ترَاس قسط۔۔۔۔۔7

ترَاس                                 
                                                                                                                                                  7ترَاس ۔۔۔
میں اپنے کمرے میں داخل ہوئی ۔۔سامنے ریک پر وہ مہرون رنگ والی جوتی ڈبے میں پڑی تھی ۔۔۔میں چلتی ہوئی ریک کے پاس پہنچی ۔اور۔۔۔ ۔۔ہاں میں آپ کو یہ بات بتانا تو بھول ہی گئی ہوں کہ میرا جوتیوں والا ریک کھڑکی کے پاس رکھا ہوا تھا ۔۔۔اور دن کے وقت عموماً میں اپنی کھڑکی کے دونوں پٹ کھلے رکھتی تھی ۔۔ اس زمانے میں میری کھڑکی پر باریک سی لوہے کی جالی لگی ہوتی تھی ۔۔۔ اور جیسا کہ آپ کو پتہ ہے کہ اس جالی کا یہ کمال ہے کہاگر کمرہ اندر سے روشن ہو یعنی کہ کمرے کی لائیٹ آن ہو تو باہر والے کو اندر کا سین نظر آتا ہے اور اگر کمرہ روشن نہ ہو تو باہر سے کچھ نظر نہیں نظر آتا ہے۔۔ہاں تو میں آپ کو بتا رہی تھی کہ میں چلتی ہوئی گئی اور ریک سے اپنی جوتی کا ڈبہ اُٹھایا ۔۔۔ اور واپس ہوتے وقت حسبِ عادت ایک نظر باہر ڈالی تو سامنے اماں اور جیدا بیٹھے نظر آئے ۔۔۔ میں نے ایک نظر ان پر ڈالی اور جیسے ہی واپسی کے مُڑی میرے کانوں میں اماں کی ۔۔۔۔کھنکھناتی ہوئی آواز سنائی دی ۔۔۔ وہ جیدے سائیں کی طرف دیکھ کر کہہ رہیں تھیں ۔۔۔۔ ایہہ ۔۔شیطان اجے مریا نئیں؟؟؟۔(یہ شیطان ابھی مرا نہیں )۔ اماں کی بات سُن کر میں تھوڑی حیران ہوئی کہ اماں سائیں سے کس شیطان کے مرنے کی بات کر رہیں ہیں؟ پھر میں محض اپنا تجسس دور کرنے کے لیئے کھڑکی کے اور قریب چلی گئی اور کان لگا کر ۔۔۔۔ اوراماں اور سائیں کے درمیان ہونے والی باتیں سننے لگی۔۔۔ چونکہ میرے کمرے کی لائیٹ ۔۔۔ آف تھی اس لیئے مجھے باہر سے دیکھے جانے کا کوئی ڈر نہ تھا ۔۔۔ اماں کی بات سُن کر سائیں بولا ۔۔۔۔ باجی ۔۔۔ ایہہ شیطان تے مریا ہویا سی ۔۔۔ پر ۔۔۔ تہاڈے سوہنے جئے پٹ ویکھ کے ۔۔۔۔ ایدے کولوں ریا نہیں گیا ۔۔۔( باجی یہ شیطان تو مرا ہوا تھا لیکن آپ کی خوب صورت رانیں دیکھ کر اس سے رہا نہیں گیا ) ۔۔۔ جیدے کی بات سُن کر میں نے ایک دم اماں کی طرف دیکھا تو واقعہ ہی وہ چارپائی پر اس اس زاویہ سے بیٹھی ہوئیں تھیں کہ جس سے ان کی بڑی سی گانڈ اور موٹی موٹی لیکن سیکسی رانیں ۔۔واضع طور نظر آ رہی تھی۔۔میرا خیال ہے کہ اماں کی سیکسی گانڈ دیکھ کر ہی سائیں کا شیطان (لن) کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔اماں اور جیدے کی یہ گفتگو سُن کر میرا رنگ سُرخ ہو گیا ۔۔۔ادھر اماں سائیں کی بات سُن کر کہہ رہیں تھیں۔۔ اب میری رانیں کہاں خوب صورت رہی ہے ۔۔۔ ہاں کسی زمانے میں یہ بڑی بمب ہوتی تھیں ۔۔۔ تو سائیں کہنے لگا ۔۔۔ نیلو باجی ۔۔۔آپ کی رانیں اور۔۔۔گانڈ اب بھی بڑی بمب ہے ۔۔۔دیکھو ۔۔ نا باجی ان پر ایک نظرپڑتے ہی میرا لن کھڑا ہو گیا ہے ۔۔۔۔ چونکہ جیدے سائیں کی میری طرف پشت تھی ۔۔۔ اس لیئے مجھے اس کا لن نظر تو نہیں آ رہا تھا ۔۔ لیکن میں نے اماں کی طرف دیکھا تو ۔ان کا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا اور ۔۔۔ ان کی نظریں سائیں کی دو ٹانگوں کے عین بیچ میں گڑھی ہوئیں تھیں ۔۔۔ اور وہ بڑے غور سے جیدے سائیں کی طرف دیکھتے ہوئے کہہ رہیں تھیں ۔۔۔ جیدے !! اپنی دھوتی کو تھوڑا اور کھول ۔۔۔ اور اپنا سارا لن میرے سامنے کر ۔۔۔۔ اماں کی بات سُن کر میں نے سائیں کی طرف دیکھا تو چوکی پر بیٹھے بیٹھے وہ اپنی دونوں ٹانگوں کو مزید کھول رہا تھا ۔۔۔ اور پھر شاید اس نے اپنے لن کو پورا ۔۔۔ ننگا کر لیا تھا ۔۔۔ کیونکہ میں نے اماں کی طر ف دیکھا تو وہ جیدے سائیں کی ٹانگوں کے درمیان درمیان دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہیں تھیں ۔۔۔ اور جیدے کا لن دیکھتے ہوئے ان کے گال جوش کی وجہ سے تمتما رہے تھے ۔۔۔اور اماں کی آنکھوں میں سائیں کے لن کے لیئے ۔۔شہوت صاف نظر آرہی تھیں ۔۔ اماں نے کچھ دیر تک جیدے کے لن کو بڑے غور سے دیکھا ۔۔۔ اور پھر ۔۔ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولی ۔۔۔۔ جیدے ایہہ شیطان پہلے توں کُج زیادہ ووڈا تے موٹا نئیں ہو گیا؟ ( جیدے تیرا لن پہلے سے کچھ زیادہ بڑا اور موٹا نہیں ہو گیا ؟) تو میں نے دیکھا کہ اماں کی بات سُن کر جیدے سائیں نے اپنا ایک ہاتھ نیچے کیا اور غالباً اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر ہلاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ اے گل نئیں نیلو باجی۔۔ چونکہ ۔ تُسی بڑے عرصے بعد اس شیطان نوں دیکھیا اے ۔۔۔ اس لیئے ایہہ تہانوں وڈا ۔۔وڈا ۔۔ لگ رہیا اے ۔۔( ایسی بات نہیں ہے نیلو باجی ۔۔ چونکہ آپ نے بڑے عرصے بعد میرا لن دیکھا ہے اس لیئے آپ کو کچھ زیادہ بڑا بڑا سا لگ رہا ہے) جیدے کی بات سُن کر اماں بولیں ۔۔۔۔۔تیرا شیطان ویکھ کے میں تے گیلی تے گرم ہو گئیں آں ۔۔۔(جیدے تیرا لن دیکھ کر میری چوت گیلی اور میں گرم ہو گئی ہوں )
پھر میں نے دیکھا کہ جیدے سائیں کا اپنی ٹانگوں میں گیا ہوا ہاتھ ۔۔۔ تیزی سے ہل رہا ہے ۔۔۔۔ میرے خیال میں وہ اماں کو رجھانے کے لیئے ان کے سامنے مُٹھ مار رہا تھا۔۔۔ یا شاید وہ اماں کے سامنے اپنا لن ہلا ہلا کر ۔۔ان کو ترسا رہا تھا ۔۔اور میں نے اماں کی طرف دیکھا تو ان کی نظریں ابھی بھی جیدے کی ٹانگوں کے درمیان اس کے لن پر گڑی تھیں ۔۔اور وہ جیدے کے لن کو دیکھ کر مسلسل اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرے جا رہیں تھیں اور ہوس کے مارے ان کے گال لال ٹماٹر ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔ اور ان کی آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ ان کا بس نہیں لگ رہا ورنہ وہ ابھی جیدے کا لن اپنے اندر لے لیتیں۔۔۔ پھر میں نے جیدے کی ہاتھ کی طرف دیکھا تو وہ اسے ہلاتے ہوئے اماں سے کہہ رہا تھا ۔۔۔نیلو باجی فئیر کی خیال اے اَج ہو نہ جائے ؟ ( نیلو باجی پھر کیا خیال ہے آج فکنک نہ ہو جائے) جیدے کی بات سُن کر امان نے ایک بار پھر اس کے ہلتے ہوئے لن کی طرف دیکھا اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری اور بولیں ۔۔۔ نہیں آج نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہم یہ کام کل کریں گے ۔۔۔تو جیدا بولا ۔۔ باجی اپنی گانڈ دکھا کر گرم تم آج کیا ہے اور دو گی کل۔۔۔۔ یہ تو ٹھیک بات نہیں ۔۔۔ تو اماں مسکرا کر بولی ۔۔۔ تم کو گرم کرنا کون سا مشکل کام ہے ۔۔۔ پھر وہ ایک دم سنجیدہ ہو گئیں تمہیں پتہ ہے کہ میرا گھر بہوؤں بیٹوں والا گھر ہے اور اوپر سے کافی مہمان بھی آئے ہوئے ہیں ۔۔اس لیئے آج نہیں ہو سکے گا ۔۔۔ ہاں کل فائق کی مہندی ہے ۔۔۔ اور میں نے دو تین بیوٹی پارلر والیوں کو گھر پر بُلایا ہے تا کہ لڑکیاں تیار کر سکیں ۔۔ اور تم کو پتہ ہے بیوٹی پارلر والیوں جب گھر آئیں گی تو سب لڑکیاں اور عورتیں ان کے ہی آس پاس ہوں گی اور اس دوران میں اور تم سٹو ر میں چیزیں نکلالنے کے بہانے ۔۔اپنا کام کر لیں گے ۔۔۔
اماں کی بات سُن کر جیدا قدرے مایوسی سے بولا ۔۔۔ جیسے تمھاری مرضی ۔۔نیلو۔۔۔۔۔پر کل منکر نہ ہو جانا ۔۔۔تو اماں اس کی بات سُن کر بولی۔۔ فکر نہیں کرو میں ہر گز منکر نہیں ہوں گی ۔۔۔ کیونکہ کافی دنوں سے میں خود بڑی گرم ہو رہی ہوں ۔۔ اور میری پھدی ایک سخت لن مانگ رہی ہے ۔۔تو اماں کی بات سُن کر جیدا کہنے لگا۔۔۔ کیا بات ہے آج کل بھائی جان آپ کی نہیں مار رہے ؟؟ ۔۔۔ تو اماں کہنے لگیں ۔۔۔ وہ تو بس اب مہینے میں ایک آدھ دفعہ ہی مارتا ہے ۔۔ لیکن اب اس کے لن میں وہ تڑ نہیں رہی ۔۔ بلکہ کافی ڈھیلا ہو گیا ہے اور تم کو پتہ ہے کہ میری چوت کو تمھارے جیسا ایک سخت اور اکڑا ہوا لن چاہیئے ۔۔۔
پھر اچانک اماں جیدے سے کہنے لگیں ۔۔۔ لن کو دھوتی میں کر لو ۔۔ اور گاؤں کی باتیں شروع کر دو کہ ایک عورت ہماری طرف آ رہی ہے ۔۔ اماں کی بات سُن کر میں نے بھی سامنے دیکھا تو ۔۔۔ فیض بھائی کی ساس اماں کی طرف آ رہی تھیں۔۔۔
اماں اور جیدے کی باتیں سُن کر ایک بات تو مجھے کنفرم ہو گئی کہ اماں اور جیدے کا بڑا پرانا معاملہ چل رہا تھا۔۔۔ دوسری بات یہ کہ ان کی باتیں سُن سن کر میں بڑی گرم ہو گئ تھی ۔۔۔ اور اسی گرمی کے تحت میں نے اپنی الاسٹک والی شلوار میں اپنا ہاتھ ڈالا اور چوت کو چیک کیا ۔۔ ۔۔۔ تو اماں کی طرح میری چوت بھی کافی گیلی ہو رہی تھی پھر میں نے اپنی پھدی پر ہاتھ رکھا ۔۔۔تو۔۔۔۔تو وہ گرم آگ ہو رہی تھی۔۔۔ اور میں اپنی گرم پھدی پر مساج کرنے لگی۔۔۔ اپنی چوت پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے مجھے جیدے سائیں کا لن یاد آ گیا ۔۔۔ اورمیں سوچنے لگی ۔۔ کہ جس لن کی تعریف اماں جیسی جہاندیدہ اور ۔۔۔۔ میچور خاتون کر رہیں ہیں وہ لن کیسا ہو گا ؟؟؟؟؟۔۔۔۔ اور پھر میرے اندر سے جیدے سائیں کا لن دیکھنے کی خواہش بڑھنے لگی۔۔۔ اور پھر جیدے کا لن دیکھنے کی میری خواہش جب شدید ہو گئی تو میں نے اپنی شلوار سے ہاتھ نکلا اور سوچنے لگی۔۔۔ کہ میں جیدے سائیں کا لن کیسے دیکھوں ؟؟ سوچتے سوچتے ایک آئیڈیا میرے دماغ میں آیا اور میں نے ۔۔۔ جوتی کا ڈبہ اُٹھایا اور بھابھی کی طرف چل پڑی۔۔۔
وہاں جا کر میں نے جوتی کا ڈبہ بھابھی کے حوالے کیا اور خود باہر آ گئی۔۔۔ اور سیدھی اماں کے پیچھے جا کر ۔۔ بیٹھ گئی کہ۔۔۔اور ان کے کندھے دبانے لگی۔۔۔اماں کے ساتھ فیض بھائی کی ساس بیٹھی ہوئیں تھیں اور سامنے جیدا سائیں بیٹھا چائے پی رہا تھا ۔۔۔ میں بظاہر تو اماں کے کندھے دبا رہی تھی لیکن میری نظریں جیدے سائیں کی ٹانگوں کے درمیان تھیں ۔۔۔ گو کہ جیدے سائیں نے اپنے لن کو دھوتی کے اندر کر لیا تھا لیکن ۔۔مجھے ۔۔۔ابھی بھی دھوتی میں سے اس کے لن کا ابھار نظر آ رہا تھا۔۔۔ مجھے اماں کے کندھے دباتے ہوئے دیکھ کر فیض بھائی کی ساس بولی۔۔۔۔ کیا بات ہے پتر اپنی اماں کی بڑی خدمتیں ہو رہیں ہیں ۔۔۔۔ ان کی بات سُن کر میری بجائے اماں ہنس کر بولیں ۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ کیوں میری خدمت کر رہی ہے ۔۔۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہو کر بولی ۔۔۔ہاں جی میری گڑیا کو کیا چاہیئے۔۔۔۔ ؟؟ میں نے محض جیدے سائیں کے لن کے لیئے اماں کے پاس آئی تھی اور ابھی بھی میری نظریں اس کی دھوتی کے ابھار پر گڑھی ہوئیں تھیں۔۔۔ اماں کی بات سن کر ایک دم چونک گئی اور ۔۔۔ پھر سوچتے ہوئے بولی۔ اماں کل جو لبرٹی میں شاکنک پنک ۔۔۔ جوڑا دیکھا تھا ۔۔۔ لے دو نا۔۔۔ اور پھر جیدے سائیں کے لن کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔ ادھر میری بات سُن کر اماں کہنے لگیں۔۔۔ تم کو اتنے سوٹ جو لے کر دیئے ہیں ۔۔۔ وہ کافی نہیں ہیں کیا۔۔؟ تو میں نے جیدے کے لن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ اماں پلیز !!!! ۔۔۔ تو میری بات سُن کر اماں کہنے لگیں ۔۔۔ ایسے ہی میرے کندھے دباتی رہو میں غور کرتی ہوں ۔۔۔ اور میں اماں کے کندھے دبانے لگی اور ساتھ ساتھ جیدے سائیں کے لن پر نظریں گاڑھے رکھیں۔ مجھے یوں اپنی طرف دیکھ کر اور خاص کر اپنی دھوتی کے ابھار کی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ کر جیدا سائیں کچھ بوکھلا سا گیا ۔۔۔ اور اس نےجلدی سےاپنا لن اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں کیا اور ان کو جوڑ لیا ۔۔۔ اور میری طرف دیکھنے لگا۔۔۔ لیکن اس وقت میں اتنی گرم ہو رہی تھی کہ پھر بھی میں نےاس کی ٹانگون کے بیچ میں دیکھنا جاری رکھا ۔۔۔ جلد ہی جہاندیدہ۔۔۔۔ اور ۔۔۔ عورتوں کا شکاری ۔۔۔(یہ بات مجھے بعد میں پتہ چلی) جیدا ۔۔۔ میری تکلیف سمجھ گیا ۔۔ اور پھر اس نے ایک نظر میری ماں کی طرف دیکھا جو بڑے زور و شور سے فیض بھائی کی ساس کو شادی کی شاپنگ کے بارے میں بتا رہی تھی۔۔۔ اور بڑے طریقے سے اپنی ٹانگوں کو کھول دیا اور اپنا لن کو میرے سامنے کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُف ۔ف۔ف۔۔ف میں دیکھا تو اس کی دھوتی میں ایک بہت بڑا تنبو سا بنا ہوا تھا ۔۔۔۔ جسے دیکھ کر میں لال ہو گئی اور میری پھدی پہلے سے زیادہ گیلی ہو گئی۔۔۔ جیدے نے اپنے لن کی بس ایک جھلک ہی مجھے دکھائی اور پھر وہ چائے پینے لگا ۔۔۔ اور بڑی خاص نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔۔۔ اس کو یوں اپنی طرف دیکھتے ہوئے میں تھوڑا گھبرا گئی اور میں نے اپنی نظریں نیچی کر لیں ۔۔۔ کچھ دیر بعد جیدا چوکی سے اُٹھا اور اماں کو مخاطب ہو کر بولا ۔۔۔۔ باجی میرے لئے کیا حکم ہے ۔۔۔؟؟ ۔۔۔تو اماں نے اسے ایک چھوٹا سا کام دیا اور بولیں یہ کر کے جلدی کہ تم کو اور بھی کافی کام کہنے ہیں ۔۔۔جیسے ہی جیدا گیا ۔۔۔ میرے لیئے وہاں بیٹھنے کی کشش ختم ہو گئ تھی اس لیئے میں نے اما ں سے پوچھا ۔۔۔ اماں جی مجھے وہ سوٹ لے دو گی ناں؟ تو اماں بولی ۔۔ ایک شرط پر۔۔۔کہ تم مجھے دس منٹ تک اور دباؤ۔۔۔۔۔
جیسے تیسے اماں کو دبا کر میں اُٹھی اور وہاں سے جانے لگی تو آگے سے مجھے جیدا نظر آ گیا ۔۔۔اس نے مجھے دیکھ کر کہا ۔۔ ایک منٹ گڈی۔۔۔۔ اور پھر اماں کے سامنے مجھے کھڑا کر کے بولا۔۔۔ نیلو باجی ۔۔ آپ کی لڑکی بلکل آپ پر گئی ہے۔اور پھر کہنے لگا۔۔۔ جیوندی رہے اور اس کے ساتھ ہی اس نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔اور پھر اپنا ہاتھ میرے سر سے پیچھے لے آیا اور میری گانڈ پر ہاتھ لگا کر اسے تھوڑا سا دبا دیا۔۔۔۔ اور میری طرف دیکھنے لگا ۔۔۔ لیکن میں نےکوئی رسپانس نہ دیا۔۔۔۔۔ اور وہاں سے چلی گئی۔۔۔
اسی دن رات کا واقعہ ہے کہ ۔۔ ہم سب مہمانوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے جبکہ دو کام والیاں اور جیدا ہمیں کھانا وغیرہ دینے کے فراض سر انجام دے رہے تھے ۔۔۔ جب کھانا ختم ہوا ۔۔۔ اور باقی سب تو اُٹھ کر چلے گئے بس ابا ہی رہ گئے جو کہ جیدے کے ساتھ گپیں لگا رہے تھے۔۔۔ اچانک میں کسی کام سے وہاں گئی تو جیدے نے میرا ہاتھ پکڑا ۔۔۔۔اور ابا کے سامنے کر کے بولا۔۔۔۔ میاں جی ۔۔۔ آپ کی یہ لڑکی تو بلکل اپنی ماں پر گئی ہے اور پھر ابا کے سامنے ہی اس نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور ۔۔۔ پھر ہاتھ کو واپسی کے بہانے میرے بریسٹ کے ساتھ پریس کر دیا۔۔۔۔ادھر ابا نے اس کی بات سنی اور بولے ۔۔ ہاں یار ۔تم ٹھیک کہتے ہے ۔۔ ہما بلکل ۔۔۔اپنی ماں کی کاپی ہے ۔۔ جیدا ۔۔۔ جو بڑے طریقے سے میرے پیچھے ہو گیا تھا ۔نے ۔ابا کی ہاں میں ہاں ملائی اور اپنا ہاتھ بڑھا کر واضع طور پر میری گانڈ پر رکھ دیا ۔۔۔ میرے سارے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔ اور میں نے بھی اپنی گانڈ کو غیر محسوس طریقے سے تھوڑا پیچھے کیا اور اس نے اپنی ایک انگلی میری گانڈ کی دراڑ میں ڈال دی۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن پھر اس نے اس طرح کے ایک دو ہاتھ کیئے اور بہانے سے میرے بریسٹ اور گانڈ دبائی ۔۔۔ لیکن اس کے علاوہ ۔۔۔ اور کچھ کرنے کا اسے موقعہ نہ ملا۔۔۔اسی طرح شام ہونے کو آئی ۔۔۔ اور اماں نے سب لڑکیوں کو بلا کر کہا کہ مہندی کے فنگشن کی تیاری کے لیئے میں نے دو تین بیوٹی پلرز والی خواتین کو بلایا ہے وہ بس آتی ہی ہوں گی۔۔۔ اماں کی بات سُن کر میں چپکے سے وہاں سے نکل آئی اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سیدھی سٹور روم میں پہنچی۔۔۔۔ ہمارے گھر کا سٹور گیلری کے بلکل آخر میں واقعہ تھا ۔۔ اور وہاں پر عام حالات میں بھی کوئی آتا جاتا نہ تھا ۔۔لیکن آج چونکہ خاص موقعہ تھا اس لیئے میں اس وقت اس سٹور میں کھڑی تھی۔۔۔ اماں کی باتیں سُن کر کل ہی میں نے طے کر لیا تھا کہ مجھے کہاں چھپنا ہے ۔۔۔۔ یہ جگہ۔۔۔ ایک کونے میں تھی ۔۔۔ جہاں پر گھر کا ٹوٹا ہوا فرینچر اور ۔۔دیگر ۔۔۔ کاٹھ کباڑ پڑا ہوا تھا۔۔۔۔ میں جلدی سے جلدی سے ایک پیٹی کے اوپر چڑھی اور پھر وہاں سے رینگتی ہوئی۔۔۔ اسی کونے میں چھت کے قریب پہنچ گئی۔اور وہاں پر جا کر ایک پرانے سے صندوق کے اوپر دبک کر بیٹھ گئی اور ۔۔۔ اور اپنے اوپر ۔۔۔ ۔۔۔ایک پرانا سا کپڑا لے لیا ۔ جو کہ میں نے آج صبع اسی کام کے لیئے وہاں پر رکھا تھا ۔۔۔۔ اپنے اوپر۔۔ کپڑا ڈالنے کا یہ فائدہ تھا کہ اگر بھولے سے اماں یا جیدے کی نظر اوپر پڑ بھی جاتی تو ۔۔۔ میں نظر نہ آ سکتی تھی۔۔میں نے جان بوجھ کر ایسی جگہ کا انتخاب کیا تھا کہ جہاں پر ان کی نظر بلکل نہ پڑتی تھی لیکن مجھے وہاں سے نہ صرف یہ کہ سارا نظارہ صاف صاف نظر آ رہا تھا ۔۔۔ بلکہ ان کی آوازیں بھی صاف سنائیں د ینی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔پھر ۔ میں نے خود کو اچھی طرح سے کیمو فلاج کیا اور ان کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔
میرے چھپنے کے کوئی پندرہ بیس منٹ ( جو کہ مجھے پندرہ بیس گھنٹے لگے ) اماں اور جیدا سٹور روم میں داخل ہوئے۔۔۔۔اس وقت اماں نے ایک ڈھیلا ڈھالا سا سوٹ پہنا ہوا تھا جو کہ اتنا باریک تھا کہ ۔اس میں سے ان کا گورا جسم صاف نظر آ رہا تھا ۔۔۔ میری طرح اماں کے بریسٹ بھی تنے کھڑے تھے ۔۔۔اور مجھے یقین تھا کہ جب اماں اپنی قمیض اتاریں گئیں تو ان کی نپلز اکڑے ہوئے ہوں گے۔۔۔۔ جبکہ جیدے سائیں نے ۔۔حسبِ سابق خانوں والی دھوتی اور آف وائیٹ قمیض پہنی ہوئی تھی۔۔۔ سٹور میں داخل ہوتے ہی اماں نے سٹور کو اندر سے کُنڈی لگائی اور پھر جیدے سے کہا کہ وہ ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی دروازے کے آگے رکھ دیں۔۔۔ جب جیدا سائیں یہ کر چکا ۔۔۔ تو وہ اماں کے قریب آ گیا اور ہلکی سے سرگوشی میں شرارت سے بولا۔۔۔ ہور کی کراں جناب؟۔۔(اب کیا کروں جناب) تو اماں جو کہ شہوت کے نشے میں ٹُن تھیں ۔۔۔ نے جیدے کی دھوتی کے اوپر ہی سے اس کا لن پکڑا اور بولیں۔۔۔ ہور میری پھدی مار۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی۔۔۔ وہ جیدے سائیں کے ساتھ چمٹ گئیں ۔۔۔ قد میں جیدا اماں سے تھوڑا لمبا تھا ۔۔۔ اس لیئے اماں نے اپنی ایڑیاں اُٹھائیں ۔۔۔اور جیدے کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور ۔۔۔ فضا میں کسنگ کی مخصوص پوچ پوچ کی آوازیں گونجنے لگیں۔۔۔۔ اماں اور جیدا ایک دوسرے کے منہ میں منہ ڈالے کسنگ کے مزے لے رہے تھے اور ادھر یہ نظارہ دیکھ کر میری پھدی گرم ہونا شروع ہو گئی۔۔۔ پھر میں نے جیدے کی آواز سنی وہ کہہ رہا تھا ۔۔۔ نیلو جی ۔۔۔ آپ کے ہونٹ بڑے نرم ہیں۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر اماں ترنت ہی بولیں ۔۔۔ تو چوس نہ ان کو۔۔۔ یہ بات سُن کر جیدے نے پھر سے ۔۔۔اماں کے ہونٹ اپنے منہ میں لیئے اور ان کو چوسنے لگا۔۔۔۔۔ اور میں نے دیکھا تو اس کا ایک ہاتھ ۔۔ اماں کے بریسٹ ٹٹول رہا تھا۔۔۔ ان کو دبا رہا تھا۔۔۔۔ اور میں دیکھا کہ اماں کا ہاتھ بھی جیدے کی دھوتی کے اندر تھا۔۔۔ یقیناً وہ جیدے کا موٹا لن اپنےہاتھ میں پکڑے دبا رہی ہوں گی ۔۔ یہ سوچ کر میری چوت سے پانی کا ایک قطرہ نکلا اور میری شلوار کو گیلا کر گیا۔۔۔۔
اماں اور جیدے کافی دیر تک آپس میں ہونٹوں سے ہونٹ ملائے کھڑے رہے اس دوران اماں جیدے کا لن دباتی رہیں ۔۔۔ اور وہ ۔۔۔ اماں کے موٹے موٹے ممے مسلتا رہا۔۔۔ پھر ۔۔جیدے نے اپنا منہ اماں کے منہ سے ہٹایا اور خود ہی اماں کی قمیض کو اوپر کیا اور پھر برا ۔۔ ہٹا کر اماں کے بڑے بڑے سفید مموں کو ننگا کر دیا ۔۔ اور اپنے ان کو اپنے دونوں ہاتھوں سے دباتے ہوئے بولا۔۔۔ نیلو۔۔۔ جی۔۔۔۔آپ کے ممے تو ابھی تک ویسے کے ویسے ہیں ۔۔۔ اس عمر میں بھی یہ کیسے سر اُٹھائے کھڑے ہیں۔۔۔ تو اماں کہنے لگی۔۔۔ جیدے باتیں نہ چود ۔۔۔ میرے ممے چوس۔س س س س س س۔۔۔۔۔اور جیدے اپنا سر جھکایا اور اماں کا ایک ممااپنے منہ لیکر اس کو چوسنے لگا۔۔۔ اماں کے منہ سے ایک سسکی نکلی۔۔۔۔ ہائے ۔ئے ۔۔ ئے۔ ئے ۔۔ اور مستی میں کہنے لگیں ۔۔۔زور دی چوس س سس س ۔۔۔۔۔۔ اور جیدا کافی دیر تک اماں کے مموں کو چوستا رہا۔۔۔۔ پھر ۔۔۔اماں نے خود ہی اس کے سر کو اپنے مموں سے ہٹایا اور بولیں۔۔۔ اب میری پھدی چاٹو۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر اماں نے اپنی شلوار اتاری اور اپنی دونوں ٹانگوں کو کھلا کر کے کھڑی ہو گئیں۔۔۔ یہ دیکھ کر جیدا بھی اکڑوں بیٹھ گیا ۔۔۔ اور اس نے اماں کی پھدی پر منہ رکھا اور پھر ان کے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ان کو اپنا اوپری دھڑ تھوڑا پیچھے کرنے کو کہا ۔۔۔۔ جیدے کا اشارہ سمجھ کر اماں نے پیچھے پڑی بڑی پیٹی پر ٹیک لگائی اور اپنا اوپری دھڑ کوتھوڑا ۔۔۔ پیچھے کر لیا۔۔۔ جیدے نے ان کی چوت پر زبان رکھی اور بولا۔۔۔۔۔ نیلو جی۔۔۔ آپ تو بہت خارج ہو رہیں ہیں ۔۔۔۔۔ تو اماں کہنے لگیں۔۔ اتنے دنوں بعد کوئی من پسند لن ملا ہے تم اب کی بات کر رہے ہی ۔۔۔ میری چوت تو کل سے خارج ہو رہی ہے۔۔۔ پھر بولیں ۔۔۔ اپنی ساری جیب (زبان) کو میری پھدی میں گھساؤ۔۔۔ اور غالباً جیدے نے ایسا ہی کیا۔۔۔ کیونکہ۔۔۔ مجھے اماں کی تڑپتی ہوئی آواز سنائی دی تھی۔۔۔آہ ہ ہ ہ ۔۔۔ جیدے میری پھدی چوس نا۔۔۔۔۔اور پھر میرے خیال میں اماں کی چوت شاید پانی چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔ کیونکہ اماں اپنا سر ادھر ادھر پٹخ رہی تھیں ۔۔۔اور ساتھ ساتھ ۔۔۔ سرگوشیوں میں ۔۔۔۔ بو ل رہیں تھیں۔۔۔ جیدے میری ۔۔۔۔۔چوت ت ت ت ت ت ت ت۔۔۔۔۔۔۔۔اُف ف ف ف ف ف ف ف ۔۔۔ساری کھا جا۔۔۔۔۔۔جیدے مجھے اور چُھٹا ۔۔۔۔ میں اور۔۔چھوٹنا ۔۔۔آہ ہ ہ ہ۔۔اس کے بعد کچھ دیر مزید جیدے نے اماں کی چوت چوسی ۔۔۔۔ پھر وہ اوپر اُٹھا۔۔۔ اور پلے اس نے اپنی قمیض کو اتارا۔۔۔پھر اس نے اپنی دھوتی اتاری۔۔۔۔اور ۔۔۔ جیسے ہی میری نظریں جیسے سائین کے لن پر پڑیں۔۔۔۔ حیرت کے مارے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔۔۔ اس کا لن کالا سیاہ ، بہت موٹا اور لمبا تھا ۔۔۔میرے خیال میں گدھے کے لن سے تھوڑا ہی چھوٹا ہو گا ۔۔۔۔ اُف ۔ف۔ف۔ف۔ف جیدے کا لن دیکھ کر میرے منہ میں پانی پھر آیا اور میرا جی چاہا کہ میں ابھی نیچے اتروں جیدے کا لن اپنی گیلی پھدی میں لے لوں ۔۔۔۔۔
ادھر جیسے ہی جیدا ننگا ہوا ۔۔ تو وہ سیدھا اماں کے سامنے جا کھڑا ہوا۔۔۔ جیدے کا لن دیکھ کر اماں کی آنکھوں میں چمک آ گئی تھی اور انہوں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اس کا لن پکڑ لیا۔۔۔ اور بولیں ۔۔ جیدے میں ٹھیک کہتی تھی ۔۔۔۔ تمھارا لن پہلے سے زیادہ بڑا ہو گیا ہے ۔۔۔ پھر ۔۔اماں لن کو غور سے دیکھ کر بولیں۔۔۔ ہوں ں ں ں ں ۔۔۔ اور موٹا بھی پہلے سے زیادہ ہو گیا ہے ۔۔۔ پھراماں نے اپنے نرم ہاتھوں سے جیدے کا لن آگے پیچھے کرنے لگیں۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ اماں کے نرم ہاتھوں کا لمس اپنے لن پر پاتے ہی۔۔۔ مستی کے مارے جیدے کی آنکھیں بند ہو رہیں تھیں۔۔۔اور جیدے کا لن دیکھ دیکھ کر میری پھدی خود بخود بند اور کھل رہی تھی۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے بڑی احتیاط سے اپنی شلوار میں ہاتھ ڈالا اور ایک انگلی اپنی چوت کے اندر ڈالی اور اپنے ۔۔دانے کو مسلنے کے ساتھ ساتھ ۔۔۔۔۔ سامنے کا نظارہ بھی دیکھنے لگی۔۔۔۔ جہاں جیدا اماں سے کہہ رہا تھا ۔۔ نیلو جی ۔۔۔ اب میرے لن کو چوس نا ۔۔ اس کی بات سُن کر اماں نے ایک نظر جیدے کو دیکھا اور بولیں ۔۔۔۔ تم چوسنے کی بات کر رہے ہو ۔۔۔۔ میں تو اس کو کھا جاؤں گی۔۔۔۔ بلا شبہ اماں ایک گرم عورت تھی ۔۔۔ اور اس سے کچھ بعید نہ تھا کہ وہ جیدے کا لن کھا بھی جاتی سو میں اپنی گیلی چوت کے ساتھ اماں کو دیکھنے لگی کہ وہ جیدے کا لن کیسے چوستی ہے؟؟؟ ۔۔ اور میں نے دیکھا کہ سٹور کے فرش پر اماں اکڑوں بیٹھی تھی ۔۔۔۔اور اس کے ہاتھ میں جیدے کا کالا موٹا سا لن تھا اور اما ں بڑی شہوت بھری نظروں سے اس کے لن کو دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس کےبعد دھیر ے دھیرے اماں نے اپنا منہ کھولا۔۔۔ اور اپنے ہونٹو ں کو جیدے کے لن کی سمت لانے لگیں۔۔۔۔ پھر ان کے ہونٹ جیدے کے لن کے اور قریب آئے اور ۔۔۔ اس سے پہلے کہ اماں کے ہونٹ ۔۔ جیدے کے لن سے ٹچ ہوتے ۔۔۔ ان سے پہلے ہی اماں نے اپنی لمبی سی زبا ن باہر نکالی اور ۔۔۔ جیدے کا لن کو چاٹنے لگیں۔۔۔۔۔۔اماں کے زبان کا لمس ۔۔۔۔ پاتے ہی۔۔۔۔ جیدے کے منہ سے سسکیوں کا طوفان ۔۔ نکلنے لگا۔۔۔ سس سس۔۔سس۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔ اور وہ بولا۔۔۔ نیلو۔۔۔۔میرے لن کو اپنے منہ میں لو نا۔۔۔ اس کی بات سُن کر اماں نے ایک گول دائیرے کی شکل میں جیدے کے ٹوپے پر اپنی زبان پھیری اور پھر دھیرے دھیرے ۔۔۔ اس کا لن اپنے منہ میں لینے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔
اما ں کے لن چوسنے کا یہ دل کش نظارہ دیکھ کر میں تو پاگل ہو گئی ۔۔۔اور ایک بار پھر میرا جی چاہا کہ میں نیچے چھلانگ لگاؤں اور ۔۔اماں سے جیدے کا لن چھین کر اپنے منہ میں ڈال لوں۔۔۔۔۔ پھر بڑی مشکل سے میں نے اپنی اس خواہش پر قابو پایا ۔۔۔۔اور آہستہ آہستہ اپنے دانے کو رگڑتے ہوئے نیچے کا منظر دیکھنے لگی۔۔۔
کافی دیر تک اماں جیدے کا لن اور بالز(ٹٹے) نہ صرف یہ کہ چوستی رہی تھی بلکہ چاٹتی بھی رہی تھی۔۔۔ پھر اماں اُٹھی ۔۔۔اور جیدے کو پرے ہٹا کر اس کی جگہ خود کھڑی ہو گئی اور اپنے گداز جسم کو تھوڑا ڈھیلا چھوڑا ۔۔اور اپنی بڑی سی گانڈ کو تھوڑا پیچھے کی طرف کیا ۔۔۔اور دونوں انگلیوں سے اپنی چوت کے لب کھول دیئے ۔۔۔۔ واؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔ اماں کی چوت بڑی ہی پُر گوشت اور کافی کھلی تھی۔۔۔۔۔اور اندر سے سُرخ اور چکنی تھی۔۔۔ مجھے اوپر سے بھی ان کی چوت کے لبوں کے اندر پڑا ہوا پانی صاف نظر آ رہا تھا اب میں نے دیکھا تو جیدا اماں کے عین پیچھے آ گیا تھا اور اب اس نے اپنا شاندار لن۔۔۔ اماں کے چوت کے لبوں پر رکھا ۔۔۔ اور ٹوپے کو ان کی چوت کے لبوں پر رگڑنے لگا۔۔۔ کچھ دیر تو اماں نے صبر کیا ۔۔۔ پھر کہنے لگیں ۔۔ جیدے مستی نہ کر ۔۔۔۔ لن کو مر ے اندر ڈال۔۔۔۔۔۔ یہ سُن رک جیدے نے اپنا ٹوپا ۔۔۔اماں کی چوت کے لبوں کے اندر رکھا اور ۔۔ایک ہلکا سا دھکا لگایا ۔۔۔۔ لن پھسل کر اماں کی کھلی چوت میں داخل ہو گیا۔۔۔ اور اماں نے ایک ۔۔ مستی بھری ۔۔۔۔سسکی لیکر کہا ۔۔۔۔۔۔۔ سارا ڈال۔۔۔ اور جیدے نے اگلا گھسا مارا ۔۔۔اور اس کا لن سارے کا سارا ۔۔۔اماں کی چوت میں داخل ہو گیا۔۔۔۔۔ پھر اس نے اماں کو اپنے دونوں ہاتھ پیٹی پر رکھنے کو کہا اور ۔۔۔۔ اور پھر جیدے نے اماں کی چوت کی پٹائی شروع کر دی۔۔۔۔ اس کے ہر گھسے پر۔۔۔۔ اماں ۔۔ کہتی ۔۔۔۔ زور دی جیدے ۔۔۔ زور دی۔۔(جیدے زور سے مار) اور جیدا مزید زور سے گھسہ مارتا ۔۔ اس طرح کوئی 10، 15 منٹ تک جیدا مختلف زاویوں سے اماں کی چوت مارتا رہا۔۔۔۔ادھر شہوت کے مارے میرا برا حال ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اور میں اپنی چوت کے دانے کو رگڑتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔رگڑتی جا رہی تھی۔۔۔۔اور پھر اپنی چوت کو رگڑتے رگڑتے اچانک میری نظر چھت پر گئی تو مجھے ایک۔موٹی تازی۔۔۔ چھپکلی ۔۔۔ نظر آئی۔۔ جو رینگتی ہوئی میری طرف آ رہی تھی ۔۔ چھکلی کو اپنی طرف آتے دیکھ کر میری روح فنا ہو گئی لیکن عین اس وقت میں نے جیدے سائیں کی آواز سُنی وہ گہرے گہرے سانس لے رہا تھا ۔۔۔اور کہہ رہا تھا۔نیلوووووووو۔۔۔۔۔ باجی ی ی ی ی ی ی ی۔۔۔۔۔۔۔ میں چھوٹ رہا ہوں۔۔۔ اور میں اس موٹی ۔۔۔۔چھپکلی کو بھول کر نیچے کی طرف متوجہ ہو گئی جہاں ۔۔۔ جیدے کو چھوٹتا دیکھ کر اماں بھی دھائی دے رہیں تھیں ۔۔ جیدے میری پھدی میں چھوٹنا ۔۔۔ میری پھدی میں ں ں ں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے دیکھا کہ اماں کا پورا جسم بڑی زور سے کانپا۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی جیدا بولا۔۔۔۔۔۔ نیلو ۔۔۔۔تیری پھدی تنگ ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ اور پھر میں نے اماں کی آواز سُنی وہ کہہ رہیں تھی۔۔۔شاباش جیدے اور چُھوٹ ۔۔۔۔۔۔تمھارا ۔۔پانی میں اپنی چوت میں محسوس کر رہی ہوں۔۔۔۔۔ اماں کی بات سُن کر جیدا بھی کہنے لگا۔۔ نیلو۔۔ جی نیلو ۔۔۔ میری جان۔۔۔ تمھاری چوت کا پانی میرے لن سے ہوتا ہوا ۔۔۔ باہر نکل رہا ہے ۔۔آآآآ۔۔۔ہ ہ۔۔۔ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔اور اس کےساتھ ہی جیدے نے اماں کی ہپس کو پکڑا ۔۔۔اور گہرے گہرے سانس لینے لگا۔۔۔۔ کچھ دیر بعد۔۔۔۔و ہ ایسے ہی رہا ۔۔۔ پھر اماں نے اسے پیچھے ہٹنے اور اپنی چوت سے لن نکلنے کا کہا ۔۔۔ اماں کی بات سُن کر جیدا نے پیچھے ہٹ کر اماں کی پھدی سے اپنا لن نکلا ۔۔۔ تو میں نے دیکھا کہ جیدے کا لن نیم کھڑا تھا ۔۔اور اس نیم کھڑے لن پر چاروں طرف ۔۔۔۔ منی لگی ہوئی تھی۔۔۔۔ اب اماں بھی سیدھی ہو گئیں تھیں اور انہوں نے جیدے کا لن ۔۔جو کہ منی سے لتھڑا ہوا تھا اپنے ہاتھ میں پکڑا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے تھوڑا سا ہلا کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔ صواد (مزہ) آگیا جیدے۔۔اور پھر پاس پڑے کپڑے سے جیدے کا لن اچھی طرح صاف کیا اور پھر اسی کپڑے سے اپنی پھدی کو صاف کیا ۔۔۔اور پھر جلدی سے کپڑے پہنے ۔۔ادھر جیدے نے بھی جلدی قمیض پہنی اور دھوتی پہن کر اماں سے بولا ۔۔۔ اب کیا کرنا ہے ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔ پہلے میں نکلوں گی۔۔۔ تم یہ منجھی (چارپائی) اور تکیئے لیکر کر لان میں آ جانا ۔۔
ان دونوں کی فراغت کے بعد مجھے چھپلیی کی یاد آئی تو میں نے ڈرتے ڈرتے اوپر نگاہ کی تو وہ موٹی چھپکلی سرکتے ہوئے اب ۔۔۔۔ عین میرے سر پر پہنچ چکی تھی۔اور اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے مجھے گھورے جا رہا تھ۔۔ اور اتنے قریب سے چھپکلی کو دیکھ کر مجھے ابکائی سی آ گئی۔۔۔۔ لیکن میں نے بڑی مشکل سے اس کو روکا۔۔۔۔ اور دعا کرنے لگی کہ چھپکلی یہاں سے دفع ہو جائے ۔۔۔ پر۔۔۔۔ وہ نہیں گئی۔۔۔ اور اب وہ تھوڑا اور سرک کر میرے پاس آ گئی تھی۔۔۔ یہ وہی ٹائم تھا۔۔۔ کہ جب جیدے نےدروازے کے آگے پڑی ہوئی چارپائی ہٹائی تھی ۔۔۔۔۔اور اماں دروازے سے باہر جانے لگی تو میں نے ہاتھ بڑھا کر چھکلی کو دور کرنے بڑی کوشش کی لیکن جتنا میں اس کو اپنے دور کرتی۔۔۔ وہ اتنا ہی میرے پاس آتی۔۔۔ میں نے ایک نظر نیچے دیکھا۔۔۔۔ اماں جانے وقت جیدے کے ہونٹؤں کو چوم رہی تھی ۔اماں تو جیدے کے ساتھ کسنک کر رہی تھی اور ادھر ۔ اوپر میری جان کو بنی ہوئی تھی۔۔۔ اور میں دل ہی دل میں کہہ رہی تھی ۔۔۔اماں پھدی مروا لی ہے۔۔۔ پلیززززززززز ۔۔۔اب چلی بھی جاؤ۔۔ ادھر چھپکلی ۔اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے مجھے گھورتی جا رہی تھی۔۔۔اور میری طرف بڑھ رہی تھی اسے اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر ڈر کے مارے میرا پِتہ پانی ہو رہا تھا ۔۔۔ اور نیچے جیدے اماں کا کسی نئے شادی شدہ جوڑے کی طرح بوسہ لمبا ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔آخر۔۔۔اماں نے جیدے کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹائے۔۔۔ اور بولی دل تو یہی کر رہا ہے کہ ایک دفعہ پھر تمھارا لن لوں لیکن۔۔۔۔۔ پہلے ہی کافی دیر ہو گئی ہے ۔۔۔اور وہ باہر جانے لگی۔۔۔اماں کو جاتے دیکھ میں نے شکر کیا۔۔لیکن اس کے ساتھ ہی میں نے دیکھا تو ۔۔۔۔ وہ موٹی چھپکلی۔۔۔ میری کپڑے پرچڑھ چکی تھی۔۔۔ ۔۔۔چھکلی کو اپنے اتنے قریب دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے چھپکلی سے بچنے کے لیئے میں نے زور سے ہاتھ ہلایا ۔۔اور غلطی سے میرا ہاتھ اتنی زور سے ہل گیا کہ ۔۔ کہ میں اپنا توزن برقرار نہ رکھ سکی اور ۔۔۔میں ۔اس ٹوٹے ہوئے فرینچر سے ہوتی ہوئی۔ایک زور دار آواز سے ۔۔نیچے فرش پر گر گئی۔۔مجھے ۔نیچے گرتے دیکھ کر جیدے کی آنکھیں حیرت کے مارےپھٹنے کے قریب ہو گئیں ۔۔۔اور پھر میں نے باہر سے اماں اور ۔۔کسی دوسرے مرد کی آواز سنی ۔۔ وہ کہہ رہے تھے کیا ہوا ۔؟؟ ۔کیا ہوا۔؟؟؟؟؟؟۔۔ ۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔۔ اماں کے ساتھ اس مرد کی آواز سنتے ہی ڈر کے مارے میری آنکھیں بند ہونے لگیں۔۔میں نے جیدے کی طرف دیکھا ۔۔۔اور ۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی۔۔۔۔باقی۔۔ آئیندہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments: