گی محسوس کی اور پھر فوراً ہی اُن سے اپنی اس حرکت کی معافی مانگ لی اور بولا اس بات کے لیۓ ویری ویری سوری عاصمہ جی ۔۔۔
میری معافی کی بات سن کر وہ بولی زیادہ جزباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ " اٹس اوکے " اور مسکُرا دی۔
جب عاصمہ جی نے" اٹس او کے" کہا تو یہ سُن کر میری پینٹ میں تھوڑی ہلچل مچی اور لن صاحب نے ہلکہ سا سر اٹھا کر مجھ سے کہا ۔۔۔ میڈم کی بات سمجھ سالے ۔۔۔ لیکن میں لن کے بتانے سے پہلے ہی کافی کچھ سمجھ چکا تھا اور بات کی تہہ تک جانے سے پہلے کچھ باتوں کی وضاحت ضروری تھی چنانچہ یہ سوچ کر میں نے اپنے چہرے پر تھوڑی تشویش ظاہر کی اور بولا ۔۔ یہ سلامت صاحب ابھی تک نہیں پہنچے ۔۔۔ ؟؟ تو وہ بولی اصل میں انہوں نے رات گۓ گھر آنا ھے کہ شادی کے سلسلہ میں کافی کام اُن کے زمہ تھے اُن کی یہ بات سُن کر میں کافی حد تک مطمئین ہو گیا تھا سو اب میں نے دانہ پھیکنے کا ارادہ کر لیا اور بولا ۔۔ عاصمہ جی کیا ابھی بھی آپ کو درد ہو رہا ھے ؟ وہ فوراً میری بات کو سمجھ گئ اور بولی نہیں شاہ جی درد تو نہیں البتہ جلن بڑی سخت ہو رہی ہے ۔۔۔ یہ سننا تھا کہ جھٹ میں نے اپنی خدمات پیش کرے ہوے بولا اگر آپ مائینڈ نہ کریں تو میں متاثرہ حصہ پر دوبارہ مساج کر دوں۔۔؟ وہ منہ سے کچھ نا بولی پر اپنی جگہ سے اُٹھ کر آ کر میرے سامنے کھڑی ہو گئ-

2 comments:

Asad said...

Ager koi girl ya aunty mujh se apni felling share karna chahti hai.ya
Good Friendship Love and Romantic Chat Phone sex Ya
Real sex karna chahti hai to contact kar sakti hai 0306_5864795

Razaq said...

جو لڑکیاں اور عورتیں سیکس کا فل مزہ رٸیل میں فون کال یا وڈیو کال اور میسج پر لینا چاہتی ہیں رابطہ کریں 03488084325