ترَاس قسط۔۔۔۔۔2

    ترَاس                                 
                                                                                                                                                 2ترَاس ۔۔۔
یہ سب کچھ تو میں کر لیا تھا ۔۔۔ لیکن سیکس کے بارے میں میرا تجسس بڑھتا جا رہا تھا میں اس بارے میں جانا چاہتی تھی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ یونی کو کھجانے سے مزہ کیوں ملتا ہے ۔اور چوت سے یہ چپ چپا سا پانی کیوں نکلتا ہے ؟؟؟؟؟؟۔۔وغیرہ وغیرہ اس قسم کے کئی سوالات تھے جو میں جاننا چاہتی تھی لیکن ۔۔۔۔ میں ڈر کی وجہ سے کسی سے بھی بات نہ کر سکتی تھی وجہ ۔۔۔وہی گھر کا سخت اور روایتی سا ماحول کہ جس میں سیکس کو شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتا تھا ۔۔۔سیکس کے بارے میں، میں معلومات حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن کسی سے بات کرتے ہوئے ڈرتی تھی اس لیئے میں چاہنے کے باوجود بھی۔۔ میں کسی سے سیکس بارے میں بات نہ کر سکی اور بس یوں ہی اپنی یونی کے دانے کو رگڑ رگڑ کر گزارا کرتی رہی ۔۔۔۔ ۔۔۔ ایک بات کا تو مجھے پتہ چل گیا تھا کہ میری دو ٹانگوں کے درمیان والی جگہ جسے ہم چوت کہتے ہیں ۔گیلی لکڑی کی طرح ہر وقت سُلگتی رہتی تھی۔۔اور ۔۔۔ بہت زیادہ ڈیمانڈنگ تھی اور جب تک میں اس پر لگے دانے کو اچھی طرح سے کھجا نہ لوں یا اس کو کہیں رگڑ نہ لوں میری بے چینی دور نہ ہوتی تھی - اور اتنے زیادہ رگڑنے کے باوجود بھی یہ ہر گز ٹھنڈی نہ ہوتی تھی ۔۔ہاں تھوڑا وقتی سکون ضرور مل جاتا تھا ۔۔
مجھے سکول چھوڑنے کا کام ابا کے ذمہ تھا وہ مجھے اپنے آفس جاتے وقت سکول چھوڑ جاتے تھے جبکہ سکول سے واپسی پر میں اپنی سہیلی نسرین کے ساتھ آتی تھی اس کا گھر ہمارے گھر سے ایک دو گلیاں پہلے آتا تھا جبکہ سکول ہمارے گھر سے پانچ چھ گلیاں دور تھا ۔ میرے لڑکپن کا دور کا قصہ ہے کہ اس وقت میں سویٹ ٹین میں تھی اور میری جوانی کی اُٹھان بڑی زبردست تھی ۔۔۔میری خوبصورتی کی سبھی تعریف کرتے تھے اورایک دن کی بات ہے کہ حسبِ معمول چھٹی کے بعد میں نسرین کے ساتھ خوش گپیاں کرتے ہوئے گھر کی طرف لوٹ رہی تھی کہ اتنے میں .... میں نسرین کا گھر آگیا ۔۔۔اور وہ مجھے بائے بائے کرتے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہو گئی ۔۔ اس کے بعد مجھے دو تین گلیاں اور کراس کرنا تھیں تو آگے والی گلی میں میرا گھر تھا ۔۔۔ جیسے ہی نسرین مجھے ٹا ٹا کر کے اپنے گھر میں داخل ہوئی ۔۔ ایک لڑکا تیزی سے آگے بڑھا اور میرے آگے آگے چلنا شروع ہوگیا ۔۔۔اس نے ایک دو دفعہ مجھ سے بات کرنے کی کوشش بھی کی لیکن میں نے ڈر کے مارے اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور چپ چاپ سر جھکا کر چلتی رہی ۔۔۔ پھر اس کے بعد اس لڑکے کا یہ معمول بن گیا تھا کہ جیسے ہی نسرین اپنے گھر میں داخل ہوتی پتہ نہیں وہ لڑکا کہاں سے نازل ہو جاتا اور میرے ساتھ ساتھ چلنے لگتا ۔۔۔ شروع شروع میں تو مجھے بہت الجھن ہوئی لیکن اس کے بعد میں اندر ہی اندر اس کا انتظار کرنی لگی ۔۔۔ لیکن مسلہ یہ تھا کہ اندر سے میں بہت بزدل تھی اور خاص کر میں بھائیوں سے بہت ڈرتی تھی کیونکہ میرے بھائیوں نے مجھے صاف کہہ رکھا تھا کہ اگر انہوں نے میرے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات سُن لی تو وہ نہ صرف یہ کہ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے بلکہ مجھے سکول سے بھی اُٹھوا لیں گے ۔۔۔ اور مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا اور میں پڑھنا چاہتی تھی اس لیئے پہلے تو میں اس لڑکے کو اگنور کرتی رہی لیکن وہ تھا بھی ایک ڈھیٹ قسم کا عاشق تھا روز میرے ساتھ ساتھ یا میرے آگے چلتا ۔اور۔ مجھ سے بات کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا لیکن میں ڈر کے مارے اس سے کوئی بات نہ کرتی تھی۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مجھے اپنے بھائیوں کا بھی بہت ڈر تھا ۔۔۔ اس لیئے میں نے نہ تو اس بات کا نسرین اور نہ ہی کسی اور سے ا س لڑکے کا زکر کیا ۔۔۔ کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ میری دوست نسرین پیٹ کی بہت ہلکی ہے ۔۔اور اگر میں اس سے اس لڑکے کا تزکرہ کر دیتی ہوں ۔۔تو اس نے جھٹ سے یہ بات سارے سکول کو بتا دینی تھی ۔۔۔ اور اسی سکول میں فیض بھائی کی سالی بھی پڑھتی تھی اور میں نہیں چاہتی تھی کہ میرا کوئی سکینڈل نکلے اور مجھے سکول سے ہاتھ دھونے پڑیں ۔۔ لیکن تابکہ ۔۔۔۔ بھائیوں کی دھمکیاں اپنی جگہ۔۔۔ لیکن میرے نیچے بھی ایک چیز لگی ہوئی تھی۔۔۔جو بہت پیاسی تھی اور ۔۔۔ ہر وقت مجھے تنگ کرتی رہتی تھی ۔۔ اور خاص کر اس ہینڈ سم لڑکے کو تو دیکھ کر ۔۔۔اب مجھے بھی کچھ کچھ ہونے لگا تھا ۔۔۔اور اس کی تیز نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے ۔۔۔میرے من کی کچی کلی بھی مہکنے لگی تھی اور ۔۔۔ شاید یہ اس کچی کلی کی مجبوری تھی ۔۔۔
۔کہ ایک دن میں بھی اس کی طرف دیکھنے لگی ۔وہ ایک گورا چٹا اور کیوٹ سا لڑکا تھا جو ہمارے سکول سے آگے ایک بوائز کالج میں پڑھتا تھا ۔۔قد اور عمر میں مجھ سے کافی بڑا ہو گا ۔۔ اس کی آنکھیں سیاہ اور ناک نقشہ بہت اچھا تھا ۔۔ میں نے اسے دیکھا اور ۔۔من ہی من میں اسے پاس کر دیا۔۔۔۔۔ ۔۔اسی طرح ایک ہفتہ اور گذر گیا۔۔ وہ روزانہ بڑی باقاعدگی سے میرے ساتھ ساتھ یا میرے آگے پیچھے چلتا اور جب میں گھر داخل ہو جاتی تو وہ بھی واپس چلا جاتا تھا۔۔۔ ایک دن جب میں گلی میں اکیلی جا رہی تھی تو اس نے تھوڑی ہمت کی اور بولا ۔۔۔ ہیلو آپ کیسی ہیں ؟ لیکن میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔ اور چُپ چاپ چلتی رہی ۔۔۔۔ اسی طرح دو تین دن اور گزر گئے ۔۔وہ روز مجھ سے یہی بات کرتا تھا لیکن میں کوئی جواب نہ دیتی تھی ۔ اور ایک دن جب میں اسی گلی داخل ہوئی جو کہ عام طور پر سنسان ہی رہتی تھی ۔۔۔۔تو وہ ایک دم میرے سامنے رُک گیا اور ہاتھ جوڑ کر بولا ۔۔ پلیز میری بات کا جواب تو دو۔۔۔ تو میں نے کہا ہاں بولا کیا بات ہے تو وہ کہنے لگا۔۔۔ شکر ہے آپ بولی تو ۔ورنہ تو میں سمجھا تھا کہ آپ گونگی ہیں ۔۔تب میں نے اس سے کہا تم روز کیوں میرا پیچھا کرتے ہو ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اور چلنے لگی تو وہ بولا ۔۔ میں آپ کی اس بات کا ۔۔۔۔آپ کو کل جواب دوں گا او ر میرے آگے آگے چلنے لگا ۔۔ اگلے دن جب میں اسی سنسان گلی میں داخل ہوئی تو اچانک وہ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا اور بولا کل آپ نے پوچھا تھا نہ کہ میں روز آپ کا پیچھا کیوں کرتا ہوں تو میں نے اس کی ساری وجہ اس خط میں لکھ دی ہے پلیز اسے پڑھ لو اور اس کے ساتھ ہی اس نے ہاتھ بڑھا کر مجھے وہ خط دینا چاہا ۔۔۔ لیکن میں نے اس کو کوئی جواب نہ دیا اور چپ چاپ چلتی رہی ۔۔۔ وہ سارا رستہ میری منتیں کرتا رہا لیکن میں نے اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔ اسی طرح تین چار دن اور گذر گئے وہ روز مجھے خط دینے کی کوشش کرتا اور میں اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دیتی تھی ۔اصل میں ۔۔ میں اس کا خط لینے سے اس لیئے ڈرتی تھی ۔۔ کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے ۔۔۔۔ اسی طرح کافی دن گزر گئے اور آخر ایک دن مجھے اس پر ترس آ گیا اور میں نے اس سے کہا اس خط میں کیا لکھا ہے تو اس نے بڑے رومینٹک لہجے میں جواب دیا کہ اس خط میں میں نے اپنا حالِ دل لکھا ہے تم پلیز اسے ایک بار پڑھ تو لو۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں نے سوچا اس کا خط پڑھ کر دیکھتے ہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے اور اس سے وہ خط وصول کر لیا ۔۔۔
۔ جیسے ہی میں نے اس کے ہاتھ سے وہ خط لیا وہ یوں میرا شکریہ ادا کرنے لگا کہ جیسے میں نے اس پر کوئی بہت بڑا احسان کر دیا ہو۔۔۔ خیر میں نے اس سے وہ خط لیا اور سیدھا گھر آ گئی اور اپنے کمرے میں جا کر سب سے پہلے اسے لاک کیا اورپھر دھڑکتے دل کے ساتھ ڈرتے ڈرتے اس کا خط کھولا ۔۔ جیسے ہی میں نے اس کے دیئے ہوئے خط کو کھولا۔۔تو سارا کمرہ ایک بہت ہی عمدہ سے پرفیوم کی خوشبو سے مہک اُٹھا ۔۔جو اس نے سارے خط پر چھڑکا ہوا تھا ۔۔۔۔ اتنی اچھی خوشبو سُونگھ کر میرا موڈ خوش گوار ہو گیا ۔اور نے اسے کھول کر پڑھا ۔۔تو اس نے لکھا تھا ۔۔۔ میری اپنی ۔۔اور بہت پیاری ۔۔ ہما جی (پتہ نہیں اس کو میرے نام کا کیسے پتہ چل گیا تھا ) ۔۔۔۔دل کی گہرائیوں سے آپ کو میرا محبت بھرا سلام قبول ہو ۔۔۔ ۔۔پھر آگے لکھا تھا ۔۔۔۔ سب سے پہلے تو آپ کی اس بات کا بہت بہت ۔۔۔۔ شکریہ کہ آپ نے اپنے نازک ہاتھوں ۔سے میرا خط لیا ۔۔۔اور اس وقت میرا یہ خط آپ کی پیاری پیاری اور سرمگیں آنکھوں کے سامنے ہے ۔۔۔ ہما جی۔۔۔۔ یقین کریں اوپر والے نے آپ کو فرصت میں بیٹھ کر بنایا ہے۔۔۔ اور میں آپ کے اس ملکوتی حُسن کا دیوانہ ہوں ۔۔۔ جب سے میں نے آپ کو دیکھا ہے میں خود کو بھول گیا ہوں ۔۔پتہ نہیں آپ نے مجھ پر کیا جادو کر دیا ہے کہ ۔ سوتے جاگتے اُٹھتے بیٹھے۔ چلتے پھرتے۔۔۔۔بس۔۔ آپ ہی کی موہنی صورت میری آنکھوں کے سامنے گھومتی رہتی ہے۔پھر آگے اس نے ایک مشہور گانے کا یہ شعر لکھا ہوا تھا ۔۔
تم ہی بتاؤ کہ ہم کیا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاروں طرف دیکھتے ہیں تمھیں۔۔۔۔۔ کلیوں میں تم ہو ۔۔۔۔ بہاروں میں تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دل کے ہر ایک نظاروں میں تم ۔۔۔۔۔۔۔
۔پھر لکھا تھا ہما جی ۔پتہ نہیں آپ کی حسین آنکھوں میں کیا جادو ہے کیا کشش ہے کہ میں ہر وقت ان میں ہی گُم رہتا ہوں ۔۔ہما ۔۔جی ۔۔ میں آپ کا بیمارِ محبت ہوں اور شفا صرف اور صرف آپ ہیں۔۔۔ میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔۔۔ جس دن آپ نظر نہیں آتیں ہیں وہ دن میرا بہت خراب گزرتا ہے ۔اور جس دن آپ نظر آ جاتیں ہیں وہ دن میرے لیئے عید کا دن ہوتا ہے ۔۔۔۔اس طرح کی رومانوی باتوں کے ساتھ ساتھ اس نے اس خط میں اور بھی بہت سارے محبت بھرے شعر لکھے ہوئے تھے جو کہ اس وقت مجھے یاد نہ آ رہے ہیں ہاں ان اشعار کا لبِ لباب یہ تھا کہ وہ مجھ سے بہت حد محبت کرتا تھا ۔۔۔ اور اس کے لیئے میں دنیا کی سب سے حسین لڑکی تھی اور ہاں خط کے سائیڈوں پر بڑے بڑے حاشیئے بھی لگے ہوئے تھے اور ان حاشیوں کے ایک طرف ترتیب کے ساتھ بہت سے سرخ رنگ کے دل بنے ہوئے تھے اور ان دلوں میں تیر کھبے ہوئے تھے ۔۔۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ تیر کے لگنے کی وجہ سے اس دل سے خون بھی ٹپک رہا تھا ۔۔۔ آخر میں اس نے لکھا تھا صرف اور صرف تمھارا اپنا ۔۔۔۔۔ سمیر۔۔
۔۔ اس سمیر نامی لڑکے کا وہ خط چار صفحات پر مشتمل تھا ۔اور اس کے ہر صفحے پر محبت بھرے ڈائیلاگ لکھے ہوئے تھے جن کو پڑھ کر میں بڑی متاثر ہوئی تھی ۔۔سمیر کے ہاتھ کا لکھا وہ خط ۔۔۔ میں نے بے شمار دفعہ پڑھا اور جب مجھے وہ خط زبانی یاد ہو گیا تومیں نے اسے پرزہ پرزہ کر کے فلش میں بہا دیا ۔۔۔ اور پھر سارا دن سمیر کے خط کے مندرجات پر غور کرتی رہی کہ آیا واقعہ ہی میں اتنی خوبصورت ہوں یا کہ وہ ایسے ہی بلف مار رہا ہے؟ اس کے ساتھ ہی میں ڈریسنگ کے سامنے سٹول پر بیٹھ گئی اور بڑے غور سے اپنا جائزہ لینے لگی ۔۔۔ اس میں تو کوئی شک نہ تھا کہ میں ایک گوری چٹی۔۔ چمکتے ہوئے رنگ ۔۔۔اور بہت اچھے نین نقش والی لڑکی تھی گو کہ میرے بریسٹ ابھی چھوٹے تھے لیکن اتنے چھوٹے بھی نہ تھے ۔۔۔اور ابھی سے میرے سینے کی اُٹھان ایسی غضب تھی کہ جب میں سینہ تان کر چلتی تھی تو بڑے بڑے لوگوں کے دل ہل جاتے تھے –
اور یوں میری اس لڑکے سے کہ جس کا نام سمیر تھا سے دوستی کی ابتدا ہو گئی اور اب تو وہ روز ہی مجھے خط دینے لگا تھا جسے میں گھر آ کر دو تین دفعہ پڑھتی تھی ۔۔اور پھر اسے فلش میں بہا دیتی تھی ۔۔۔پتہ نہیں وہ اتنے رومینٹک الفاظ کہاں سے ڈھونڈ کر لکھتا تھا کہ جن کو پڑھ کر میں گھائل ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔ پہلے پہلے تو اس نے اپنے خطوط میں بڑی ہی رومانوی باتیں لکھی تھیں کہ جن کو پڑھ کر میں سپنوں کی دنیا میں کھو جاتی تھی پھر آہستہ آہستہ اس کے خط کے مندرجات بدلنے لگے ۔۔۔ اور اب وہ اپنے خطوط میں مجھ سے ملنے کا تقاضہ کرنے لگا ۔۔۔گو کہ میرا بھی دل کرتا تھا کہ میں اسے اکیلے میں ملوں لیکن میری پوزیشن ایسی نہ تھی کہ میں اسے مل نہ سکتی تھی ا سی طرح دن گزرتے رہے ۔۔۔ اب میں اس کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ بھی لگانے لگی تھی اور وہ خاص کر میری خوبصورتی کی بڑی تعریف کرتا تھا اور زبانی بھی ملنے کی درخواست کرتا رہتا تھا ۔اور اس کے ساتھ ساتھ خطوط بھی جاری تھی ۔۔۔ جن میں کہ وہ مجھ سے ملنے کا تقاضہ کرتا تھا ۔۔۔ ۔۔ پھر کچھ عرصہ بعد سمیر کے خطوط کا لہجہ مزید بدل گیا اور اب وہ وہ رومانوں باتوں کے ساتھ ساتھ میرے جسم خاص کر میرے بریسٹ کی بڑی تعریف لکھنا شروع ہو گیا ۔۔۔ جسے پڑھ کر مجھے بہت اچھا لگتا تھا اس کےساتھ ساتھ اب وہ چلتے چلتے مجھے ٹچ بھی کر لیتا تھا مجھے یاد ہے کہ جب پہلی دفعہ اس نے مجھے ٹچ کیا تھا تو میرے سارے بدن میں ایک عجیب سی سنسنی پھیل گئی تھی ۔۔۔ پھر اس کے بعد وہ عموماً مجھے ضرور چھوتا تھا اور اس کا اس طرح سے مجھے چھونا مجھے بہت اچھا لگتا تھا ۔۔
ہمارے سکول سے گھر کے راستے میں اس سنسان گلی کے نکڑ پر ایک ایسا گھر بھی پڑتا تھا کہ جس کے آگے ایک باڑھ سی لگی ہوئی تھی اور اس باڑھ نے اس گھر کو تین طرف سے گھیر رکھا تھا ۔۔۔۔ان کے مین گیٹ سے اندر داخل ہو تو گیٹ کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا لان تھا اور اس لان کے کونے میں درھیک کے دو تین درخت اکھٹے ہی لگے ہوئے تھے جن کی وجہ سے وہاں ایک چھوٹی سے آڑ سی بن گئی تھی ۔۔۔۔ اور ان درختوں سے ہٹ کر یعنی کہ ایک سائیڈ پر اس گھر کا گیٹ تھا ۔۔ اس گھر میں دو ہی لوگ رہتے تھے ایک میاں اور ایک اس کی بیوی اور یہ دونوں ہی خاصے بوڑھے تھے مرد تو کام کے لیئےصبع سویرے ہی گھر سے نکل جاتا تھا ۔۔ جبکہ خاتون گھر میں ہی اکیلی ہی رہتی تھی ان کے بچے وغیرہ اگر تھے بھی تو وہ ان کے ساتھ نہیں رہتے تھے ۔۔۔ یہ باتیں مجھے سمیر نے بتائیں تھیں ہوا یوں کہ سکول سے واپسی پر حسبِ معمول اس نے ملنے کی تکرار کی ۔۔۔ تو میں نے بھی اسے روز والی بات کی کہ تم تو جانتے ہی کہ میرا گھر سے نکلنا کتنا مشکل ہے ۔۔ تب وہ کہنے لگا کہ اچھا ایسا کرو کہ تم مجھ سے یہاں ہی مل لو ۔۔تو میں نے کہا روز تو ملتی ہوں تو وہ بڑے ہی حسرت بھرے لہجے میں بولا ۔۔۔۔ نہیں ایسے نہیں نا میری جان میں تم سے گلے ملنا چاہتا ہوں تمھارے یہ رس بھرے ہونٹ چوسنا چاہتا ہوں اور سب سے بڑی بات یہ کہ میں تمھارے یہ چٹانوں جیسے ۔۔۔ بریسٹ اپنے سینے سے لگانا چاہتا ہوں وہ ظالم باتیں ایسی کررہا تھا کہ میرا دل کر رہا تھا کہ ابھی میں اس کو اپنے سینے سے لگا لوں ۔۔۔ اور نیچے میری دونوں رانوں کے بیچ والا سوراخ بھی اس بات کی تاکید کر رہا تھا ۔۔۔ لیکن میرے لیئے مسلہ یہ تھا کہ میں کسی بھی صورت ایسا نہ کر سکتی تھی اور جب میں نے اس سے یہ بات کی تو وہ کہنے لگا اچھا اگر تم کو میں اس گلی میں ہی ملنے کو کہوں تو۔۔!!!
تو میں نے اس کو کہا کہ اس گلی میں تو ہم روزانہ ہی ملتے ہیں تب اس نے اس باڑھ واے گھر کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بتلایا ۔۔۔ اور ساتھ ہی اس کی نشاندہی بھی کی۔۔۔۔ تو میں نے اس کو بولا پہلے میں خود اس بارے میں جان لوں تب ہی کچھ فیصلہ کروں گی ۔۔۔۔ تو وہ بولا جان ۔۔ میں سچ کہہ رہا ہوں اور ویسابھی وہاں ہم نے بس ایک ٹائیٹ سی جھپی ہی تو لگانی ہے ۔۔۔۔ اور اگر ٹائم ہوا تو تھوڑی سی کسنگ کر لیں گے ۔۔۔۔۔ لیکن میں نے اسے بغیر تحقیق کے ملنے سے صاف انکار کر دیا اور بولی جب تک میں خود تسلی نہ کر لوں میں تمھارے ساتھ وہاں نہیں جاؤں گی ۔۔۔ تو وہ مان گیا ۔۔۔ اور بولا ۔۔ لیکن پلیز ۔۔۔اپنی تحقیق جلدی کرنا ۔۔۔ کہ اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا ۔۔۔اس کی بات سُن کر میں نے ہان میں سر ہلادیا ۔۔۔۔۔۔ اگلے دو تین دن میں نے بڑے طریقے سے اپنی کلاس فیلوز سے اس جگہ کے بارے میں معلومات لی تو جس طرح سمیر نے اس جگہ کے بارے میں بتلایا تھا وہ جگہ ویسی ہی نکلی ۔۔ اچھی طرح تحقیق کرنے کے بعد میں نے اس جگہ سمیر سے ملنا کا پروگرام بنا لیا۔۔۔۔
اگلے دن جب میں سکول سے نکلی تو گرمی بڑے زور کی پڑ رہی تھی ۔۔۔ اور ویسے بھی گرمیوں کی چھٹیاں ہونے میں ابھی ایک مہینہ باقی تھا ۔۔سمیر کو میں نے ایک دن پہلے ہی اس جگہ ملنے کا گرین سگنل دے دیا تھا۔۔۔۔چنانچہ اس دن پروگرام کے مطابق میں جلدی ہی سکول سے باہر آ گئی اور نسرین کا انتظار کرنے لگی اور ادھر ادھر دیکھا تو تھوڑا آگے مجھے سمیر نطر آ یا اور اس نے اشارے سے بتلایا کہ وہ اسی باڑھ والی جگہ درختوں کے پاس ہی ہو گا میں سیدھی وہاں آ جاؤں ۔میں نے اس کی طرف دیکھا اور سر ہلا دیا میرا اشارہ دیکھ کر وہ واپس مُڑا اور چلا گیا اور اسے جاتے دیکھ کر میرے سارے بدن میں ایک عجیب سی سنسنی پھیل گئی ۔۔۔ کیونکہ یہ میری پہلی ڈیٹ تھی اس لیئے میری ٹانگیں بھی کانپ رہیں تھیں اور دل بھی بہت کر رہا تھا کہ میں جا کر سمیر کے گلے لگ جاؤں اور اپنے بریسٹ اس کے سینے سے چپکا دوں ۔۔۔
نسرین سے الوداع ہو کر چلتے ہوئے میں اسی سنسان گلی میں پہنچی ۔۔ ۔جس کے کونے پر وہ باڑھ والا گھر تھا میں کن اکھویں سے ساری گلی کا جائزہ لیتے لیتے جب اس باڑھ والے گھر کے قریب پہنچی تو شدتِ جزبات سے میرا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا اور میری دو رانوں کے بیچ ایک عجیب سی ہل چل مچی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ گیٹ کے قریب پہنچ کر اچانک میرا سکول بیگ زمین پر گر گیا اور یہ میں نے جان بوجھ کر کیا تھا ۔۔چنانچہ میں بیگ اُٹھانے کے لیئے نیچے جھکی اور اسی بہانے میں نے ایک دفعہ پھر سارا گلی پر نظر پر ڈالی تو حسبِ سابق مجھے وہ گلی ویران نظر آئی ۔۔۔۔یہ دیکھ کر میں جلدی سے اُٹھی اور گیٹ جو کہ ہر وقت کھلا ہی رہتا تھا ۔کے اندر داخل ہو گئی سامنے ہی درختوں کے پاس سمیر کھڑا تھا اور مجھے اپنی طرف آنے کا اشارہ کر رہا تھا میں نے سر ہلا یا اور دبے پاؤں ان درختوں کے پاس پہنچ گئی۔۔۔اور پھر ہم دونوں جڑے ہوئے درختوں کے دوسری طرف ہو گئے اب پوزیشن یہ تھی کہ ایک طرف تین چار درخت اکھٹے کھڑے تھے اور ان درختوں کے سامنے گھنی باڑھ تھی ان درختوں اور باڑھ کے درمیان ایک تنگ سی جگہ تھی جہاں اس وقت میں اور سمیر کھڑے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے باڑھ اور درخواں کے ایک سائیڈ پر ایک پتلی سی گلی نما راستہ تھا اور اس راستے سے ہو کر ہم اس جگہ تک پہنچے تھے ۔اس طرح ہمارے تین ا طراف میں قدرتی طور پر ایک محفوظ سی جگہ بن گئی تھی ۔ چوتھی جگہ گو خالی تھی لیکن وہ اتنی تنگ تھی کہ اگر کوئی درختوں کی آڑ میں ہو جائے تو دور سے کچھ نظر نہ آتا تھا ۔۔۔ وہاں پہنچ کر میں نے ایک دفعہ پھر چاروں اطراف کا جائزہ لیا اور پھر مطمئن ہو گئی اور سمیر سے پوچھا کہ اس نے یہ جگہ کیسے ڈھونڈی ۔۔۔ ؟ میری بات سُن کر سمیر نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور محبت بھرے لہجے میں کہنے لگا ۔۔ محبت سب کرواتی ہے میری جان ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا اور اسے اپنے ہوٹوں تک لے گیا ۔۔۔۔ جیسے ہی اس کے ہونٹوں نے میرے ہاتھ کی پشت کو چھوا ۔۔۔۔میرے سارے بدن میں ایک جھرجھری سی پھیلی اور ۔۔۔میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ مجھے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔ اسے اس طرح جگر پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے دیکھ کر مجھے شرم آ گئی ۔۔۔ اور میں نے اپنا سر جھکا لیا ۔۔۔ میری اس ادا پر سمیر تو مر ہی گیا اور اس نے اپنا ایک ہاتھ میری ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور پھر میرا منہ اوپر کر کے بولا۔۔۔۔ میری طرف دیکھو نا میری جان ۔۔۔ تو میں نے اس کو جواب دیا کہ ۔۔۔۔ مجھے شرم آ رہی ہے تب وہ آگے بڑھا اور اپنا منہ میرے گالوں کے قریب کر کے بولا ۔۔۔۔۔۔ہما جی اگر۔۔۔ اجازت ہو تو میں آپ کے شرم سے لال ہوتے ہوئے گال چوم لوں ۔۔۔ میں کچھ نہ بولی ۔۔۔تو اس نے اس بات کو میری رضامندی سمجھا اور آگے بڑھ کر اس نے میرے گالوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور ان کو چوم لیا ۔۔۔۔۔اپنے گالوں پر اس کے ہونٹوں کا لمس پاتے ہی ۔۔۔ میں ۔۔۔ بے حال ہی گئی لیکن بولی کچھ نہیں ۔۔۔ اور خود کو اس کے حوالے کر دیا ۔

0 comments: