ترَاس قسط۔۔۔۔۔6

ترَاس                                 
                                                                                                                                                  6ترَاس ۔۔۔
اگلے دو تین دن تک وہ مسلسل مجھے اپنی بے گناہی کا یقین دلاتا رہا ۔۔۔۔ لیکن میں ٹس سے مس نہ ہوئی تو پھر اچانک ہی ایک دن اس کی ٹون تبدیل ہو گئی اور وہ مجھے دھمکی دیتے ہوئے بولا کہ اس دن جس لڑکے کے ٹٹوں پر تم نے مارا تھا وہ تین دن ہسپتال میں داخل رہا ہے اور اب ٹھیک ہو کر اور مجھ سے تمھارا پتہ مانگ رہا تھا ۔۔ پھر مکاری سے کہنے لگا۔۔۔۔ تم کو معلوم ہے نہ کہ وہ کس قدر خطرناک لڑکا ہے اگر میں نے اس کو تمھارا پتہ دے دیا تو وہ تم کو اُٹھا کر لے جائے گا ۔۔۔ اور پھر جو حشر وہ تمھاے ساتھ کرے گا اس سے تم بخوبی واقف ہو۔۔۔۔۔ اس لیئے تمھارے لیئے بہتری اسی میں ہے کہ تم میرے ساتھ دوبارہ سے دوستی کر لو۔۔۔ ورنہ۔۔۔۔۔ ۔۔۔
اور پھر وہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر چلا گیا ۔۔۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کی دھمکی سے میں کافی حد تک خوف ذدہ ہو گئی تھی ۔۔۔۔ لیکن اس کی بلیک ملنگ نے مجھے مزید مشتعل کر دیا تھا ۔۔۔ویسے بھی چونکہ پانی سر سے بڑھ گیا تھا اس لیئے میں نے سمیر کا بندوبست کرنے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔
دوستو۔۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں ۔۔۔سب سے بڑے فیض بھائی ہیں لیکن میرے سب سے چھوٹے بھائی جن کا نام حمید ہے ان کے ساتھ میری بڑی بنتی ہے اور حمید بھائی کوئی کام نہیں کرتے بلکہ تھوڑی بہت پہلوانی کا شوق تھا۔۔۔ گھر میں ابا کےبعد میرا سب سے پکا ووٹ حمید بھائی ہی تھے میں کیا سارا محلہ انہیں بھا میدا ۔۔ کہتا تھا ۔۔سمیر کی دھمکی نے مجھے کافی کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔ اس لیئے گھر آ کر بھی میں کافی دیر تک اسی کے بارے میں سوچتی رہی اور پھر میرے زہن میں بھا میدا ۔۔۔ آ گیا ۔۔۔ اور میں اس کی طرف چل پڑی ۔۔ بھا میدے کا کمرہ گھر کے پیچھے کی طرف تھا ۔۔ جہاں پر ایک کمرہ تھا ۔۔۔جسے بھا میدا ۔۔۔۔ اپنا ڈیرہ کہتا تھا ۔۔۔۔ جب میں اس کے کمرے کے قریب پہنچی تو اس وقت وہ کمرے کے باہر ایک بڑے سے ڈول میں چمچ ڈالے کچھ ہلا رہا تھا ۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے نعرہ لگایا اور خالص لاہوری اور پہلوانی لہجے میں بولا ۔۔ وہ آئی میری پتڑ۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔۔آجا ۔۔پتڑ۔۔۔میں نے بڑے مزے کی سردائی بنائی ہے تُو بھی پی لے۔۔۔ لیکن میں نے ان کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور ان کے سامنے دھرے مُوڑھے پر بیٹھ گئی۔۔وہ کچھ دیر تک تو مجھے دیکھتے رہے ۔۔۔ پھر انہوں نے ڈول میں چمچ ہلانا بند کیا اور اُٹھ کر میرے پاس کھڑے ہو گئے اور ۔۔ میرے سر پر ہا تھ پھیر کر بولے۔۔ کیا بات ہے میرا پتڑ ۔۔۔ بڑ ی پریشان لگ رہی ہو۔۔۔۔ان کے پیار سے پتہ نہیں کیوں میں بلک پڑی اور سسکیاں لے لے کر رونےلگی۔۔۔مجھے روتا دیکھ کر بھا ایک دم گھبرا گیا اور کہنےلگا۔۔۔ بات تو بتا کیا ہوا۔۔۔۔ تب میں نے۔۔۔ ان سے کہا ۔۔ بھا جی ایک لڑکا ہے جو روز مجھے سکول سے آتے ہوئے تنگ کرتا ہے۔۔۔ اور آج اس نے مجھ سے کہا کہ میں اس سے بات نہیں کروں گی تو وہ مجھے اُٹھا کر لے جائے گا ۔۔۔ میری بات سُن کر بھا میدا ۔۔۔ حیرت سے بولا ۔۔۔۔ یہ کیا کہہ رہی ہو پتڑ ۔۔۔ ایسا کون ہے جو میدے پہلون کی بہن کو اُٹھانے کی بات کر رہا ہے ؟؟؟ ۔۔۔ اسے معلوم نہیں کہ تم کس کی بہن ہو ۔۔تو میں نے کہا ۔۔۔ کہ پتہ نہیں ۔۔۔ اسے معلو م ہے کہ نہیں ۔۔۔ لیکن اس نے میری زندگی عذاب کی ہوئی ہے ۔اور میرا سکول سے آنا حرام کیا ہوا ہے ۔۔میری بات سُن کر بھا نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہنے لگا۔۔۔۔ کما ل ہے یہ بات تم نے پہلے کیوں نہیں بتائی۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔ کہ آپ کو فیض بھائی کا پتہ ہی ہے ۔۔۔ وہ پہلے ہی میرے پڑھنے کے سخت خلاف ہے ۔۔اس لیئے ۔۔۔ تو میری بات سمجھ کر وہ کہنے لگا۔۔۔ اوہو ۔۔ جھلیئے ۔۔۔ تم نے فیض کو نہیں مجھے بتانا تھا نا ۔۔۔ پھر بولا ۔۔۔ خیر ۔۔ کوئی بات نہیں ۔۔ میرا پتڑ تم بے فکر ہو کر سکول جاؤ ۔۔ کل کے بعد کوئی لڑکا تو کیا ۔۔ پرندہ بھی تمھاری طرف نہیں دیکھے گا ۔۔۔ پھر اس نے مجھ سے سکول سے واپسی کا ٹائم اور راستہ پوچھا ۔۔۔ میں نے اسے سب بتایا اور جانے لگی تو پھرایک بار پھر میں نے اس سے کہا ۔۔۔ بھا پلیز ۔۔۔ یہ بات فیض بھائی کو نہ بتانا ۔۔۔میری بات سُن کر وہ کہنے لگا۔۔۔۔ بے فکر ہو کے جا ۔۔۔ میرے پتڑ۔۔۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔۔۔ اور پھر میرے سر پر ہاتھ پھیر کر بولا ۔۔۔ اگر ایسی کوئی بات ہو تو پہلے بتا دیا کر۔۔۔ تیرا بھائی ابھی زندہ ہے۔۔۔ اور میں ۔۔۔وہاں سے چلی گئی۔۔۔
اگلے دن چھٹی کے وقت میں نے دیکھا تو بھا اور اس کے دو تین دوست گیٹ کے سامنے کھڑے تھے۔۔۔ لیکن مجھے دیکھ کر بھا نے منہ پھر لیا ۔۔۔۔ بھا کو دیکھ کر میرا دل دھک دھک کر رہا تھا اور سخت ڈر بھی لگ رہا تھا کہ کہیں میرا راز نہ فاش ہو جائے ۔۔ لیکن اب تیر کمان سےنکل چکا تھا۔۔۔اور میں کچھ بھی نہ کر سکتی تھی ۔۔۔۔ راستے میں دو تین دفعہ نسرین نے مجھ سے اس بارے پوچھا بھی ۔۔۔ لیکن میں اس کو ٹال گئی ۔۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد نسرین کا گھر آ گیا اور وہ ۔۔۔ حسبِ معمول ٹاٹا کر کے اپنے گھر چلی گئی۔۔۔ اس کے جاتے ہی میں بھی اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئی لیکن اب میرے قدم من من بھر کے ہوگئے تھے اور ڈر کے مارے مجھ سے ٹھیک سے چلا بھی نہ جا رہا تھا لیکن کسی نہ کسی طرح میں چلتی رہی ۔۔ نسرین کے گھر سے تھوڑا آگے ہی گئی تھی ۔۔ کہ سمیر ۔۔حسب، معمول ۔۔اچانک ۔ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔۔آج اس کے ساتھ وہی خبیث شکل والا لڑکا بھی تھا ۔۔۔ اسے دیکھ کر میری تو روح ہی فنا ہو گئی اور بہت زیادہ خوف ذدہ ہو کر اس لڑکے کی طرف پھٹی پھٹی نظروں سے طرف دیکھنے لگی ۔۔۔ تبھی ۔۔ سمیر ۔ دھمکی آمیز لہجے میں بولا ۔۔ یہ کہہ رہا ہے کہ اگر تم ابھی اور اسی وقت ہمارے ساتھ چلو ۔۔۔ تو۔۔۔ یہ تم کو معاف کر سکتا ہے ورنہ ہم مجبوراً تم کو اُٹھا کر لے جائیں گے ۔۔ ۔۔ ۔۔۔ ابھی سمیر نے اتنی ہی بات کی تھی ۔۔۔کہ پیچھے سے بھا نے اس کو گریبان سے پکڑا ۔۔ اور بولا ۔۔۔ کس کو اُٹھا نے کی بات کر رہےہو تم ۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟۔۔ میں ایک دم رُک گئی ۔۔۔ تو بھا نےمجھے کہا ۔۔۔میں اس کو اس کے سورمے کو دیکھ لو ں گا ۔۔۔۔ تو گھر جا ۔۔۔۔ اور ۔۔ بھا کی بات سُن کر میں نے ایک بار بھی مُڑ کر پیچھے نہیں دیکھا اور تیز تیز قدم اُٹھاتی ہو ئی گھر آ گئی۔۔۔۔۔
مجھے نہیں معلوم کہ اس کے بعد سمیر اور اس اوباش لڑکے کے ساتھ بھا میدے اور اس کے دوستوں نے کیا سلوک کیا تھا ۔۔ہاں میں نے ان کا انجام جاننے کی کوشش ضرور کی تھی ۔۔۔ اور اس بارے میں میں نے بھا سے بات بھی کی تھی ۔۔ لیکن میری بات سُن کر اس نے صرف اتنا ہی کہا کہ ۔۔۔بے فکر ہو جاؤ پتڑ۔۔آج کے بعد کوئی بھی تم کو نہیں ستائے گا۔۔۔۔۔ ہاں میں یہ ضرور کہوں گی کہ اس دن کے بعد سمیر تو کیا میں نے اس کا سایہ بھی اپنے سکول کے آس پاس نہیں دیکھا ۔۔
اس واقعہ کا مجھ بڑا شدید جزباتی اور نفسیاتی اثر ہوا تھا ۔۔ اور میں اتنا ڈر گئی تھی کہ میں نے قسم ڈال لی تھی کہ آئیندہ میں کسی راہ چلتے ہوئے کسی لڑکے کو کبھی بھی لفٹ نہیں بھی دوں گی۔اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی بات کروں گی ۔۔ اور اس کے بعد میں بڑے آرام سے گھر سے سکول اور سکول سے گھر آتی جاتی تھی۔۔۔ اس حادثے کا مجھ پر دوسرا اثر یہ ہوا تھا کہ کافی عرصہ تک میں سیکس کو بھول ہی گئی تھی ۔۔ اس طرح ۔۔۔کافی عرصہ بیت گیا ۔۔جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ میرے زہن کے پردے سے بھی یہ حادثہ بھی محو ہوتا گیا۔۔۔ ۔۔ اورزندگی اپنےڈگر پہ چلنے لگی ۔۔۔ ایک دن کی بات ہے کہ اس دن میرے پیریڈز ختم ہوئے تھے اور صبع سے ہی مجھے اپنے جسم میں ایک عجیب سی بے چینی نظر آ رہی تھی ۔۔۔ لیکن میں نے اس پر دھیان نہ دیا ۔۔۔اور روز مرہ کے کام کاج کے بعد سو گئی ۔۔۔ رات کا جانے کون سا پہر تھا کہ۔۔۔اچانک میری آنکھ کھل گئی ۔۔۔ دیکھا تو میرا سارا جسم پسینے میں نہایا ہوا تھا۔۔۔۔ اور انگ انگ دُکھ رہا تھا اور ایک عجیب سی بے چینی ۔۔۔اور گرمی نے میرے سارے جسم میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔۔ میں بستر سے اُٹھی اور باہر جا کر فریج سے ٹھنڈے پانی کی پوری بوتل پی۔۔۔ لیکن۔کوئی فائدہ نہ ہوا ۔۔۔ گرمی تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔۔۔۔ میں نے ایک بار پھر فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل لی اور کمرے میں آ گئی ۔۔۔ کمرے میں داخل ہوتے وقت اچانک میری نظریں ۔۔۔ سامنے پڑے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑیں ۔۔۔ اور پھر اچانک۔۔۔ مجھے یاد آ گیا ۔۔۔ کہ یہ اتنی گرمی کیوں آ رہی ہے۔۔ یہ بات یاد آتے ہی میں نے جلدی سے درازے کو لاک کیا پانی کی بوتل تپائی پر رکھی اور کمرے کی لائیٹ آن کر کے ڈریسنگ کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور ۔۔۔ شیشے کی طرف دیکھتے ہوئے دھیرے دھیرے ۔۔۔۔ اپنے کپڑے اتارنے لگی ۔۔۔ سب سے پہلے میں نے اپنی شرٹ اتاری ۔اور اپنے جسم کو دیکھنے لگی۔۔۔۔میرے موٹے موٹے بریسٹ برا سے ڈھکے ہوئے تھے ۔۔۔ اس وقت میں نے سکن کلر کی برا پہنی ہوئی تھی۔۔ اور سکن کلر کی برا سے میرے اکڑے ہوئے نپل صاف نظر آ رہے تھے ۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ یہ ابھی برا پھاڑ کر باہر آ جائیں گے ۔ میں نے برا کے اوپر سے ہی ان کو پکڑا اور ان کو اپنی انگلیوں میں لے کر مسلنے لگی۔۔جس سے میرے جسم میں اور آگ بھڑکنا شروع ہو گئی ۔۔ اور میں نے جلدی سے نپلز کو چھوڑا اور برا بھی اتار دی
۔۔اب میں آئینے کے سامنے ننگے بریسٹ کے ساتھ کھڑی تھی ۔ بڑے دنوں کے بعد میں نے شہوت بھری نظروں کے ساتھ اپنے بریسٹ کو دیکھا ۔میرے بریسٹ پہلے کے مقابلے میں کچھ بڑے ہو گئے تھے ۔۔۔ اور ان کی اُٹھان بھی پہلے کے مقابلے میں کافی زیادہ ہو چکی تھی۔۔ اس پر سونے پہ سہاگہ میرے ۔۔۔ پنک کلر کے نپلز تھے۔ جو میرے اُٹھے ہوئے مموں پر ایک عجیب شان سے اکڑے کھڑے تھے کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے ۔۔مجھے اپنے ممے اور نپلز دیکھ کر بڑی ہوشیاری آئی اور میں نےاپنے ایک ممے کو ہاتھ میں پکڑا پھر اپنا سر جھکا یا اور اپنی لمبی سی زبان اپنے منہ سے باہر نکالی اور اپنے نپل کو چاٹنے لگی۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ میرے ایسے کرنے سے نیچے میری چوت میں ہلکی ہلکی آگ لگنا شروع ہو گئی خیر کچھ دیر تک تو میں باری باری اپنے دونوں نپلز کو چاٹتی رہی ۔۔ پھر جب نیچے سے میری پھدی کی فریاد کافی تیز ہو گئی تو میں نے ۔اپنے ممے دبانے اور نپلز چاٹنے بند کر دیئے اور ۔۔۔ ۔۔۔۔پھر میں نے اپنی شلوار اتار کر ایک سائیڈ پر پھینک دی اور ۔۔۔ اب میں ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے کے سامنے الف ننگی کھڑی تھی۔۔۔۔۔۔ اور میں نے خود کو دیکھا ۔۔تو ۔شہوت کے مارے ۔۔ میرے نپلز ۔۔۔ میری چوت ۔۔چوت کا دانہ ۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میری چوت کے پھڑکتے ہوئے ہونٹ ۔۔۔۔۔ اور ۔۔میں ۔۔۔ہم سب ۔۔ایک اَن دیکھی آگ میں جل رہے تھے اور یہ آگ دم بدم بڑھتی ہی جا رہی تھی ۔۔میرا جسم ٹوٹ رہا تھا
۔ اس سے پہلے کہ یہ آگ مجھے جلا دیتی میں نے ا پنی دو انگلیاں اپنے منہ میں ڈالیں اور ان کو اچھی طرح گیلا کیا پھر۔۔۔ پھر میں نے ڈریسنگ ٹیبل والی چھوٹی سی سٹول نما کرسی کو اپنے نزدیک کیا اور اپنی ایک ٹانگ اس پر رکھ دی اور پھر اپنی چوت کے لبوں کو کھو ل کر بڑے ہی غور سے ان کو دیکھنی لگی۔۔میری چوت سے کافی مقدار میں رس ٹپک رہا تھا ۔۔ جس کی وجہ سے میری چوت کا اندرونی حصہ ۔۔۔ آف وائیٹ پانی سے بھرا ہوا تھا ۔۔ میں نے وہی گیلی انگلیوں کو چوت کے ہونٹوں کے اندر ڈِپ کیا ۔۔اور انگلیوں کو اپنی چوت کے پانی سے اچھی طرح بھگو کر ۔۔۔۔۔۔ اپنے دانے پر رکھا ۔۔۔۔۔ اور ۔انہیں ایک ۔ گول دائرہ سا بنا کر دانے پر آہستہ آہستہ مساج کرنے لگی۔۔۔ دانہ مست تو پہلے ہی تھا ۔۔۔اب ۔۔۔ مزید شہوت میں آ کر ۔۔۔۔ مچلنے لگا۔۔اور مزید پھول گیا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میرے سارے بدن میں ۔۔۔ مزے کی لہریں ۔۔ دوڑنے لگیں ۔۔۔اور ادھر ۔۔ دانے پر مساج کی وجہ سے میری چوت میں چدنے کی خواہش شدید سے شدید تر ہونے لگی۔۔۔۔ اور میری چوت کے ہونٹ بے قرار ہو کر خود بخود ۔۔کُھل بند ہونے لگے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے دانے پر ہلکا مساج چھوڑا اور ۔۔اور اس پر تیز تیز رگڑائی کرنے لگی۔۔ مین جتنی تیزی سے ۔۔۔دانے کو رگڑتی مجھے اتنا ہی زیادہ مزہ ملتا تھا ۔۔۔ پھر میں نے اس دانے کو کو جو رگڑائی کی وجہ سے کافی سُرخ ہو رہا تھا اور تیزی سے رگڑنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔ تیززززززز۔۔۔ اور۔۔ تیززززززززززززز۔۔۔۔اور اس کے ساتھ اور مجھ پر ایک عجیب سی خماری چھانے لگی اور اس خماری کی وجہ سے خود بخود میری آنکھیں بند ہونے لگیں ۔۔ اور ۔۔پھر میری پھدی میں ایک شدید قسم کی اکڑن پیدا ہو گئی ۔۔میں ۔۔۔ اپنے آخری مراحل میں داخل ہو گئی ۔۔تھی ۔۔۔۔ اور پاگلوں کی طرح اپنے دانے کو رگڑے جا رہی تھی ۔۔۔رگڑے ۔۔جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر۔۔ایسا کرتے کرتے میں بے حال سی ہو گئی۔۔۔ اور مجھ میں اپنے دانے پر مزید انگلیاں چلانے کی ہمت نہ رہی ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن پھرررررررر۔۔۔بھی میں نے آخری دفعہ اپنے کانپتے ہاتھوں سے دانے پر ۔۔دونوں انگلیاں پھیریں اور پھر شدتِ جزبات میں آ کر میں نے اپنی پھدی کے نرم گوشت کو اپنی مُٹھی میں پکڑا ۔۔۔اور اسے بُری طرح مسلنے لگی۔۔۔۔پھدی کا نرم گوشت ۔۔ مسلتے مسلتے ۔۔۔ ایک دم سے میری ٹانگیں کانپنا شروع ہو گئیں ۔۔۔ اور ۔۔پھر اچانک میری پھدی سے پانی کا ایک سیلاب نکلا ۔۔اور میری ٹانگوں کے راستے نیچے کی طرف بہنے لگا ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ میں ۔۔۔ چھوٹ رہی تھی۔۔ خود کو چھوٹتا دیکھ کر ۔۔ مجھ میں مزید ہمت نہ رہی اور میں اپنی پھدی ہاتھ رکھے رکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بے دم سی ہو کر پلنگ پر گر گئی اور ۔۔۔ لمبے لمبے سانس لینے لگی۔ میری چوت سے نکلنے ولا گرم پ انی نیچے کی طرف بہتا جا رہا تھا ۔۔۔ کیونکہ بہت عرصے بعد میں نے یہ کام کیا تھا ۔۔ اس لیئے میری چوت ۔۔سے نکلنے ولا پانی کم ہونے کا نام ہی نہ لے رہا تھا ۔۔۔۔پھر ۔لمبے لمبے سانس لیتے ہوئےپتہ نہیں کب میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سویرے جو پھر آنکھ میری کھلی ۔۔۔ تو میں نے دیکھا کہ میں بستر پر ایک عجیب بے ہنگم سے انداز ننگی سوئی ہوئی تھی ۔۔۔ میری چوت اس آس پاس کے ایریا پر ۔۔۔ گاڑھے ہلکے زردی رنگ کا مادہ لگا ہوا تھا اور۔۔ بستر کی چادر میری چوت کا پانی جزب کر کر کے اکڑی ہوئی تھی ۔۔گویاکہ میری صبع کہہ رہی تھی میرے رات کا فسانہ۔۔۔ ۔۔اور رات کے واقعہ کے بعد میں کافی فریش ہو گئی تھی۔۔۔اور میں نےخود کر کافی ہلکہ پھلکا محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر اس کے بعد میں اپنی اُسی پرانی روٹین پر آ گئی اور ہر دوسرے تیسرے دن ۔۔۔ اپنی انگلیوں سے کام چلا کر اپنا گزارہ کرنے لگی۔۔۔ا س دوران کافی لڑکوں نے مجھ پرڈورے ڈالنے کی کوشش کی لیکن میں نے کسی کو کوئی لفٹ نہ دی ۔۔ میں خاموشی سے سکول اور سکول سے گھر آتی تھی ۔۔۔ یوں میرے کیس سے بات نہ کرنے اور نہ ہی کسی کو لفٹ کرانے سے گلی محلے میں میری شہرت ایک شریف لڑکی کی بن گئی ۔۔۔ کالج پہنچنے تک میں اپنے آپ سے بہت زیادہ لزت حاصل کر تی رہی ۔۔اور اب چونکہ میں فُل جوان ہو گئی تھی اس لیئے اب میری چوت انگلیوں کے علاوہ ۔۔۔۔۔ کچھ اور چیز بھی ڈیمانڈ کر نے لگی تھی ۔۔ اور چونکہ میں نے اپنے آپ سے پکا وعدہ کیا ہوا تھا کہ میں باہر کسی بھی لڑکے کو لفٹ نہ دوں گی۔۔اور میں اپنے وعدے پر قائم تھی ۔۔ اس لیئے ۔۔ میں نے کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو سنبھالے رکھا تھا ۔۔۔۔۔ پھر میرے بڑے بھائی فائق کی شادی آ گئی ۔۔۔بھائی کو ایک ملٹی نیشن کمپنی میں ایک بہت اچھی جاب ۔مل گئی تھی۔۔۔ اور وہاں سیٹ ہوتے ہی انہوں نے ابا اماں کو اپنی پسند بتا دی تھی بھائی کی پسند یدہ لڑکی کا نام عطیہ تھا ۔۔عطیہ کی امی اور میری اماں آپس میں دور پار کی کزن بھی تھیں ۔ وہ لوگ بہاولپور رہتے تھے اور بھائی نے اماں کی فیملی کے کسی فنگشن میں عطیہ بھابھی کو دیکھا تھا اور تب سے اس پر لٹو ہو گیا تھا ۔۔۔میرے ولدین نے بھائی کی پسند قبول کر لی اور پھر ۔۔ اماں نے اپنی فیملی کی ۔۔۔ایک دو عورتیں بیچ میں ڈالیں اور ۔۔ ان لوگوں سے عطیہ بھابھی کے رشتے کی بابت پوچھا ۔۔تو ۔۔۔ انہوں نے جھٹ سے ہاں کر دی ۔۔۔ اس کی ایک وجہ ہم لوگوں کا خوشحال ہونا ۔۔۔۔ اور دوسری وجہ۔ ۔۔۔۔ لڑکے کی بہت اچھی جاب ہونا تھی جبکہ تیسری اور سب سے آخری وجہ یہ تھی کہ ۔۔۔ لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے تھے ۔۔اور یہ ایک طرح سے ان کے پسند کی شادی تھی۔۔۔۔۔ چنانچہ ادھر سے ہاں ہوتے ہی ۔۔اماں ۔۔ابا۔۔ فیض بھائی کی بیوی ۔۔۔ اورمیں۔۔بہالپور چلے گئے ۔۔۔ اور نہ صرف یہ کہ وہاں جا کر ہم فائق بھیا کی منگی کر آئے بلکہ شادی کی تاریخ بھی پکی کر آئے ۔
بہاولپور سے واپس آتے ہی اماں نے بڑے زور وشور سے فائق بھائی کی شادی کی تیاریاں شروع کر دی تھیں ۔۔۔ چونکہ شادی میں وقت کم تھا ۔۔۔ اس لیئے ہر کام جلدی جلدی ۔۔۔ میں ہو رہا تھا ۔۔۔اور پھر اسی گہما گہمی میں شادی کے دن نزدیک آگئے ۔۔۔ جیسے ہی شادی کے دن قریب آئے اماں نے چھوٹے موٹے کاموں کے لیئے اپنے گاؤں سے دو تین کامے (کام کرنے والے ) منگوا لیئے تھے ۔۔جو دو عورتوں اور ایک مرد پر مشتمل تھا ۔۔۔ عورتیں گھر کے کام کاج اور خاص کر کچن کے کام کے لیئے تھیں اور مرد ۔۔ جس کا پورا نام تو پتہ نہیں کیا تھا پر سب اس کو جیدا سائیں کہہ کر بلاتے تھے۔۔۔ جیدا سائیں اچھے ڈیل ڈول والا ۔۔ پکی عمر کا ۔۔۔۔ مضبوط جسم اور گہری سانولی رنگ والا آد می تھا ۔۔۔ ہمارے گھر ہر غمی خوشی کے موقعہ پر باقی لوگوں کے ساتھ جیدا سائیں ضرور آیا کرتا تھا ۔اس کے علاوہ بھی جیدے سائیں کا جب بھی لاہور آنا ہوتا تھا تو وہ ہمارے گھر آیا کرتا تھا ۔۔بلکہ ہمارے پاس ہی رہا کرتا تھا ۔یہ شخص اماں لوگوں کا خاندانی نوکر تھا اس لیئے اماں اس کا بڑا لحاظ کرتی تھیں اور اپنی ہر غمی خوشی کے موقعہ پر اسے ضرور بلایا کرتی تھیں ۔۔۔۔۔ جیدا اچھا خاصہ سیانہ بیانہ اور عقل والا آدمی تھی اور کسی طرف سے بھی سائیں نہ لگتا تھا ۔۔ ۔۔ مجھے یاد ہے کہ ۔۔ ایک دفعہ میں نے اماں سے ویسے ہی مزاق میں پوچھا تھا کہ اماں یہ جیدا تو اچھا خاصہ عقل مند آدمی ہے ۔۔ پھر اسے سائیں ۔۔سائیں ۔۔کیوں کہتے ہیں تو اماں نے ہنس کر جواب دیا تھا کہ بیٹا۔۔۔ جیدے کو سائیں کا خطاب ۔۔ تمھارے نانا نے دیا تھا ۔۔۔وہ یوں کہ بچپن میں یہ ۔۔۔ بہت سادہ اور موٹی عقل والا بچہ تھا جس کو بڑی مشکل سے کوئی بات سمجھانا پڑتی تھی ۔۔۔ ایک دن تنگ آ کر انہوں نے کہہ دیا تھا کہ ایر جیدے ۔۔تو ۔۔۔تو سائیں لوک ہے ۔۔ بس اسی دن سے سائیں کا یہ دم چھلا اس کے نام کے ساتھ لگ گیا ہے۔ ۔۔۔
یہ سہ پہر کا وقت تھا کہ جب جیدا سائیں گاؤں کی دو عورتوں کو لیکر ہمارے گھر آ گیا ۔۔۔ چائے پانی کے بعد اماں نے عورتوں کو تو مختلف ڈیوٹیوں پر لگا دیا ۔اور حسبِ معمول جیدے کو اپنے پاس بٹھا کر اس سے گاؤں کا حال احوال لینے لگیں ۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت اماں چارپائی پر بیٹھی چاول صاف کر رہیں تھیں اور ان کے سامنے ایک چھوٹی سی "چوکی " پر جیدا بیٹھا ان کو گاؤں کے حالات سنا رہا تھا ۔۔۔ جو کہ اماں بڑے شوق سے نہ صرف سُن رہیں تھیں بلکہ بیچ بیچ میں کرید کرید کر مختلف سوالات بھی پوچھے جا رہیں تھیں کہ فلا ں کے بارے میں بتاؤ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔چونکہ میرے لیئے یہ خاصہ بورنگ سبجیکٹ ہوتا تھا ۔۔ اس لیئے جیسے ہی جیدے سائیں نے گاؤں کی روداد سنانی شروع کر دی تو میں کسی حیلے بہانے سے وہاں سے کھسک آئی ۔۔۔ میری دیکھا دیکھی وہاں پر بیٹھی اور بھی رشتے دار خواتین آہستہ آہستہ وہاں سے کھسکنا شروع ہو گئی ۔۔۔ اور حسبِ معمول آخر میں ۔۔ اماں اور جیدا سائیں ہی رہ گئے ۔۔جو بڑے جوش میں اماں سے گاؤں کے حالات شئیر کر رہا تھا۔۔۔
یہاں میں آپ کو ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ برآمدے میں جس جگہ اماں بیٹھی چاول صاف کر رہیں تھیں وہ جگہ میرے کمرے کی کھڑکی کے عین سامنے تھی ۔۔۔اور پوزیشن یہ تھی کہ میری کھڑکی سے تھوڑی ہی دور چارپائی پر اماں بیٹھی تھیں ۔۔ اوراماں کے عین سامنے جس چوکی پر جیدا سائیں بیٹھا اماں کو گاؤں کے حالات سے آگاہ کر رہا تھا ۔۔۔ وہ جگہ میرے کمرے کی کھڑکی کے بلکل نیچے واقعہ تھی ۔۔۔
جیدے اور اماں سے اُٹھ کر میں سیدھی ڈرائنگ روم چلی گئی تھی جہاں پر فیض بھائی کی بیگم اپنی دوستوں/رشتے داروں کے ساتھ بیٹھی گپیں لگا رہیں تھیں اور ٹاپک یہی شادی کی تیاریاں تھیں ۔۔۔ جیسے ہی میں کمرے میں داخل ہوئی تو بھابھی مجھے دیکھ کر ہنستے ہوئے بولی۔۔۔۔ کیا صورتِحال ہے امی کے پنڈ کی؟؟؟ تو میں نے بھی ہنستے ہوئے جواب دیا ۔۔۔۔ جیدا سائیں ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ میں وہاں سے کھسک آئی ہوں ۔۔۔ یہ کہہ کر میں ا ن کے سامنے صوفے پر جا بیٹھی ۔۔۔۔ اور ہم باتیں کرنے لگیں ۔۔ دورانِ گفتگو بھابھی کی ایک دوست نے کہا کہ ۔۔۔ تمہارا شادی کا سوٹ کیسا ہے ؟ تو بھابھی نے اپنے سوٹ کی تفصیل بتانی شروع کر دی اور پھر کپڑوں سے ہوتی ہوئی بات جوتوں کے ٹاپک پر آ گئی۔۔۔ جیسے ہی جوتوں کا ٹاپک شروع ہوا تو ۔۔۔ بھابھی نے میری طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ ۔یار جوتی تو ہما لے کر آئی ہے ۔۔۔ ۔۔۔ تھوڑی مہنگی ہے پر۔۔۔۔ کیا یونیک سٹائل ہے اس کا ۔۔۔۔ پھر وہ مجھے سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں ۔۔ ہما۔۔ ذرا اپنی مہرون والی جوتی تو لیکر کر آنا جو کل شام تم امی کے ساتھ لبرٹی سے لائی تھی ۔۔۔۔ میں نے بھابھی کی بات سُنی اور جی اچھا کہہ کر اُٹھی اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments: